اسلام آباد (رپورٹ: عبدالستار چودھری) پاک فوج کے آرمی میوزیم میں آئندہ نسلوں کے لئے جنگی ریکارڈ مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ مسخ شدہ تاریخ کی تصحیح کرنے کی بھی سعی کر رہا ہے۔ 1948 اور 1965 کی جنگوں میں دشمن کو دھول چٹانے کے علاوہ 1971 کی جنگ کے واقعات کی غلط رپورٹنگ کو دستاویزی ثبوتوں کے ذریعے بھارتی پراپیگنڈا ثابت کیا گیا ہے۔ پاکستان کے علاوہ برصغیر کی جنگی تاریخ مرتبے کرنے کے ساتھ ساتھ دفاع کے شعبہ میں پاکستان کو محفوظ بنانے کے سلسے میں ملنے والی کامیابیوں کو بھی مختلف گیلریوں کی زینت بنایا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق راولپنڈی کا آرمی میوزیم 1960 میں ایک ویئر ہائوس میں شروع کیا گیا جس کا افتتاح اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل موسی نے کیا، 1986 میں جنرل کے ایم عارف نے 1986 میں باقاعدہ عمارت کا سنگ بنیاد رکھا، 2009 سے 2013 تک اس عمارت کو ری ڈیزائن کیا گیا اور جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس کا افتتاح کیا۔ ابتداء میں یہ میوزیم صرف غیرملکی وفود کے لئے مختص تھا لیکن 2017 میں اس کو عوام کے لئے کھول دیا گیا۔ آرمی میوزیم محض ایک عمارت ہی نہیں بلکہ برصغیر کی عسکری اور پاکستان بھارت کی جنگی تاریخ کا عجائب خانہ ہے۔ اس میوزیم میں جہاں تقسیم کے موقع پر مہاجرین کی پاکستان آمد، ان کی حفاظت اور ان کی آبادکاری کے متعلق فوج کی خدمات کے متعلق معلومات موجود ہیں تو دوسری جانب جنگوں کے دوران استعمال ہونے والے عسکری ہتھیار، آلات اور دشمن سے چھینا گیا اسلحہ بھی موجود ہے۔ نشان حیدر پانے والے میجر عزیز بھٹی شہید، میجر اکرم شہید، میجر شبیر شریف شہید کی پسندیدہ ذاتی موٹر سائکلوں کے علاوہ دیگر شہداء کے زیراستعمال اشیاء بھی موجود ہیں۔ آرمی میوزیم میں 1965 کی جنگ کے دوران شام کی چائے اور رات کی شراب و شباب پارٹی لاہور جم خانہ میں سجانے کے دعویدار 15ویں بھارتی ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل نرنجن پرشاد کی جیپ جسے وہ چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے اور ایک اور اور دیگر آلات بھی موجود ہیں۔ آرمی میوزیم میں1971 کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر دونوں ممالک کی مسلح افواج کی تعداد اور آلات حرب کے حوالے سے موازنہ بھی موجود ہے اس کے علاوہ 1965جی جنگ میں بھارت کی ہزیمت کے نشانات کو بھی محفوظ کیا گیا ہے۔ میوزیم میں 1971 کی جنگ کے دوران بھارتی بریگیڈیئر ہردت سنگھ کلیر کا ایک خط بھی موجود ہے جو انہوں نے اس وقت جمال پور محاذ پر برسرپیکار بریگیڈیئر سلطان احمد کو لکھا جس میں انہیں ہتھیار ڈالنے کا کہا گیا اور بریگیڈیئر سلطان احمد کا جوابی خط بھی محفوظ کیا گیا جس میں انہوں نے بھارتی فوج کو باتیں کرنے کی بجائے حملہ کرنے کی ترغیب دی اور پاکستانی دستہ لڑتے ہوئے وہاں سے نکلا اور بحفاظت پاکستان پہنچا اور بریگیڈیئر سلطان احمد نے بعدازاں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی بھی پائی اور ریٹائر ہوئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاک فوج نے جنگ میں اپنے وسائل اور حالات کے مطابق بھرپور لڑائی لڑی۔ اس حوالے سے معلومات بھی میوزیم میں موجود ہیں کہ کس طرح بھارت نے جعلی پراپیگنڈے کے ذریعے 30 ہزار پاکستانی فوجیوں کی تعداد کو 90ہزار میں تبدیل کر دیا تھا۔ میوزیم میں1948 سے لے کر معرکہ کارگل تک اور دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کی تفصیلات کو بھی اگلی نسلوں کے لیے محفوظ کیا گیا اس کے علاوہ نشان حیدر پانے والے 11 شہیدوں کے بارے میں مکمل تفصیلات میوزیم میں موجود ہیں۔ اس میوزیم میں مگر ماضی کے نشانات ہی نہیں، مستقل کے عزم اور دفاع کے ناقابل تسخیر ہونے کے شواہد بھی موجود ہیں، پاک فوج کے ایک روایتی سے جدید فوج اور روایتی بندوقوں اور فوجوں ٹینکوں سے میزائل ٹیکنالوجی تک کے سفر کے نہ صرف شواہد موجود ہیں بلکہ یہ گیلری مستقبل کے معماروں کو یہ بھی بتاتی دکھائی دیتی ہے کہ نصر میزائل سے ابابیل اور شاہین ، اور شاہین سیریز IIIمیزائل تک دشمن کے کن کن اہداف کو کہاں کہاں نشانہ بنا سکتا ہے۔