سقوطِ ڈھاکہ اور اے پی ایس میں خون کی ہولی!

دونوں سانحے عوام کے قلب و جگر ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا باعث بنے۔ 16دسمبر 1971ء و دشمن نے ہمیں دو ٹکڑے کردیا۔ اس دشمن نے آزادی کے پہلے دن سے ہمیں دل سے تسلیم نہیں کیا۔ پنجاب کی سرحد کا تعین کرتے ہوئے فیروزپور ،امرتسر ،جالندھر گورداسپور کے مسلم اکثریتی علاقے بھارت کے حوالے کردیئے گئے۔ جس سے پاکستان کو ہر دواعتبار سے نقصان پہنچا۔ ایک تو راتوں رات ان علاقوں کے مسلمانوں کو گھر بار چھوڑنے پڑے ، انکے قافلوں پہ حملے کئے گئے ، زمین شہداء کے خون سے سرخ ہوگئی۔نوزائیدہ پاکستان مہاجروں کے اتنے بڑے اچانک سیلاب سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، اس لئے وہ کئی برس تک اس گرداب میں پھنسا رہا۔ دوسری طرف گورداسپور کا علاقہ انڈیا کو دینے کی وجہ سے کشمیر کو جانے والی واحد سڑک بھارت کے قبضے میں چلی گئی۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی افواج نے کشمیر کے وسیع مسلم آبادی والے علاقے پر جارحانہ قبضہ جمالیا۔ وہ دن او ر آج کا دن ،کشمیر پر بار بار کئی جنگیں لڑی جاچکی ہیں ، لیکن یہ مسئلہ اپنا حل نہیں پاسکا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں بھی لالی پاپ ثابت ہوئیں۔ 
1965ء میں بھارت نے پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں کو بلڈوز کیا ، اگرچہ بھارت یہ جنگ جیت نہ سکا، لیکن اس جنگ نے پاکستان کو دفاعی طور پر شدید کمزور کردیا۔ 65ء کی جنگ نے دراصل بھارت کو مشرقی پاکستان پر یلغار کرنے کیلئے اکسایا۔ اس نے اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے بنگالی آبادی کو پاکستان کے خلاف بھڑکایا ، مکتی باہنی بناکر اسے کولکتہ کے دہشت گرد کیمپوں میں تربیت دی اور مشرقی پاکستان کی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کے لوگو ں کے ذہنوں میں اپنے ملک کیخلاف زہر آلود پراپیگنڈہ بھردیا۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے سقوطِ ڈھاکہ کا کھلواڑ کیا۔ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے زہر بھرے لہجے میں اعلان کیا کہ ہم نے دوقومی نظرئیے کو آج خلیجِ بنگال میں ڈبودیا ہے۔ مگر اندراگاندھی کی یہ بہت بڑی غلط فہمی تھی ، اس لئے کہ بھارت میں ہندو توا کا جنم دوقومی نظرئیے کیلئے مزید تقویت کا باعث بنا ہے۔ درحقیقت کشمیر کا مسئلہ دو قومی نظرئیے کا منطقی نتیجہ ہے۔ جسے بھارت کے لئے نگلنا بھی ناممکن اور اگلنا بھی مشکل ہوچکا ہے ، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اسلاموفوبیا کی عالمی لہر اورمسلمانوں کیخلاف عالمی طاقتوں کی جارحیت کی وجہ سے عالمی سطح پر دو قومی نظریہ اپنا رنگ دکھارہا ہے۔ 
پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں نے 16دسمبر2014ء کو ایک قیامت ِ صغریٰ برپا کردی۔ پھولوں جیسے 150معصوم بچوں کے سینے چھلنی چھلنی کردئیے گئے۔ سینکڑوں زخمی ہوگئے ، دہشت گرد افغان سرزمین سے حملہ آور ہوئے تھے ، پاکستان اور افغان سرحد پر ہر چھوٹے بڑے قصبے میں بھارت نے اپنے قونصل خانے قائم کررکھے تھے۔ یہ قونصل خانے دراصل بھارتی دہشت گرد تنظیم ’’را‘‘ کے زیر انتظام چلنے والے فوجی اڈے تھے ، جہاں پاکستان دشمنوں کو قتل و غارت گری کی تربیت دی جاتی ، تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ یہ دہشت گرد مسلمان نہیں تھے ، جنرل حمید گل نے یہ انکشاف کیا تھا کہ دہشت گردوں کی جتنی بھی لاشوں کا معائنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ ان کے ختنے نہیں ہوئے تھے۔ بس ان لوگوں نے لمبی داڑھیاں اور لمبے بال رکھ کر مسلمانوںکا روپ بھیس بھرا ہوا تھا۔ ویسے مشرقی پاکستان کی مکتی باہنی زیادہ تر مسلمان آبادی پر مشتمل تھی ، جن کے ذہنوں میں زہریلے بھارتی پراپیگنڈے نے اس قدر تعصب بھردیا تھا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کے سپورٹرز اور بہاریوں کے قتل عام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
 پچھلے بیس سال میں پاکستان کو جن دہشت گردوں کا سامنا ہے ، وہ مکتی باہنی کا ہی دوسرا روپ ہیں۔ اب بھارت کو بلوچستان لبریشن آرمی اورکالعدم تحریک طالبان پاکستان کے عناصر ہاتھ آگئے ہیں ، جنہیں وہ باقی ماندہ پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ افواج پاکستان انہیں ملک کا دشمن تصور کرتی ہیں ، جبکہ بدقسمتی سے ہماری بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں ان دہشت گردوں کے ساتھ اسلامی بھائی چارے کے تحت نرم رویہ اختیار کرنے کا وعظ کرتی ہیں۔ افواج ِ پاکستان نے تہیہ کررکھا تھا کہ ضربِ عضب آپریشن کے ذریعے ان دہشت گردوں کو چن چن کر ختم کردیں گی۔ 
مگر پاکستان کی مذہبی جماعتیں ہیلی کاپٹروں میں مذاکراتی ٹیمیں بھربھر کر دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا رخ کررہی تھیں ، دوسری طرف بھارت نے بھی سوچا کہ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوگئے تو سارا بنابنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ اس نے اے پی ایس میںایک گھنا?نی واردات کی منصوبہ بندی کی ، اور چشم ِ زدن میں پورے سکول میں بچوں کی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ ان معصوم بچوں کے والدین کی آہیں آسمان کی بلندیوں سے ٹکرارہی تھیں، اے پی ایس کے معصوم شہداء نے پوری قوم کو متحد کردیا ، ایک قومی دفاعی پلان تشکیل دیا گیا، اور پھر پوری قوم ضربِ عضب کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئی۔ پاکستان کی بہادر افواج نے اپنی بیش قیمت جانوں کی قربانی دی اور اس دہشت گردی کو کچل کر رکھ دیا۔ 
بدقسمتی سے دہشت گردی نئے سرے سے پھر سراٹھارہی ہے۔ پاک فوج پر جگہ جگہ حملے ہورہے ہیں۔ دہشت گردی کی اس نئی لہر کے پس پردہ عمران خان کا دور ِ حکومت ہے۔ جس نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کیلئے پاک افغان سرحد کھول دی اور ان سے مذاکرات کا آغاز کردیا۔ اس نرمی کا فائدہ اٹھاکر بیرونی عناصر پاکستا ن بھر میں پھیل گئے۔ جنہیں پاکستان سے نکلنے کیلئے ڈیڈ لائن دی جاچکی ہے۔ یہ غیرملکی عناصر تو آخر ملک چھوڑ ہی جائینگے لیکن 9مئی 2023ء کو جس نئی مکتی باہنی نے پاکستان کی 200حساس فوجی تنصیبات میں تباہی و بربادی کا بھیانک کھیل کھیلا ، اس نئی مکتی باہنی سے نمٹنا اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس مکتی باہنی کو اوورسیز پاکستانیوں کا سوشل میڈیا کا لشکر پوری پوری مدد فراہم کررہا ہے ، ان پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا اور وہ آزادی ِ اظہار کا فائدہ اٹھاکر پاکستان کے جسدِ قومی پر پے درپے وار کررہے ہیں۔ 
سقوطِ ڈھاکہ او ر سقوطِ اے پی ایس کے پس پردہ کارفرما دشمن قوتیں پاکستان کیلئے نت نئے خطرات پیدا کررہی ہیں۔ تاہم پاکستانی قوم کے لازوال جذبوں کے پیش ِ نظر مایوس ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ پاکستان کی سرفروش افواج ملکی سلامتی و آزادی کے تحفظ کو یقینی بنانے کا عہد کئے ہوئے ہیں۔ پاکستانی قوم نے 80 ہزار جانوں کی قربانی دی ہے ، قومی معیشت کو ڈیڑھ سو ارب روپے کا دھچکا لگا ہے ، لیکن 25کروڑ عوام کے حوصلے جوان ہیں۔ ملک کی مسلح افواج تن من دھن کی قربانی دینے کے جذبوں سے سرشار ہیں۔ اللہ کے فضل سے ان توانا جذبوں کو کوئی قوت زیر نہیں کرسکتی۔ 

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن