ارشاد احمد ارشد
اندراگاندھی نے مشرقی پاکستان سے علیحدگی کی راہ ہموار کی
بھارتی فوج نے مکتی باہنی کی مدد سے پاک فوج کی راہ میں مصائب کے پہاڑ کھڑے کر دیئے
بنگالی مسلمان تحریک آزادی اور قیام پاکستان کی تحریک میں مغربی پاکستان کے مسلمانوں سے کہیں زیادہ پُرجوش اور سرگرم تھے
………………
اندرا گاندھی بخوبی جانتی اور سمجھتی تھیں کہ مشرقی پاکستان بھارت کا حصہ نہیں بن سکتا اس کے باوجود اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئے فضا ہموار کی ، تخریب کاری ودہشت گردی کروائی ، مکتی باہنی کی بنیاد رکھوائی ، پاک آرمی میں نقب لگوائی ، علیحدگی پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کی اور آخر میں مکتی باہنی کی عملی مدد کرتے ہوئے اپنی فوج مشرقی پاکستان میں داخل کردی ۔ مکتی باہنی نے بھارتی فوج سے مل کر پاک آرمی کو بے دست وپاکردیا اور مشکلات ومصائب کے پہاڑ کھڑے کردیے ۔ محب وطن بنگالیوں کو چوکوں ، چوراہوں ، گلیوں ، بازاروں ، مسجدوں ، مدرسوں ، کھیتوں میں ذبح کردیا گیا ۔ غیروں کی عیاریاں ، مکاریاں، اپنوں کی غداریاں رنگ لائیں اور16دسمبر کو پاک آرمی نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ۔ اندراگاندھی نے جو بھیانک کھیل مشرقی پاکستان میں کھیلا بھارتی افواج اور مکتی باہنی نے جوسلوک محب وطن بنگالیوں سے کیا آج بھارتی حکمران وہی سلوک کشمیری مسلمانوں سے کر رہے ہیں ۔ بنگالی مسلمانوں میں بے اعتنائی اور بیوفائی کے بیج راتوں رات نہیں اگ آئے تھے بلکہ اس کے پیچھے ایک لمبی منصوبہ بندی تھی ۔ علیحدگی کے خاکوں میں رنگ بھرنے والی صرف اندراگاندھی ہی نہیں بلکہ اس میں ہمارے اپنے بھی شامل تھے ۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ علیحدگی کے خاکوں میں رنگ بھرنے میں اگر اپنوں کی بیوقوفی ، بیوفائی اور حصول اقتدار کی اندھی ہوس شامل نہ ہوتی تو مشرقی پاکستان کبھی بھی الگ نہیں ہوسکتا تھا ۔ 1971ء میں ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور جرنیلوں نے جو جو مجرمانہ حماقتیں کیں ، ہماراآج کا حکمران طبقہ مسئلہ کشمیر پر وہی حماقتیں دوبارہ کررہا ہے، ہر وہ قدم اٹھایا جارہا ہے جو تحریک آزادی کشمیر کو کمزور کررہا اور اہل کشمیر کو پاکستان سے دور لے جارہا ہے ۔ بنگالی مسلمان تحریک آزادی اور قیام پاکستان کی تحریک میں مغربی پاکستان کے مسلمانوں سے کہیں زیادہ پرجوش اور سرگرم تھے لیکن جب قیام پاکستان کے بعد ہماری طرف سے ان کے ساتھ مسلسل زیادتیاں ہوئیں ، ان کی حق تلفی کی گئی ، ان کے حقوق تسلیم نہ کئے گئے اور ان کی عزت نفس پامال کی گئی تو پھر ان کا ردعمل بھی شدید تر ہوا ۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کا قیام لاالہ الااللہ کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا تھا کلمہ توحید کا رشتہ بلاشبہ بہت مضبوط ، پکا اور پختہ رشتہ ہے ، اس رشتے کی مضبوطی اور پختگی کے سامنے دنیا کے سارے رشتے ہیچ ہیں لیکن کلمہ توحید کے رشتے کے کچھ تقاضے بھی ہیں جب یہ تقاضے پورے ہوں تو پھر ہی یہ رشتہ استوار اور مستحکم ہوتا ہے ۔ مشرقی اور مغربی بازو کے باہمی تعلق میں جس طرح کلمہ توحید کی حرمت پامال کی گئی اور اسلامی بنیاد پر ’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ‘‘ کی حقیقت کو تسلیم نہ کیا گیا تو پھر دونوں بازئووں کو دنیا کی کوئی طاقت بھی متحد ومتفق نہ رکھ سکی۔
مشرقی پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا اور وہاں اکثریت مسلمانوں کی تھی ۔ ہندئووں کے ساتھ ان کی کوئی مماثلت نہ تھی ۔ ابھی پچیس سال پہلے بنگالی مسلمانوں نے مغربی پاکستان کے مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آزادی کی جنگ لڑی تھی لیکن اندراگاندھی نے ایسی چال چلی کہ وہاں کے مسلمان اندارگاندھی کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئے اور بھارتی فوج کے تسلط کو قائم کرنے میں مکتی باہنی کے آلہ کار بن گئے ۔ بھارت کے عسکری تجزیہ نگار ’’ روی راکھی ‘‘ کے بقول اندراگاندھی کی حکومت نے مشرقی پاکستان کی سرحدوں سے ملحق آسام میں جونام نہاد مفرور بنگالیوں کے کیمپ بنائے ان میں پناہ گزین بنگالیوں کی تعداد دنیا کو دو کروڑ بتائی گئی تھی ان کیمپوں کے قیام کے بعد اندرا گاندھی نے دنیا کے بہت سے ممالک کے طوفانی دورے کیے اور دنیا کو باور کروایا کہ دو کروڑ پناہ گزین بنگالی ہماری معیشت پر بوجھ ہیں مزید یہ کہ دوکروڑ بنگالیوں کا ہمارے ہاں پناہ گزین ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ مشرقی پاکستان کے لوگ مغربی پاکستان سے آزادی چاہتے ہیں اس لئے کہ مغربی پاکستان والے مشرقی پاکستان کے لوگوں پر ظلم کررہے، ان کے حقوق غصب کررہے ہیں اور بے چارے بنگالی اس ظلم سے بچنے کے لئے ہمارے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہوچکے ہیں ۔ ہم نے خالصتاََ انسانی ہمدردی کی بناپر ان کو اپنے ہاں پناہ دی ہے لہذایہ انسانی ہمدردی کا مسئلہ ہے اور پوری دنیا کو چاہئے کہ وہ اس مسئلے کے حل میں ہماری مدد کرے ۔ روی راکھی کہتا ہے ’’ پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والوں کی تعداد ہر گز دو کروڑ نہ تھی بلکہ ان کیمپوں میں مشرقی پاکستان سے آنے والے بنگالی بہت کم تھے ۔اکثریت بھوکے ننگے انڈین بنگالیوں کی تھی جو دو وقت کی روٹی کی تلاش میں غول در غول ان کیمپوں کی خاک چھانتے تھے ۔ چالاک بھارتی پریس نے نہایت چابک دستی اور عیاری سے کام لیتے ہوئے بھوکے ننگے انڈین بنگالیوں کو مشرقی پاکستان کے لٹے پٹے اور مغربی پاکستان کی فوج کے ہاتھوں ستائے زخم اٹھائے مہاجر ظاہر کیا اس طرح سے اندراگاندھی بہت سے ممالک کی ہمدردیاں سمیٹنے اور بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوگئیں ۔
جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہواتو اس وقت اندارگاندھی کے پیش نظر یہ بات ہر گزنہ تھی کہ مشرقی پاکستان الگ ہونے کے بعد بھارت کا حصہ بن جائے گا اور اس طرح بھارت کے رقبہ ، حجم اور آبادی میں اضافہ ہوجائے گا ۔ اندراگاندھی کے پیش نظر صرف ایک ہی بات تھی کہ کسی طریقے پاکستان کو توڑدیا جائے تاکہ پاکستان سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت ہونے کا اعزاز چھیناجاسکے ۔ اندراگاندھی نے جو چاہا اس پر پوری قوت ، یقین اور مستقل مزاجی سے عمل کرڈالا ۔
سوال یہ ہے کہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں جو کچھ کیا ۔۔۔۔۔ہم مقبوضہ جموں کشمیر میں ایسا کچھ کیوں نہیں کررہے ۔۔۔۔۔؟ حالانکہ اگر بنظر غوردیکھاجائے تو یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ بھارت کے لے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اتنی ضروری نہ تھی جتنا پاکستان کے لئے مسئلہ کشمیر کا حل ہونا ضروری ہے ۔ جب ہم کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قراردیتے ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر ہمارے لئے زندگی اور موت کی حیثیت رکھتا ہے ، پاکستان کی معیشت ، دفاع ، زراعت یہاں تک کہ پاکستان کی بقا مسئلہ کشمیر کے حل ہونے سے مشروط ہے ۔ پاکستان کے سارے دریائوں کا منبع کشمیر ہے ۔ پاکستان کی آکسیجن ۔۔۔۔کشمیر ہے ۔ اس حقیقت میں ہرگز دوآراء نہیں کہ اگر مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو پاکستان کا مستقبل غیر یقینی ہوجائے گا ۔ ان حقائق کا تقاضہ تھا کہ ہمارے حکمران ، سیاستدان ، مذہبی رہنما اور افواج پاکستان پوری یکسوئی کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو یک نکاتی ایجنڈا قراردیتے ہوئے اس کی آزادی کے لئے سرتوڑ کوشش کرتے لیکن یہاںصورت حال یہ ہے کہ 74برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں کا پسندیدہ مشغلہ قراردادیں پاس کرنے اور اخباری بیانات تک محدود ہے ۔ آج تک پاس ہونے والی قرادادوں کے پلندے اکٹھے کئے جائیں تو ان کے پہاڑ بن سکتے ہیں لیکن یہ کاغذی پہاڑ دریائے نیلم اور دریائے جہلم کا رخ نہیں بدل سکتے اور نہ ہی ہمارے سیاستدانوں حکمرانوں کے فضائوں میں اچھالے جانے والے بیانات میزائل وراکٹ کا روپ دھار سکتے ہیں ۔ اگر صرف قرارداوں کی منظوری اور بیانات کے تیر اچھالنے سے قوموں کو آزادی ملتی تو جنگ وجدل کے میدان سجتے نہ بہادروں کے لاشے گرتے اور قوموں کی تاریخ میدان شجاعت میں جانیں قربان کرنے والوں اور سینوں پر زخموں کے تمغے سجانے والوں کے تذکروں سے خالی رہتی ۔ جب تک قوموں کے مقدر پر غلامی کی سیاہ چادر تنی رہے گی تب تک قوموں کے بہادر ، شجاع ، جری اور دلیر سپوتوں کو ستون دار پر سروں کے چراغ رکھنے ہی پڑتے ہیں ۔ پھر یہ کٹے ہوئے سر چراغ بن جاتے اور جانبازوں کے جسموں سے بہنے والا خون وہ تیل بن جاتا ہے جس سے یہ چراغ روشن ہوتے ہیں ۔ ان چراغوں کی روشنی سے قوموں کو آزادی ملتی ہے ۔ کشمیری قوم اس حقیقت کو اچھی طرح جان چکی ہے اس لئے اہل کشمیر نے اپنے بیٹوں ،سپوتوں اور فرزندوں کو راہ ِ آزادی میں جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لئے وقف کردیا ہے ۔ قربانیوں کایہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ اہل کشمیر کی جنگ پاکستان کی تعمیر ، تشکیل اور تکمیل کی جنگ ہے اس لئے پاکستان مسئلہ کشمیر کاایک اہم فریق اور وکیل ہے وکالت کا یہ حق یواین او سمیت پوری دنیا نے تسلیم کررکھا ہے اس اعتبار سے اپنے موکل کا دفاع وکیل پر لازم ہے ۔
یہاں تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر کر اس بات کو ذہن میں تازہ کرلیں کہ مشرقی پاکستان کے مسلمانوں نے بھارت کو ہر گز اپنا وکیل مقرر نہیں کیا تھا بلکہ بھارت کی حیثیت ڈاکو ، راہزن ، اٹھائی گیر اور غنڈے کی تھی وہ زبردستی بنگالیوں کا وکیل بن بیٹھا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار مشرقی پاکستان کی سرزمین پر ڈالے مگر وہ قیدی بھارت کے بنے ۔ جھوٹے اور مکار بھارت نے اپنا مقدمہ اس عیاری اور مکاری سے لڑا کہ وہ بنگالیوں کا سچا اور مخلص خیر خواہ بن بیٹھا ہماری حالت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر ہم سچے ، ہمارا مقدمہ بھی صحیح ، مئوقف بھی درست، مدعی بھی تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان ہمارا وکیل ہے مگر ہماری نالائقی اور نااہلی یہ ہے کہ بھارت دن بدن مقبوضہ جموں کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کررہا ہے جبکہ ہم قدم بہ قدم پسپا ہورہے ہیں ۔ مسئلہ کشمیر پر ہمارے حکمرانوں کاانداز جارحانہ نہیں بلکہ مدافعانہ ہے ۔ یہاں مجھے مقبوضہ جموں کشمیر سے آنے والا ایک نوجوان ’’ الجہاد ‘‘ تنظیم کا سربراہ سمیر خان یاد آرہا ہے ۔ سمیر خان سے2001ء کے آخر میں مظفرآباد میں ملاقات ہوئی تو اس نے بڑے دلچسپ پیرائے میں مقبوضہ جموں کشمیر کی صورت حال کانقشہ کھینچا ۔ اس کا کہنا تھا ’’ بھارت کہتا ہے کشمیر ہمارا ہے ، کشمیری کہتے ہیں ہم پاکستان کے ہیں اور پاکستان کہتا ہے کشمیر متنازع ہے ‘‘ ۔اس بات کو 21 برس بیت چکے ہے اب کشمیر کے پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ چکا ہے ۔دفعہ 370کا خاتمہ ہوچکا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بھارت مقبوضہ جموں کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے بیشمار اقدامات کرچکا ہے جبکہ ہمارے حکمران صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہیں ۔ امر واقعی یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے آوازاٹھانا اور اسے کشمیر قوم کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی عملی کوشش کرنا ہم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی ہے ۔ ہر سال 16دسمبر کاسانحہ ہمیں اس قرض اور فرض کی ادائیگی کی یاددہانی کرواتا ہے ۔ اس قرض کی ادائیگی کا بہترین مقام کشمیر کا میدان ہے ۔ اگر ہم پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد باقیماندہ پاکستان کااستحکام چاہتے ہیں تو ہمیں ہر صورت کشمیر کا میدان جیتنا ہوگا ۔