عبدالستار چودھری
وطن عزیز کو درپیش چیلنجز آج نصف صدی گزرنے کے بعد بھی کم ہونے کو نہیں آ رہے، اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پہلی چیز جو دماغ میں سٹرائیک کرتی ہے وہ یہی ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے غلطیاں بار بار دھرانے کے عادی ہو چکے ہیں۔۔۔ جمہوری عدم تسلسل، معاشی ناانصافی اور بدحالی کے گہرے سائے وطن عزیز پر ہمیشہ چھائے رہے۔52 برس قبل بھارتی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں ہمارا ایک بازو ہم سے الگ ہو گیا جس کی کسک آج بھی ہمارے ذہنوں میں محسوس ہوتی ہے، 52 برس قبل پاکستانی قوم کو سقوط ڈھاکہ کی صورت میں جو روح کو کچل دینے والا اور دل توڑ دینے والا زخم ملا اس کی چبھن اور کسک ابتک باقی ہے۔ مشرقی پاکستان کی جدائی کا زخم آج بھی تازہ ہے۔ 16دسمبر 1971 کے وہ تلخ لمحات کیسے فراموش کئے جا سکتے ہیں کہ جب اپنوں کی نااتفاقی اور انتشار نے قائداعظم کے پاکستان کو دولخت کروادیا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں جدائی ڈالنے والے کرداراب سب پس منظر میں چلے گئے ہیں!جبکہ اُس دور کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر بھی نومبر 2023 کے آخر میں اگلے جہان سدھارچکے ہیںمگر افسوس ہم اتنے بڑے حادثے سے گزر جانے کے بعد ابھی تک سبق سیکھنے سے محروم ہیں۔ ہماری سیاست اور قومی مزاج آج بھی ضد' انا پرستی اور میں نہ مانوں کے گرد گھوم رہی ہے۔دکھ اور تاسف اس بات پر نہیں کہ بھارت نے باقاعدہ اور منظم سازش سے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرانے میں بھیانک کردار ادا کیا۔ دکھ اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ پاکستانیوں کو جان لیوا دکھ دینے میں ہمارے ''اپنے'' بھی شامل رہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے بھی انصاف نہیں کرسکے۔ ہمارے بڑے اور بزرگ اب تک یہ بتانے اور سچ بولنے سے قاصر ہیں کہ 16 دسمبر 1971ء کو کیا ہوا تھا؟
ڈاکٹر صفدر محمود' بریگیڈئیر سالک' چوہدری اعتزاز احسن' رفیق ڈوگر اور پروفیسر رفیق انجم کی کتب پڑھ لیں، ایک تاریخ دان دوسرے سے مختلف خیالات رقم کرتا رہا۔ ہمیں راولپنڈی اسلام آباد میں ڈاکٹر عزیز ہاشمی ' مرحوم راجہ فتح خان' مرحوم محمد خان نقشبندی' بابو شفقت قریشی' اور نثار احمد نثار مرحوم سمیت کئی محبان ملت سے ملاقاتوں اور طویل گفتگو کا شرف حاصل رہا۔ والدمرحوم ومغفور کے احباب کی زبانی جب سقوط غرناطہ اور سقوط ڈھاکہ کی باتیں سنتے تو داستان بیان کرنے والے اور سننے والے دونوں چشم تر سے حالات کا نوحہ پڑھتے!! ہم نے حضرت قائداعظم محمد علی جناح' تحریک پاکستان کے کارکنان اور آل انڈیا مسلم لیگ کے شیدائیوں سے کیا سلوک روا رکھا، یقینا تاریخ ہمیں بھی معاف نہیں کرے گی!
افسوس صد افسوس…پاک بھارت جنگ 1971ء میں مغربی میڈیا کی تمام ہمدردیاں بھی مجیب الرحمن اور بھارت کے ساتھ تھیں۔ 22نومبر 1971ء کو بھارتی افواج نے باقاعدہ مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ امریکہ نے جنگ بندی کی قرار داد سلامتی کونسل میں پیش کی جسے روس نے ویٹو کر دیا۔ ادھر بھارت نے پارلیمنٹ میں بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کو نا صرف تسلیم کرنے کا اعلان کیا بلکہ اس کی حمایت کا اعلان بھی کر دیا۔ جنگ بندی کی پولینڈ ، اٹلی، جاپان اور سات دوسرے ممالک کی طرف سے پیش کی جانے والی قرار داد کو بھی بعد میں روس نے ویٹو کر دیا۔ 7 دسمبر کو روس نے خود جنگ بندی اور سیاسی حل کی تلاش پر قرارداد پیش کی جسے نہ جانے کیوں نہ مانا گیا۔ مکتی باہنی کے تخریب کاروں نے تمام اہم مقامات اور تنصیبات تباہ کر دیں اور بھارتی فضائیہ نے پہلے سے موجود ہوائی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا۔ اور ڈھاکہ کا ہوائی اڈہ اس لئے کھنڈر بنا دیا تا کہ مغربی پاکستان سے کسی دوسرے فضائی راستے سے پہنچنے والا امدادی سامان وہاں اتارا نہ جا سکے۔ ایک تو پاکستانی افواج کو فضائی تحفظ نہ مل سکا دوسرا بھارت نے چھاتہ بردار فوج اتار کر پشت سے حملہ کر دیا۔ چند دنوں تک پاکستانی افواج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن کمک نہ پہنچ سکنے کے باعث زیادہ دیر تک مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔ مشرقی پاکستان سے توجہ ہٹانے کے لئے مغربی محاذ پر دبائو ڈالنے کی بھارت نے بے حد کوشش کی لیکن گولہ بھاری کے تبادلے سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ میں 104 ممالک نے ایک قرار داد منظور کر کے جنگ بندی کرانے کی کوشش کی جسے بھارت نے مسترد کر دیا۔مسٹر بھٹو نے سلامتی کونسل میں 13 اور 15 دسمبر کو تقریر کی۔فرانس اور برطانیہ کی طرف سے جنگ بندی کی قرار داد نہ جانے کیوں انہوں نے منظور نہ کی۔ 16 دسمبر 1971ء کو بھارتی فوجوں نے ڈھاکہ پر قبضہ کر لیا اور 17 دسمبر 1971ء کو صدر یحیٰ خان کے حکم پر پاکستانی افواج نے بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور 90ہزار فوجی اور مغربی پاکستانی قیدی بنالئے گئے۔ 8 جنوری کی رات کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعہ شیخ مجیب الرحمن کو غیر مشروط طور پر رہا کر کے لندن بھجوا یا گیا جہاں پہنچ کر اْنہوں نے آزاد جمہوریہ بنگلہ دیش کا اعلان کیا۔ اس کے بعد نئی دہلی میں اپنے محسنوں کا شکریہ ادا کر کے بنگلہ دیش پہنچے اور صدارتی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی گو کہ عملاً دسمبر 71ء میں ہوئی لیکن اس کے جراثیم بہت پہلے سے موجود تھے۔ نصف صدی گزرنے کے بعد آج بھی مسلم حکمرانوں کی بے حسی کا وہی کربناک منظر ہے جو دسمبر 1971ء میں اہل پاکستان کو برداشت کرنا پڑا۔ فلسطین میں قیامت صغریٰ بپا ہے اورامت مسلمہ خواب غفلت میں غرق ہے۔ 6 اکتوبر 2023ء سے اب تک اسرائیل بربریت کا شکار ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ پورا غزہ تباہی کی داستان سنا رہا ہے، اہل غزہ بے گھر ہو چکے۔ ہسپتالوں میں زخمیوں کے لیے جگہ نہیں، مسلمان اجتماعی جنازہ نہیں پڑھ سکتے… اور مسلم حکمران اپنی قراردادوں سے صرف اور صرف مطالبات کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
تھے تمہارے ہی وہ آباء مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
خدا کے لیے ہمارے مسلم حکمران اب بھی ہوش کریں!!ورنہ’’تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں‘‘۔