بدگمانی اجلے اور شفاف دل کو سیاہ اور بد نما بنا دیتی ہے

ہم دوسروں سے بدگمان کیو ں ہوتے ہیں ؟
(پیر احمد ثقلین حیدر چوْرا شریف)
کیا آپ اْس بیج کے نام سے آگاہ ہیں جس میں اِتنی قوت اورطاقت موجود ہوتی ہے کہ اْس سے نفرت ،حسد، کینہ اور عداوت کے کئی پودے بیک وقت جنم لے سکتے ہیں اْس کانام ’’بدگمانی ‘‘ہے۔
وہ رزائل جو اِنسان کے کردار کو ناپسندیدہ اور سیرت کو میلاکردیتے ہیں ،ان میںبھی جس بیماری کا نام سب سے اہم ہے ،یہی وہ بدگمانی ہے۔دوستی اور محبت وہ پاکیزہ رشتہ اور لطیف جذبہ ہے جو ہر آزمائش اور امتحان کا سامنا کرلیتاہے مگروہ چیز جس کے آگے یہ بھی بے بس ہوجاتاہے، وہ بھی بدگمانی ہے۔
بدگمانی اْجلے ،نکھرے ،شفاف دل کو بھی سیاہ اور بدنمابنادیتی ہے، دلکش اور پرکشش شخصیت کو بھی عیب دار اور بدصورت بنادیتی ہے۔
ہمارے آقاکریم ؐ کا ارشاد پاک ہے کہ ’’بدگمانی سے بچو،کیونکہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔‘‘ ’’ہر مومن کے ساتھ نیک گمان رہو۔‘‘بزرگان دین فرماتے ہیںکہ اگر کسی میں بدگمانی کے 99دلائل (نشانیاں )موجود ہوں، لیکن ایک راستہ حْسنِ ظن کا ہوتو عافیت اِسی میں ہے کہ حْسنِ ظن کے راستے کو اختیار کرلیا جائے کیوںکہ بدگمانی پر ہمارے رب  قیامت کے دن ہم سے فرمائیں گے کہ بدگمانی کے تمہارے پاس کیا دلائل تھے؟اِس کے برعکس نیک گمان پر انعام عطا فرمائیںگے۔
ہم جس دین سے تعلق رکھتے ہیںاِس میں تو کسی کے متعلق اچھا گمان رکھنے پر بھی اجر ملتا ہے جو قیامت والے دِن ہماری نیکیوں والے پلڑے میں موجود ہوگا۔
دنیائے اِسلام کے عظیم مفکر،متکلم،فقیہ اورصوفی امام غزالی فرماتے ہیںکہ:’’اگر آپ کے دل میںکسی کے متعلق بد گمانی پیدا ہوگئی ہے تو اِس کے ساتھ تعلقات اور محبت کو مزید بڑھائو،دوستی مضبوط کرو تمہارے ایساکرنے سے ابلیس غضب ناک اورپریشان ہوگا اور بدگمانی کم ہوجائے گی۔
ایک بڑے مشہور عربی مقولے کا ترجمہ ہے کہ’’جب کسی کے کام بْرے ہوجائیں تواِس کے گمان بھی بْرے ہوجاتے ہیں۔‘‘
حضرت شاہ محمود الدین دوران سفر کسی قصبے سے گزرے تو پتا چلا کہ اِس قصبے میںکوئی نیک بندہ رہتا ہے۔آپ اْس کی شہرت سْن کر وہاں پہنچے تو دیکھا کہ بہت سے افراد اْس کے گرد جمع ہیں،محفل جمی ہوئی ہے،آپ بھی جا کر بیٹھ گئے۔جب اْس کی نظر ٹھہری تو آپ نے اپنا تعارف کروایا،تواْس نے آپ ہی کے گائوں کے کسی شخص کے متعلق کوئی ناپسندیدہ جملہ بول دیا۔یہ سْن کر آپ وہاں سے باہرنکل آئے اورفورًا اپنے رب سے معافی مانگی کہ میرے دل میں سے کسی کی بدگمانی نہ پیدا ہوجائے، پھر جب واپس گاؤں پلٹے تو فورًا ْسی شخص کیپاس چند تحفے لے کر گئے تاکہ محبت یا تعلق میں کوئی کمی نہ آجائے۔
بدگمانی اْس غلط نمبر کی عینک کی طرح ہوتی ہے جس سے نظر آنے والا منظر دھندلا ،راستہ ٹیڑھا اور چہرہ بگڑانظر آتاہے ،دل میں بدگمانی رکھنے والے شخص کو تو کہیں اچھائی نہیںدکھائی دیتی۔
ایک حکایت ہے کہ کس محلے میں ایک شخص نے بڑا شاندار مکان تعمیرکروایا مگرمحلے میں وہ کسی سے ملتا جلتا نہیںتھا ،کسی کے دکھ سکھ میں شریک نہیں ہوتاتھا ،محلے دار اکثر اْس کے متعلق یہ گمان رکھتے کہ یہ بڑا مغرورانسان ہے ،کوئی کہتا کہ بڑابداخلاق شخص ہے ،الغرض جتنے مْنہ اْتنی باتیں ،مگر اِسی محلے میںسبزی والا کچھ گھرانوںمیں سبزی دے دیتا ،دودھ والا دودھ دے دیتا،کریانے والاکم قیمت پر سودادے دیتا پھر ایک دن وہ وفات پاگیا ،تو مفت دینے والوں نے مستحق گھرانوں کو مفت سبزی اوردودھ دینے سے اور قیمت کم کرنے سے انکا ر کردیا ،چند معزز لوگوں نے جب اْن سے وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا کہ جوشخص فوت ہوگیا ہم اْسی کے حکم پر یہ نیک عمل کرتے تھے۔
بعض اوقات ہم معاملات کا پس منظر اوراْن کی حقیقت جانے بغیرصرف سْنی سنائی باتوں پر نفرت کی عمارت کھڑی کرلیتے ہیں اورپھر حیرت انگیز اورمضحکہ خیز بات یہ ہے کہ صرف اِسی پراکتفا نہیں کرتے بلکہ جہاںتک ہوسکے اْس نفرت کوعام کرتے ہیں،باقاعدہ نفرت پھیلاتے ہیں یہ تو ہمار ا عمل ہے۔
یادر کھیے !جس شخص کے دل میں اپنے مالک کا خوف ہوگا ،جو شخص اِسلام کی تعلیمات سے روشناس ہوگا ،جس اِنسان کے اخلاق میں بلندی ،فکر میں بالیدگی ،خیالات میں عمدگی ،ذہن میں تروتازگی اور سوچ میںشگفتگی ہوگی ،وہ کبھی بھی بدگمانی کا شکار نہیں ہوگا اوراس کے برعکس وہ شخص جو رب سے ڈرنے والا ہوگا اوراْس کے دل میں ذرا سا بھی آخرت کا خوف ہوگا وہ کبھی بھی اپنے دل کو بدگمان نہیں ہونے دے گا۔
بدگمانی ،مزاج کی ناہمواری ،ذہن کی طفولیت ،فکر کی غربت اور فراست ودانش کی کمی کے باعث دل میں جگہ بنالیتی ہے، افسوس ناک ترین امر تویہ ہے کہ آج ہمارا شایدہی کوئی شعبہ حیات ایسا ہو جو اس سے محفوظ رہاہو۔
اِس بیماری سے بچنے کا علاج یہ ہے کہ سنجیدگی سے اِس بات پر غور کیا جائے کہ جب تک ہمارے دل میں بدگمانی کی آگ جل رہی ہوگی اْس وقت تک ہم اپنے خالق ومالک کے پسندیدہ بندوںمیں شامل نہیں ہوسکتے،نیز یہ کہ بد گمانی شیطان کا ایک جال ہے اور وہ ہمیں اپنے اس جال میں پھنسانا چاہتا ہے۔اپنے آپ کو عذاب الٰہی سے ڈرائیے کہ میری حال تو یہ ہے کہ میں معمولی ساعذاب بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں،پھر یہ ہے کہ اگر آپ نے کسی سے تیسرے شخص کی برائی سْنی ہے تو یہ سوچئے کہ ہوسکتا ہے اس شخص نے ذاتی عناد یا باطنی کدورت کی بنیاد پر اْس شخص کے متعلق ہمارے دلوں میں بدگمانی پیدا کی ہو تاکہ ہمارے دلوں میں تیسرے شخص کی نفرت پیدا ہو جائے اورہم اْس سے دور ہوجائیں اوریہ بات بھی ہمیشہ یادرکھیے! کہ سْنی سنائی باتوں پر یقین کر لینے والا اکثر زندگی کی دوڑ میںپیچھے رہ جاتا ہے۔
یادرکھیے!اگر نیت میںکھوٹ اوردل میں بدگمانی ہوتو برکتیں اْٹھ جایاکرتی ہیں، پھر وہ گھر ہویا خاندان،وہاں بے برکتی راج کیاکرتی ہے۔ہمارا خالق ومالک ہمارے دلوں کو پر بہار بنائے اورتن کی وادیوںکو محبت والفت کے پھولوں سے آباد فرمائے۔

ای پیپر دی نیشن