سانحہ ٔ آرمی پبلک سکول پشاور

14/ اگست 1947ء سے اب تک ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے ہماری آزادی کو تسلیم نہیں کیا۔ اْس نے ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ سرحدی ، بحری اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے میں بھی بھارت ہمیشہ برسرِ پیکار رہا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عالمی سطح پر بھارت کوہمیشہ ندامت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان اپنے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد دہشت گردی کے کئی واقعات کا سامنا کرتا رہا ہے۔11 ستمبر2001ء کو امریکن ٹریڈ سنٹر پر دہشتگردی کے واقعہ نے پوری دنیا خصوصاً پاکستان کو دہشت گردی کی لپیٹ میں لے لیا۔عراق اور افغانستان پر امریکن افواج کی یلغار سے پاکستان کو ناقابلِ تلافی جانی و مالی نقصان ہوا۔عصرِ حاضر میں عالمی سطح پر بھی دہشتگردی کا گراف بلند ہو رہا ہے۔ دنیا کے پچاس فیصد ممالک کسی نہ کسی طور دہشت گردی کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 16دسمبر 2014ء بروز منگل پاکستان میں ہونے والے سانحہ کو کیسے فراموش کیاجاسکتا ہے ؟ 1971ء کے بعد ہم 16دسمبر کو سقوطِ ڈھاکہ کو یاد کر کے آنسو بہایا کرتے تھے لیکن 16دسمبر 2014ء کا سورج اپنے دامن میں ایک اوردل خراش واقعہ لیے نمودار ہوا۔ 1971ء کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ ایک نئے زخم نے پرانے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔ 
16 دسمبر2014ء بروز منگل تقریبا ً دس بجے دن آرمی پبلک سکول پشاور کوچند دہشت گردوں نے اچانک اپنے گھیرے میں لے لیا۔ والدین اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے کے بعد بمشکل گھر پہنچے تھے کہ اْن تک یہ جان لیوا خبر پہنچ گئی کہ آرمی پبلک سکول آتش و آہن کی زد میں ہے۔ دہشت گرد تباہی اور بربادی کا ساز و سامان اپنے ہمراہ لائے تھے۔ پٹرول، تیزاب، کلاشنکوف اور دیگر ہتھیار وں سے اْنھوںنے آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا کہ جیسے کوئی ملک دوسرے ملک کو فتح کرنے کیلئے کرتاہے۔ بچے تدریسی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ اساتذہ کمرۂ جماعت میں اپنا اپنا مضمون پڑھا رہے تھے کہ یہ نظم و ضبط کا خوگر ادارہ گولیوں کی آوازوں سے لرزنے لگا۔ 
پھولوں کے شہر میں، پھولوں کے موسم میں ، پھولوں ایسے بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر درندگی کا ایسا مظاہرہ کیا گیا کہ درندگی بھی شرمندگی میں ڈوب گئی۔تربیت یافتہ دہشت گرد بھیڑیوں کی طرح معصوم بچوں پر ٹوٹ پڑے جو سامنے آیا وہ گولی کی زد میں تھا۔ معصوم بچوں کی آہ و بکا سے سکول کے درو دیواربھی پْر نم تھے ۔ ظلم و بربریت کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی کیوں کہ ایک محب وطن خاتون ٹیچر جو اپنی جان بچا سکتی تھی وہ دوبارہ اپنے بچوں کو بچانے کیلئے ایک کمرے میں داخل ہوگئی ظالم درندوں نے بچوں کے سامنے اسکے چہرے پر تیزاب نما کیمیکل پھینک دیا اور پھر اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ سکول میں چاروں طرف بستے بکھرے پڑے تھے ، قلم زمین کو بوسہ دے رہے تھے کہ انھیں تھامنے والے اب واپس نہیں آئینگے۔ قیامت سے پہلے ، قیامت کا منظر اس سکول کی قسمت میں تھا۔سرکاری اعلان کے مطابق تقریباً148طلبا شہیدہوئے ،معصوم بچوں کو جس درندگی کے ساتھ گولیوں سے چھلنی کیا گیاانکے سامنے ہلاکو خان اور چنگیز خان کی بربریت بہت چھوٹی محسوس ہوتی ہے۔گھر سے اپنے پیاروں کے بوسے چہروں پر سجائے سکول آنیوالے بچوں کوکیا خبر تھی کہ آج سکول میں نصابی امتحان کے بجائے موت ان کا امتحان لے گی۔خدا جانے وہ کون لوگ تھے جو ان معصوم بچوں پر گولیاں چلاتے رہے۔ انکے ہاتھ تک نہیں کانپے ۔۔ انھوں نے بربریت کی انتہا کر دی ہے۔ یہ دہشتگردی کی تاریخ میں سب سے المناک واقعہ ہے جس میں صرف بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ قلم کتاب تھامنے والے بچے بارود کی زد میں تھے۔
محترمہ طاہرہ قاضی سمیت بہادر اساتذہ نے دہشتگردوں کا جس دلیری سے مقابلہ کیا وہ پاکستانی قوم کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس سانحہ نے پوری قوم کو متحد کر دیا۔ شہدا کا خون رنگ لایا اور قوم کو حیات نو دے گیا کیو ں کہ شہید کی موت قوم کی حیات ہے۔اس ضمن میں ایک نیشنل ایکشن پلان تیار کر لیا گیا۔ پوری قوم نے دہشت گردی کو جڑ سے اْکھاڑ دینے کا عزم ظاہر کیا۔پاکستان کے تمام سکیورٹی اداروں ، ایجنسیوں ، سیاست دانوں کو بھی شامل کیا گیا۔ ملکی استحکام ، قومی دفاع اور قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے اہم ترین اقدامات اٹھائے گئے۔بہت سے اسلامی ممالک میں رائج قوانین سے بھی مدد لی گئی۔ خارجہ اْمور، داخلہ اْمور ،معاشی اْمور کے محکمہ جات کو نیشنل ایکشن پلان میں شامل کیا گیا۔اس کا اہم مقصد فرقہ واریت اور دہشتگردی کے نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کرنا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان کی 21 دفعات میں سے چند ایک بہت اہم ہیں۔ 
نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے بعد عمل درآمد کی نگرانی کیلئے اْس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے 26 دسمبر 2014ء کو اپنی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں وزیرِ داخلہ ، وزیرِ دفاع، وزیرِ اطلاعات، وزیر منصوبہ بندی وترقی اور مشیرخارجہ کمیٹی کے ممبر نامزد ہوئے۔ اس نیشنل ایکشن پلان کا مقصد پاکستان کا داخلی و خارجی دفاع تھا۔ مقامِ افسوس ہے کہ منصوبہ بندی اور تراکیب تو بنائی جاتی ہیں لیکن اْن پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ اگر اس نیشنل ایکشن پلان پر سبک رفتاری سے عمل کیا جائے تو پاکستان کا داخلی محاذ مضبوط ہوسکتاہے۔
٭…٭…٭

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم 

ای پیپر دی نیشن