ڈاکٹر مقصودہ حسین
maqsoodabhatti74@gmail.com
کیا واقعی ہمیں اس سانحہ عظیم کو بھول جانا چاہئے؟
دو سال سے گھروں سے دور پاک فوج کے جوانوں کو ہواؤں میں امان تھی نہ سمندروں میں
پانی کے ٹینکوں میں زہر ملا دیا جاتا، ملازم گولی مار دیتے، نعشیں پڑی پڑی سڑ جاتیں
فوجیوں اور شہری آبادی کو برسوں بھارتی فوجیوں کی قید میں رہنا پڑا
کہا جاتا ہے کہ مغربی پاکستان سے رہائی کے وقت شیخ مجیب نے روتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اب میرے ہاتھ میں کچھ نہیں رہا میں جا کر کیا کر سکتا ہوں؟‘‘
……………
درختو ں کا پتے گرانے کا موسم
ہے آنکھو ں کا آنسو بہا نے کا موسم
یہ ما ہِ دسمبر بڑا ہی ستم گر ،
کہ بچھڑے ہوئے یا آنے کا مو سم
……………
یہ قطعہ تو میں نے کسی اور خیال سے لکھا تھا لیکن آج میں اس کو ایک اورخیال سے لکھ رہی ہوں۔دسمبر پر بہت سی شاعری لکھی گئی ہے۔ نہ جانے اس مہینے میں ایسی کون سی بات ہے کہ شاعروں نے اس کو مو ضوع خا ص بنایا اور باقی مہینوں کو سوائے نو مبر کے کو ئی خاص اہمیت نہ دی۔ دسمبر آتا ہے تو اپنے ساتھ بہت ساری یا دو ں کولاتا ہے۔ مجھے ا پریل 1971ء کا مہینہ اور کو ئٹہ کا شہر یاد آنے لگتا ہے۔ اور پھر اپنی زندگی کا وہ دردنا ک اور بھیا نک عہد ، جو اب ایک ڈرائو نے خواب میں تبدیل ہو چکا ہے یا د آنے لگتا ہے ۔وہ عہد جس کا اختتام 16 دسمبر 1971 ء کو ہوا تھا ۔ ہمیںکو ئٹہ گئے ہو ئے ابھی چند ہی ماہ گزرے تھے ، کہ ہم ستمبر 1970 ء میں وہا ں پہو نچے تھے ۔ اس سے بیشترہم راولپنڈی میں تھے جہا ں میرے والد کی پو سٹنگ تھی ۔ میرے والد کی پرو مو شن بطور فل کرنل ہوئی اور ان کا تبادلہ کو ئٹہ میں موجود ایک ڈو یژ ن میں بطور کرنل سٹاف ہو گیا۔
ملک میں جب دسمبر1970ء میں آزادی کے 23 برسوں کے بعد ملک کے پہلے الیکشن ہوئے تو ہم کوئٹہ میں تھے۔
مجیب کی عوامی لیگ نے07 1 نشستیں حا صل کی تھیں۔ اور اسے اکثریت حا صل تھی۔ عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے علا وہ اس وقت ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی، خان عبدالقیوم خان کی مسلم لیگ قیو م اور جمیعت العلمائے اسلام کی نشستو ں کے ساتھ مل کر مجیب کی دو تہائی اکثریت بن رہی تھی۔کئی ما ہ تک قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلا نا ایک قومی سانحہ تھا۔فروری1971 ء میں پہلی دفعہ اجلاس طلب کیا گیا لیکن بعد میں اچانک تاریخ تبدیل کر دی گئی۔جس کے بعد یکم ما رچ کو دوسری دفعہ سیشن بلا نے کی تاریخ د ی گئی۔ لیکن ایک روز اچانک صدر جنرل یحیٰ اور ذوالفقار علی بھٹو کی کئی گھنٹو ں کی ایک طویل ملا قا ت کے بعد اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ ایک دفعہ پھر ملتوی کر دی گئی۔ اور تیسری تاریخ 25 ما ر چ کی دی گئی۔ بنگال میں چونکہ پہلے ہی ایک محرومی کا تائثر پایا جاتا تھا کہ مغربی پاکستان سے ان پر حکمرانی کی جا تی ہے۔ ان کو ان کے حقوق نہیں دئے جاتے اس لئے ان میں شکو ک و شبہا ت کا جنم لینا ایک فطری عمل تھا۔ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا ۔
مشرقی پاکستان میں بنگا ل کے دفاع کے لئے فوج کی تعداد بہت کم تھی۔ اس کے بعد جب حالات کنٹرول سے باہر ہو نے لگے اور دنیا نے بھی دیکھ لیا کہ بھا رت کھلم کھلا مشرقی پاکستان میں گھس کر ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے تو ا ن حالات میں چاہیے تو یہ تھا کہ اپنی اس سوچ کے مطا بق کہ مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کا دفا ع کیا جائے گا ، یہا ں سے کا روائی کی جا تی۔ لیکن یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں افواج کو بے یا رو مدد گا ر چھو ڑ دیا گیا۔ ادھر مشرقی پاکستان کے اندر سیا سی حالا ت بھی خراب ہو تے گئے۔ یعنی نہ تو فوجی اور نہ ہی سیا سی، کو ئی کوشش نہیں کی گئی کہ حالا ت کو معاملہ فہمی سے سلجھا یا جائے۔ وہا ں کے لوگو ں میں احساس محرومی بڑھ رہا تھا جس کا بھا رت نے بھر پو ر فائدہ اٹھایا ۔جب دو دفعہ بغیر کوئی وجہ بتا ئے قومی اسمبلی کا اجلا س ملتوی کر دیا گیا تو شیخ مجیب نے سات مارچ کو ایک یا دگار تقریر کی جس میں انہو ں نے اپنے گلے شکوے بیان کئے۔
بد قسمتی سے 26 ما رچ 1971ء کو بنگال میں آپریشن سرچ لا ئٹ شروع کر دیا گیا۔شیخ مجیب الرحماٰن کو گرفتا کر کے مغربی پاکستان بھیج دیا گیا اور فوجی قوت سے حالا ت پر قابو پانے کی ناکا م کو شش کی گئی۔ حالات بگڑتے گئے اور آخر کار 16 دسمبر 1971ء کو 54فیصد آبادی والا ہما رے ملک کا حصہ الگ ہو گیااور بنگلہ دیش بن گیا۔کیا اس سے یہ بہتر نہ ہو تا کہ مجیب کے مطالبا ت پو رے کرتے ہو ئے فوج مارشل لاء ختم کر کے اپنی بیرکو ں میں چلی جاتی ، اور اقتدار منتخب نما ئندو ں کو دے دیا جا تا۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہو تا وہ اس سے تو برا نہ ہو تا جو بعد میں ہوا۔
صاف نظر آرہا تھا کہ بنگال کا سیا سی حل جلد از جلد نکالنا چاہیے۔ اور یہ بھی سوچنے کی بات تھی کہ مغربی پاکستان تو ان سے سینکڑوں میل کی دوری پر تھا لیکن بھا رت جو ہما را ا زلی دشمن ہے اس نے تو ہما رے ملک کے اس حصے کو تین اطراف سے گھیرا ہو ا ہے۔ وہ تو ہر مو قعے سے فائدہ اٹھائے گا اور جو اس نے بعد میں اٹھایا بھی۔ ہم کیسے اس حقیقت سے نظریں چرا سکتے تھے کہ ہمیں معاملہ فہمی اور بات چیت سے اپنے نا راض بھا یئو ں کے گلے شکوے دور کرنے پر توجہ دینی ہے۔ کیا کو ئی اپنے ذاتی مفا د کے لئے اتنا بھی خود غرض ہو سکتا ہے کہ پورے ملک کو دائو پر لگا دے؟ ۔ ہم میں سے بعض لو گ لا علمی میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہاں پر90 ہزار جنگی قیدی سب کے سب فوجی تھے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ باقاعدہ فوجیو ں کی کل تعدادتقریباً 22 یا 23 ہزار کے قریب تھی۔ با قی لوگ وہ تھے جو یا تو عورتیں اور بچے تھے جو لو گ وہا ں ساتھ لے گئے تھے یا پھر وہ سویلین تھے جو وہا ں حکو مت میں اپنے فرائض انجا دے رہے تھے۔ مشہو ر و معروف ادیب مسعود مفتی مر حوم بھی ان دنو ں ڈھا کہ میں بطور ایجوکیشن سیکرٹیری اپنی خدمات انجا م دے رہے تھے۔ ایسے ہی اور بے شما ر لوگ تھے۔
آپ اندا زہ لگا سکتے ہیں ان فوجیو ں کا کہ جو دو دو سال سے اپنے گھر والو ں سے دور ان حالا ت میں لڑائی لڑ رہے تھے۔ نہ ان کو
ہوا ئو ں میں امان، نہ انہیں سمندرو ں میں حفا ظت اور زمین پر پر بھی حالات ایسے کہ ان کے پا نی کے ٹینکو ں میں زہر ملا دیا جا تا، ان کے ملا زم انہیں گو لی مار دیتے اور لا ش وہیں پڑے پڑے سڑ جاتی۔ اپنے ہی بھا ئی بند جا نی دشمن بن گئے تھے۔ ان حالا ت میں ان کی بے بسی کا اندا زہ کریں۔اب یہ سوال بے معنی نہیں ہے کہ اس بات کی کھو ج لگائی جا ئے کہ یہ کیو ں ہو ا؟ وہ کو ن سے عوامل تھے کہ وہ ڈھا کہ جہا ں مسلم لیگ کا قیا م ہو ا ، جہا ں کے لیڈر نے سب سے پہلے پا کستان کی قرارداد پیش کی جو سچے اور محب وطن پاکستانی تھے وہ آج اس قدر غیریت برت رہے تھے۔ سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ جب شیخ مجیب کو حالا ت کے بہت زیا دہ خراب ہو نے پر مغربی پاکستان سے رہا کر کے واپس بھیجا جا نے لگا تو اس وقت شیخ مجیب نے روتے ہو ئے کہا کہ اب میرے ہا تھ میں کچھ نہیں رہا۔ میں جا کر کیا کر سکتا ہو ں۔
میرے والد جب وہا ں گئے تھے تو صرف بیا لیس برس کے تھے۔ واپس آئے تو 46برس کے تھے۔ اس کے بعد 54 برس کی عمر میں دماغ کی رگ پھٹ جا نے سے فوت ہو گئے۔ وہ جتنی دیر آنے کے بعد جئے انہیں یہی دکھ رہا کہ ہم نے کیا کیا؟ ۔
قا رئینِ کرام چند روز پہلے میں نے ایک فنکشن میں جب یہ ذکر کیا کہ کیا سولہ دسمبر کے حوالے سے بھی کسی تقریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے تو جواب میں مجھے یہ سننے کو ملا کہ اس روز کو تو بھلا دینا چاہیے۔ کا ش ہم نے اس سانحہ کے ذمہ داران کا تعین کر کے انہیں قرار واقعی سزائیں دی ہو تیں ۔ تا کہ آئیندہ ایسا کو ئی واقعہ ہما ری تا ریخ میں نہ ہو۔آمین