دسمبر کا مہینہ ہرپاکستانی کیلئے دکھ اور تکلیف کی یاد لے کر آتاہے۔ ایک ایسا غم جوکسی اذیت سے کم نہیں اور جب تک دنیا قائم ہے یہ دکھ اور تکلیف ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کا بھی حصہ رہے گا۔ آج سے ٹھیک پچاس سال قبل 16 دسمبر 9171ء کو ہمارا پیارا وطن دولخت ہوگیا اورمشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان کی بہادر اور ناقابل تسخیرافواج کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہندوستان کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے جیسی اذیت اورہزیمت سے دوچارہوناپڑا۔ہمارا شمار ایک شکست خوردہ فوج میں ہوگیا، چاہے وجوہات کچھ بھی ہوں۔ آج بنگلہ دیش اپنے قیام کی50ویں سالگرہ منارہاہے اور پاکستان اپنے دولخت ہونے کے پچاس سال مکمل ہونے کا غم تازہ کررہاہے۔ دن ایک ہے مگر جذبات کی نوعیت ایک دوسرے سے یکسر مختلف۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سارے سانحے کا ذمہ دار کون تھا؟ اس بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکاہے۔ اب یہ سارے عوامل اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مشرقی پاکستان جوکہ قیام پاکستان سے پہلے بنگال کہلاتا تھا وہ علاقہ اور خطہ تھا جہاں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی اور تحریک پاکستان کے سرکردہ راہنمائوںمیں سے بہت سے اسی خطے سے تعلق رکھتے تھے۔1946ء کے انتخابات میں جوکہ قیام پاکستان کی بنیاد بنے میں سب سے زیادہ مسلم نشستیں بھی بنگال سے ہی تھیں جن کی تعداد119تھی جن میں سے مسلم لیگ نے 113 نشستوں پرکامیابی حاصل کی تھی، یہ نتائج اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اس وقت کے بنگال کی مسلمان آبادی نے ایک زبان ہوکر پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔ آج کا پاکستان جوکہ اس وقت مغربی پاکستان کہلاتا تھا یہاں سے صرف سندھ ایک واحد علاقہ تھا جہاں مسلم لیگ کی حکومت بنی جبکہ پنجاب اور صوبہ سرحدمیں کانگریس کی حکومتیں بنی تھیں۔ یوںمتحدہ ہندوستان کے 11 صوبوںمیں سے صرف بنگال اور سندھ میں مسلم لیگ کی حکومتیں بنیں، جبکہ باقی تمام صوبوںمیں کانگریس نے اپنی حکومتیں بنائیں۔ یہ تاریخی حقائق اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ مشرقی پاکستان کے لوگ پاکستان سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ یہاںیہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ1965ء کے صدارتی انتخابات میں بھی مشرقی پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت نے محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں ووٹ دیا تھا اور وہاں کے سرکردہ سیاسی راہنما جن میں شیخ مجیب الرحمن بھی شامل تھے جوکہ بعد میں علیحدگی کی تحریک کے روحِ رواں بن گئے وہ سب محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں پیش پیش تھے ۔یہ سب حقائق جاننے کے بعد ہرذی شعور پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال اٹھناایک قدرتی امرہے کہ پھر کیا ہوگیا کہ مشرقی پاکستان کے لوگ اتنے خلاف ہوگئے کہ ایک علیحدہ وطن بناڈالا اور پاکستان سے علیحدہ ہوگئے۔ یہ سب یقینی طور پر یکدم نہیں ہوا بلکہ اس میں چوبیس سال کی ایک مکمل داستان ہے جس میں بلاشبہ ہمارے ازلی دشمن ہندوستان کا تو ایک مرکزی کردار ہے ہی مگر ہمارے ارباب اختیار نے مشرقی پاکستان کے عوام کو اپنے سے دُورکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب لوگوں کو انکے حقوق نہ دیئے جائیں، اقلیت کو اکثریت پر مسلط کیاجائے، مسائل کو بروقت حل نہ کیاجائے، معاشی، معاشرتی، طبقاتی لسانی اورسیاسی تقسیم کو خطرناک حد تک بڑھنے دیاجائے، انصاف ناپید ہو جائے، ترقی کے ثمرات عام لوگوں تک نہ پہنچیں، عوام کو شراکت اقتدار نہ کیاجائے اور اکثریت کا فیصلہ نہ مانا جائے توپھر دشمن کا کام آسان ہوجاتاہے۔ انہی تمام عوامل نے حالات کو اس حد تک خراب کردیا کہ ہندوستان کیلئے براہ راست مداخلت بھی آسان ہوگئی، جو فوجی جارحیت کا روپ دھار گئی جس کے نتیجے میں16دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا۔ ابھی تو آزادی کا جشن بھی پوری طرح سے مکمل نہیں ہوا تھاکہ دولخت ہونے کا سانحہ دیکھنا پڑگیا، لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کی بدولت حاصل کیاجانیوالا ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی اور ایسی مثال ملتی ہو جہاں اتنی طویل اور قربانیوں سے بھرپور جدوجہد کے بعد حاصل کیا جانیوالا ملک اپنے قیام کے چوبیس سال بعد ہی ٹوٹ گیاہو۔ مشرقی پاکستان میں ہونے والی شکست کو صرف ایک فوجی شکست کہنا دشمن کا پراپیگنڈا ہے۔ پاکستان کی افواج نے بلا شبہ بھرپور طریقے سے دشمن کا مقابلہ کیاجس کا برملا اعتراف ہندوستان کی فوج کے اعلیٰ آفیسرز اپنی کتابوں اور یادداشتوں میںکرچکے ہیں۔ ملک کا دولخت ہونابلاشبہ ایک ایسا سانحہ تھا جسے کبھی بھی بھلایانہیں جاسکتا مگر اتنا ہی بڑا سانحہ یہ ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم اس المیے سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ اس سانحے کے بعد ایک کمیشن بنایاگیا تھا جسے حمودالرحمن کمیشن کا نام دیاگیا تاکہ سانحہ مشرقی پاکستان کی وجوہات کا پتہ چلاکرذمہ داروں کا تعین کیاجائے مگر آج تک باقاعدہ طور پر اس کمیشن کی رپورٹ بھی شائع نہیں کی گئی۔ ذمہ داروں کو سزا دینا تو دور کی بات ہے ان کا باقاعدہ طور پر تعین بھی نہیں کیاگیا ۔وہ تمام عوامل جو اس عظیم اور ناقابل فراموش سانحے کی وجہ بنے،ان میں سے بیشترکسی نہ کسی صورت میں آج بھی موجود ہیں، دشمن بھی وہی ہے اور اسکی سازشیں بھی پہلے سے زیادہ جوش وخروش سے جاری ہیں، آج بھی ملک کے مختلف علاقوں سے بدستور ایسی آوازیں سننے کو ملتی ہیں جن سے1971ء کا مشرقی پاکستان یاد آجاتاہے۔ ہم تو ایک ذلت آمیز شکست اور ناقابل تلافی نقصان اٹھاکر بھی بھول گئے مگر بنگلہ دیش کی اشرافیہ ایک علیحدہ ملک اور فتح حاصل کرنے کے بعد بھی کچھ باتوں کو نہیں بھولی۔ شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ جو آج بھی بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہے وہ پاکستان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ لاکھوں بہاری مسلمان جو ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آئے تھے ان کے خاندان آج بھی خیموںمیں اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مودی اور حسینہ واجد کا گٹھ جوڑ آج بھی پاکستان دشمنی میں کوئی کسراٹھانہیں رکھتا۔جہاں آج ہم اس سانحے کے پچاس سال گزرنے کو یاد کررہے ہیں وہیں پربنگلہ دیش اپنی آزادی کی گولڈن جوبلی منارہاہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ پچاس سال قبل ہم سے جدا ہونے والا ملک جوکہ معاشی لحاظ سے اس وقت بہت پیچھے تھا آج ہمیں کہیں پیچھے چھوڑگیاہے۔ بنگلہ دیش کی معاشی اور معاشرتی ترقی دنیا کیلئے ایک مثال ہے جبکہ ہم ہرلحاظ سے تنزلی کا شکارہیں، ہم نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھنے کا تہیہ کررکھاہے، ہماری نوجوان نسل کو صحیح معنوںمیں پتہ ہی نہیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان کیا ہے؟ اور نہ ہی حکومتی سطح پر آگاہی کیلئے کوئی باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے۔ نصاب تعلیم میں بھی اب اس عظیم سانحے کا ذکر کم ہی ملتاہے جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں وہ کبھی اپنی اصلاح نہیں کرسکتیں اور ہمارے ساتھ یہی کچھ ہورہاہے، اگریہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو اورکچھ عرصے بعد آنے والی نسل جنہیں شاید یاد بھی نہ ہوکہ مشرقی پاکستان بھی کبھی ہمارا حصہ تھا۔