آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ ایک بڑا سانحہ ہے جسے کوئی بھی پاکستانی بھلا نہیں سکتابلکہ دنیا بھی اس سانحہ کو کبھی بھلا نہ سکے گی ۔دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر ایک تعلیمی درس گاہ پر حملہ کرکے علم کا دیا بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ننھے شہیدوں نے اپنے خون سے علم کا دیا ایسا روشن کیا کہ اب اس علم کے دیے کو کوئی طوفان بھی بجھا نہ سکے گا۔ آج اس سانحہ کوسات برس بیت جانے کے باوجوداس پر کچھ لکھنے کی جب کوشش کی تو ہاتھ کانپنے لگے اوردل خون کے آنسو رونے لگا لیکن ایک روحانی طاقت تھی جو ان ننھے شہیدوں کے والدین کو دیکھ کر پیدا ہوئی کہ حالات کیسے بھی ہوں، ہمت کبھی نہیں ہارنی، زندگی کو جینا ہے اور آگے بڑھنا ہے اسی ہمت اور جذبے نے میری قلم کو روحانی طاقت بخشی اور میں کانپتے ہاتھوں کے ساتھ لکھنے لگا۔ 2014 کے بعد سورج جب بھی طلوع ہوتا ہے تو ہرآنکھ وہ منظر یاد کرکے اشکبار ہوجاتی ہے جب دہشتگردوں نے مائوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کردیئے۔دنیا کی تاریخ میں کسی بھی تعلیمی ادارے پر ہونیوالا یہ اپنی نوعیت کا ایک ایساپہلا حملہ تھاجس میں سکول کے معصوم اور بے گناہ بچوں پر بارش کی طرح گولیاں برسائی گئیں اور انھیںان ہی کے پاک خون میں نہلادیا گیا ۔وہ دہشت گرد کیسے سفاک،کیسے سنگدل ،کیسے بے رحم تھے،وہ انسان تھے یا شیطان؟ انسان کی کھال میں چھپے درندے جب سکول کے پیچھے دیوار پھلانگنے کیلئے قبرستان میں سے گذر رہے تھے تب بھی انھیں روز قیامت کا خوف نہیں آیا۔وہ درندے قبریں پھلانگتے،انکی بے حرمتی کرتے ہوئے گذرتے گئے اور ایک لمحہ کیلئے یہ بھی نہیں سوچاکہ مائوں کی گود اجاڑنے کے بعدمیدان حشر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی سفاکیت کاکیا جواب دینگے۔ تاریخ کی بدترین مثال بننے والے اس سانحہ میں آٹھ سال سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے 132معصوم طلباء سمیت 149 افراد شہید ہوئے۔ان شہیدوں میں سے کسی ایک کی زندگی پر لکھ کر دیکھ لیں،آپکے قلم کی روشنائی ختم ہوجائیگی آپکی سوچ ختم ہوجائیگی لیکن شہید کی کہانی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ان ننھے شہیدوں میں سے کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا تو کوئی انجینئر،کوئی حافظ قرآن تھا تو کوئی ماہرسائنس وریاضیات ،ہر بچہ ذہین اورہونہار تھا۔دہشت گرد یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں زیر تعلیم بچہ بچہ مستقبل کا روشن معمار ہے۔ درندگی کا مظاہرہ کرنے سے پہلے دہشت گردوں نے معصوم طلباء سے کبھی انکی تعلیمی قابلیت پوچھی تو کبھی رشتہ داریاں ۔جب کوئی ننھا شہید بتاتا کہ وہ ڈاکٹربننا چاہتا ہے تواسکے سینے میں گولی ماردی جاتی،جب کوئی کہتا کہ انجینئر بننا ہے تو اسکے سر میں گولی ماردی جاتی یہاں تک کہ حافظ قرآن بچوں کے سینوں پر بھی گولیاں چلا تے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ جس سینے پر وہ گولی مار رہے ہیں اسکے اندر قرآن پاک محفوظ ہے۔لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کی ایک نرس کی سانحہ سے متعلق بتائی ہوئی بات رونگٹے کھڑے کردینے کیلئے کافی ہے۔نرس کیمطابق آرمی پبلک سکول کے ایک بارہ تیرہ سال کے بچے کو جب ریسکیو کرکے ہسپتال میں لایا گیا تو اسکے جسم سے خون بہہ رہا تھا ،دہشت گردوں کی گولیاں لگنے سے اسکے سر،جسم اور ٹانگوں پر خون ایسے رس رہا تھا جیسے پانی کا نل کھل گیا ہو،باوجود کوشش کے خون رک نہیں رہا تھا ،اس تشویشناک حالت میں بھی شدید زخمی بچے کے منہ سے قرآن پاک کی تلاوت کی آواز سنائی دے رہی تھی کیونکہ بچہ حافظ قرآن تھا۔جوں جوں اس بچے کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی اسکی آواز لڑکھڑانے لگی لیکن اس نے تلاوت نہ چھوڑی یہاں تک کہ وہ بچہ شہید ہوگیا۔اس واقعہ نے ہسپتال کے ڈاکٹر، نرس اوردیگر عملہ کو خوف میں مبتلا کردیا کہ کس طرح ایک حافظ قرآن بچے نے مرتے دم تک تلاوت نہیں چھوڑی اوردوسری جانب اسکو شہید کرنیوالے کس مذہب کے ہیں کہ جنہیںمعصوم اور بے گناہ بچوں کو بے دردی سے شہید کرتے ہوئے ذرا بھی رحم نہیں آیا۔اس تاریخی سانحہ میں دل دہلا دینے والے ایسے بے شمار واقعات رونما ہوئے جنھیں کسی ایک کالم ،آرٹیکل،خصوصی ایڈیشن حتیٰ کہ کتابوںمیں بیان کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ آرمی پبلک سکول میں شہید ہونیوالے بچوں کی چہچہاتی آوازیں ،مسکراہٹیں انکے والدین کو آج بھی سنائی دیتی ہیں،کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انکے کانوںمیںاب بھی شہید پرنسپل طاہرہ قاضی کی جرأت مندانہ آواز گونجتی ہے کہ’’ پہلے میری جان جائیگی پھر ننھی جانوں کو کچھ ہوگا۔‘‘ دہشت گردوں کی کمر تو اسی وقت ٹوٹ گئی تھی جب سکول کے زخمی بچوں نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ آپ ہمیں زخمی بچہ نہیں بلکہ زخمی فوجی سمجھیں۔‘‘ننھے شہیدوں کا لہو اور یادیں آج بھی تازہ ہیں اور ہمیشہ تازہ رہیں گی۔