16”سقوط ڈھاکہ اور سانحہ آرمی پبلک سکول“


دسمبرآج کے دن ملکی تاریخ میں المناک سانحہ سقوط ڈھاکہ پیش آیا ۔درحقیقت 51 برس بعد اس کا زخم تازہ ہے اوریہ پاکستانی تاریخ کا رستا ہوا زخم ہے۔یقینی طور پرسولہ دسمبر 1971ءکو ہمیشہ ایک سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جائے گا جب کچھ افراد کے سیاسی مفادات کی وجہ سے عوامی رائے کو نظر انداز کیا۔قیام پاکستان سے آج تک بھارت نے کبھی دل سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جاری انتشار کا بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا اورمکنی باہنی کو مسلح کر کے بغاوت بھڑکا دی۔بھارت نے 20نومبر 1971 سے غیر اعلانیہ جنگ شروع کر دی اور پھر 3 دسمبر کو باضابطہ جنگ مسلط کر دی،ہندوستان نے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو مغربی پاکستان والوں سے بدظن کیا اور اپنے لے پالک ایجنٹوں کے ساتھ مل کر 1971ءمیں بالآخر مشرقی پاکستان پر حملہ کرکے وہاں کے زرخرید ایجنٹوں کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش کے قیام کو ممکن بنایا۔ اب بھارتی وزیراعظم بڑی ڈھٹائی سے ڈھاکہ میں کھڑے ہوکر بھارت کے اس مکروہ کردار پر فخر کا اظہار کرتا ہے۔ یہ اعتراف کہ پاکستان کو دو لخت کرنے میں ہندوستان نے اپنا گھناونا کردار ادا کیا درحقیقت شرمناک فعل ہے۔ 1970ءمیں ہونےوالے عام انتخابات اور انکے نتائج کو تمام پارٹیوں نے تسلیم کیا۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی جس کو اقتدار منتقل نہ ہوسکا اس بے اعتمادی، نااتفاقی اور جمہوریت کش پالیسی کے سبب پاکستان کے دونوں بازوﺅں کا چلنا محال تھا لہذا قیادت کی ناکامی بین الاقوامی سازش بھارتی جارحیت اور مشرقی پاکستان کے باسیوں کی محرومی نے پیارے وطن کو دو لخت کر ڈالا۔ حسینہ واجد نے مجیب کی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں تسلیم کیا ہے کہ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کی آزادی کےلئے ایک خفیہ تنظیم قائم کررکھی تھی۔ خفیہ ایجنسی را نے گہری سوچ بچار کے بعد چھ نکات تیار کئے جن کا بنیادی مقصد پاکستان کو پانچ ٹکڑوں میں تقسیم کرنا تھا۔ ادھر ہمارے ہاں مغربی پاکستان میں تخمینے لگانے والوں نے ہوش سے کام نہیں لیا۔ اندرا گاندھی نے امریکہ اورچین کو پاکستان کی مدد سے باز رکھنے کےلئے روس سے دفاعی معاہدہ کرلیا۔ را نے مکتی باہنی تیار کی تاکہ مشرقی پاکستان کے اندر فوج کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کیا جا سکے۔دراصل عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں علاقائی جماعتیں تھیں اور ان دونوں کے مشرقی اور مغربی بازو¶ں میں الگ الگ اکثریت حاصل کرنے سے ملک کے دو ٹکڑے ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔ مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں 95% ہندو اساتذہ تھے جو دو قومی نظریہ کو نابود کرنے کیلئے برسرپیکار رہے۔مغربی حصے کی جانب سے روا،ناانصافیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے جس سے نئی نسل کے جذبات بڑھکانے اور طیش دلانے کے کام آتے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ، یہاں ہم، وہاں تم، '' جو مشرقی پاکستان جائےگا ٹانگیں توڑ دوں گا '''،'' اپوزیشن میں نہیں بیٹھوں گا ''،'' دونوں حصوں کیلئے علیحدہ آئین بنا لیں'' جیسے الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ سیاستدانوں نے اپنے مفادات کے حصول کی غرض سے پاکستان کو دو لخت کر دیا ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیخ مجیب کی اکثریت پارٹی کو اقتدار کیوں نہیں سونپا گیا؟ جب بھی مشرقی پاکستان کا ذکر ہوگا یہ سوال پیچھا کرےگا ۔
بھارت پاکستان کیخلاف اب بھی منفی پروپیگنڈہ میں مصروف ہے۔ یورپی یونین کی ڈس انفولیب نے کی رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست کی پشت پناہی میں جعلی این جی اوز کا استعمال کیا گیا۔ بھارت نے پاکستان کےخلاف پراپیگنڈے کیلئے ہر قسم کے وسائل کا استعمال کیا۔ ہندوستان نے جعلی این جی اوز کے ذریعے اقوام متحدہ کو متاثر کیا۔ یورپی پارلیمنٹ کو بھی اپنی سازش میں استعمال کیا۔ بھارت نے دنیا بھر میں 750 سے زائد جعلی میڈیا تنظیمیں تشکیل دیں۔جن کا کام منفی پرو پیگنڈہ کرنا تھا۔ بھارت کی جانب سے چلائے جانےوالے اس جعلی نیٹ ورک میں اقوام متحدہ ہیومن رائٹس کونسل کے ساتھ کام کرنےوالی 10 این جی اوز اور 550 جعلی ویب سائٹس، کا جعلی شناخت کےساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ جعلی پارلیمانی گروپ تشکیل دیئے ”فرینڈزآف گلگت بلتستان“ اور ”فرینڈز آف بلوچستان“ جیسے نیٹ ورک بنائے گئے۔ ہندوستان سے جعلی میگزین EPtoday.com کے شائع ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا۔
کالم کے آخر میں میں سانحہ آرمی پبلک سکول کا تذکرہ کرنا بھی ازحد ضروری سمجھتا ہوں کیوں اس کو پاکستان کا نائن الیون سمجھا جانا چاہئے۔16 دسمبر 2014ءکی صبح 10 بجے 7 دہشت گرد ”ایف سی “کے لباس میں ملبوس آرمی پبلک سکول پشاور کے پچھلے راستے سے سکول میں داخل ہوئے اور مرکزی ہال میں جاکر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجہ میں 9 اساتذہ، 132 طلباءاور 3 فوجی جوان، کل ملا کر 144 افراد شہید ہوئے۔ دہشت گردوں نے طلبہ کے سامنے ان کے اساتذہ کو گولیاں ماریں اور ادارے کے سربراہ کو آگ لگا دی۔ اس قیامت خیز منظر نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ملکی کی تاریخ کا یہ المناک دن تھا جب ہر آنکھ اشکبار تھی، صرف متاثرین کے ہی گھروں میں صف ماتم نہیں بچھا ہوا تھا بلکہ پوری قوم سوگوار تھی۔

ای پیپر دی نیشن