سولہ دسمبر اور پاکستانی قوم

سولہ دسمبر جہاںہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کا مشرقی بازو بھارت کی ریشہ دوانیوں اور کچھ اپنوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے ہم سے جدا ہوا وہیں اس سولہ دسمبر کو سانحہ اے پی ایس ہوا جس میں معصوم بچوںکو اسلام کے نام پر شہید کیا گیا۔ 16دسمبر 1971ء میں مشرقی بازو یا مشرقی پاکستان ہم سے دولخت ہوا تو اس میں بنیادی کردار ہمارے دشمن ملک بھارت کا تھا جس نے دو قومی نظریے پر وار کیا اور اندرا گاندھی کا مشہور زمانہ بیان تو سب کو یاد ہو گا جس میں اس نے کہا کہ آج ہم نے دو قومی نظریے کو گنگا میں ڈبو دیا ہے۔ لیکن اندرا گاندھی بھول گئیں کہ نظریے ملکوں کے الگ ہونے سے یا ان کی تقسیم سے ختم نہیں ہوتے اور دو قومی نظریہ آج بھی پاکستان کے 25 کروڑ عوام کے ایمان کا حصہ ہے اور وہ دل و جان سے اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جہاں تک مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی بات ہے تو اس میں وہاں کے مقامی سیاست دانوںکا اہم کردار تھا جنہیں لالچ دیکر اور گمراہ کر کے بھارت نے پاکستان کے خلاف ورغلایا اور یاد رکھیںکہ مشرقی پاکستان کا الگ ہو جانا بھارت کی فتح نہیں ہے بلکہ ناکامی ہی ہے کیوں کہ بھارت کی تو ازل سے خواہش تھی کہ مشرقی بنگال کو وہ مغربی بنگال کا حصہ بنائے لیکن اس کی یہ سازش کامیاب نہ ہو سکی اور بنگلہ دیش کے نام سے الگ اسلامی ملک وجود میں آگیا۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہو جانے میں ہمارے لئے کئی اسباق پوشیدہ ہیںکہ ہمیں اپنی صفوں میںسے غداروں کو پہچاننا چاہئے کہ کون ایسے لوگ ہیں جو سیاست کے نام پر صرف اپنا اقتدار چاہتے ہیں اور چاہے ملک دولخت ہو جائے تو بھی ان کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے (سانحہ 9 مئی کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ کون تھا جو فوجی تنصیبات پر حملہ آورہو کر دشمن ہی کی مدد کر رہا تھا)اور دوسرا ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے کیوں کہ تاریخ ہمیشہ ایک سبق چھوڑ کر جاتی ہے تو سولہ دسمبر 1971ء ہمارے لئے سبق چھوڑ کر گیا ہے کہ ہمیں ملک کے مفاد کی خاطر دشمن کے ہاتھوں میں نہیں کھیلنا چاہئے اور ملک کے مفاد کیلئے ہمیں اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک ہوجانا چاہئے کیوںکہ اسی میں ملک کی ترقی اور کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ جب قومیں آپس میں نا اتفاقی کا شکار ہوتی ہیں تو پھردشمن کو اپنا نفرت کا بیچ بونے کا موقع ملتا ہے اور دشمن وار کرنے سے نہیں چوکتا۔ پھر ہمیں بطور پاکستانی دو قومی نظریے کی ترویج اور اس کی آبیاری کرتے رہنا چاہئے کیوںکہ ہمارا دشمن مودی بی جے پی کے ہندوتوا کے نظریے کو پروان چڑھانے کیلئے دن رات ایک کر رہا ہے، بھارت میں مسلمانوں کا جینا حرام ہو چکا ہے، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور پھر بی جے پی مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی تک سے روک رہی ہے یعنی مودی سرکار ہر وہ حربہ آزما رہی ہے جس سے بی جے پی کا ہندوتوا کا نظریہ فروغ پائے تو اسکے مقابلے میں ہمیں بھی بطور مسلمان اپنے ملک میںدو قومی نظریے کے فروغ کیلئے کوشاں ہونا چاہئے اور سب سے بڑھ کر ہمارے حکمرانوں کو دو قومی نظریے کی ترویج ریاستی سطح پر کرنی چاہئے اور ہمارے بچے بچے کو یہ ازبر کرانا چاہئے کہ ہم ایک الگ قوم ہیں، ہماری اپنی ایک پہچان ہے اور ہمارا مذہب ہمیں نفرت نہیں محبت کا درس دیتا ہے۔ اسی لئے جب ہم نے اتحاد و اتفاق سے منہ موڑا تو تحریک طالبان نامی دہشت گرد تنظیم کو بھارت نے سپورٹ کرنا شروع کر دیا جس نے 16دسمبر 2014ء پشاور میںسکول پر حملہ کر کے 134 بچوں کو شہید کر دیا۔ جو دہشت گرد ان بچوں کو مارنے آئے تھے وہ اپنے آپ کو مسلمان ہی سمجھتے تھے لیکن انکے افعال پر اگر نظر دوڑائیںتو انکی یہ حرکت کسی طور بھی اسلام کے جذبہ جہاد یا درس جہاد سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ آج بھی ٹی ٹی پی سے منسلک لوگ پاک فوج پر حملہ آور ہیں تو ہمیں اپنی فوج کی اخلاقی حمایت جاری رکھنی چاہئیکیوں کہ دشمن ہماری فوج کو کمزور کرنے کیلئے بے بنیاد پراپیگنڈہ کر رہا ہے اور یہ ہماری فوج ہی ہے جس نے ستر ہزار افراد کی قربانی دے کر ملک کو اس خارجی ٹولے سے محفوظ بنایا ہے اور اب ایک بار پھر یہ خارجی ٹولہ بھارت کی پشت پناہی سے پاکستان میں دہشت گردی کے ذریعے انارکی پھیلانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔سولہ دسمبر 2014ء والے دن جس طرح بچوں نے شہید ہو کر اس ملک کو اپنا خون دیا ہے اور آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان بچوں کے خون کو رائیگاں نہ جانے دیں اور ان خارجی عناصر کا قلع قمع کرنے کیلئے اپنی فوج کے ہاتھ مضبوط کریں ۔ جب سے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیرملکیوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے ہمارے کچھ اپنے ہی ان کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں لیکن وہ چند ووٹوں کے حصول کی خاطر یہ بھول چکے ہیںکہ یہ خارجی عناصر ان غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں میں ہی چھپے ہوئے ہیں اور پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اس بات میںکوئی دو رائے نہیںکہ یہ خارجی ٹولہ جو نام تو اسلام کا لے رہا ہے لیکن مالی مدد بھارت سے وصول کر رہا ہے، جس بھارت سے وہ مدد لے رہے ہیں وہاں مسلمانوںکو ذبح کیا جا رہا ہے اور پھر اگر انہیںمسلمانوں پر ہونیوالے مظالم کا اتنا ہی احساس ہے تو یہ بھارت کا رخ کیوںنہیں کرتے۔ الٹا ان سے امداد وصول کر کے ایک اسلامی ملک پر حمہ آورہو رہے ہیں ، اس لئے بطور پاکستانی ہمارا یہ فرض ہے کہ اس طرح کے عناصر کو پہچانیں اور انکی جس حد تک ممکن ہو بیخ کنی کرنے کیلئے پاک فوج کے پشتی بان بنیں کیوںکہ پاک فوج ہی ملک کی سرحدوںکی محافظ ہے اور ہمارا دشمن یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ملک کو کمزور کرنے کیلئے اس کی افواج کو نشانہ بنایا جائے لیکن پاک فوج نہ صرف اس طرح کے عناصر کا خاتمہ کرنے کیلئے جذبہ شہادت سے لبریز ہے بلکہ پاکستان کے عوام بھی اپنی فوج کے پشتی بان ہیں۔

ای پیپر دی نیشن