یہ ستمبر 1978ء کی بات ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بنیادی کردار مدہوش یحییٰ خان آرمی ہاؤس راولپنڈی میں نظربند تھے اور ایم ڈی طاہر ایڈووکیٹ نے لاہور ہائیکورٹ میں ایک رٹ درخواست دائر کرکے استدعا کر رکھی تھی کہ جنرل یحییٰ کو عدالت میں طلب کرکے ان کا بیان قلمبند کیا جائے تاکہ سقوط ڈھاکہ سے متعلق اصل حقائق قوم کے سامنے آسکیں۔ جنرل یحییٰ کی علالت کے پیش نظر ہائیکورٹ نے درخواست گزار ایم ڈی طاہر کو انکے گھر جا کر ان کا بیان قلمبند کرنے کی اجازت دے دی۔
جنرل یحییٰ خان سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے بعد باقیماندہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے بطور سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور بطور صدر پاکستان اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی قید کرلئے گئے تھے جس کے بعد ان کا باہر کی دنیا سے رابطہ مکمل منقطع ہو گیا اور آرمی ہاؤس میں نظربند کرکے انکی نقل و حرکت پر کڑے پہرے بٹھا دیئے گئے۔ چنانچہ نظربندی کے پورے عرصہ میں ان تک کسی اخبار نویس یا عام آدمی تک کی رسائی نہ ہو سکی۔ اسی نظربندی میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ اپنے بیڈ کو سٹریچر میں تبدیل کرکے اسکے ساتھ چپک کر رہ گئے۔ میں ان دنوں ایم ڈی طاہر کے ساتھ وکالت کی اپرنٹس شپ کر رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ فری لانس صحافی کے طور پر بھی فرائض ادا کر رہا تھا۔ چنانچہ موقع کو غنیمت جان کر میں نے ایم ڈی طاہر کے ایسوسی ایٹ کی حیثیت سے انکے ساتھ جانے اور یحییٰ خان کا انٹرویو کرنے کی ٹھان لی۔ ایم ڈی طاہر بھی اس شرط پر آمادہ ہو گئے کہ میں وہاں خود کو صحافی ظاہر نہیں کروں گا تاکہ یحییٰ خان تک رسائی میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو اور ہائیکورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ان کا انٹرویو کرلیا جائے۔ اس وقت موٹروے کا تو کوئی وجود نہیں تھااور جی ٹی روڈ بھی ٹوٹی پھوٹی تھی چنانچہ رات بھر کا اذیت ناک اور تھکا دینے والا سفر طے کرکے ہم جگراتے کی کیفیت میں ہی راولپنڈی پہنچے اور سیدھے آرمی ہاؤس چلے گئے جہاں یحییٰ خان کا بیٹا علی یحییٰ پہلے ہی گھر کے باہر ہمارے استقبال کیلئے موجود تھا اس لئے ہمیں سکیورٹی چیک اپ کے مراحل کا زیادہ سامنا نہ کرنا پڑا۔ علی یحییٰ ہمیں سیدھا یحییٰ خان کے بیڈروم میں لے گیا۔ جس کسمپرسی کی حالت میں یحییٰ خان سٹریچر نما بیڈ پر بے سدھ لیٹے تھے‘ وہ منظر کسی فرعونی ذہنیت والے کیلئے مقام عبرت ہونا چاہیے۔ انکے بیڈروم میں آنے سے پہلے ہم گھر کے کوریڈور سے گزر کر آئے تھے جس کی دیواروں پر آویزاں تصاویر مفلوج یحییٰ خان کے پرتعیش اور جاہ و حشمت والے دورِ گذشتہ کی کہانیاں بیان کرتی نظر آرہی تھیں۔ کم و بیش تمام ممالک کے سربراہوں کے ساتھ اپنی تصاویر اور انکے عسکری دور کے یادگار واقعات کی چغلی کھاتی انکی کئی تصاویر بھی آویزاں تھیں۔ سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے وقت جنرل نیازی کی بھارتی جرنیل اروڑہ کے قدموں میں بندوق رکھ کر سرنڈر کرنے کی تصویر بھی آرمی ہائوس کے کوریڈور میں نمایاں جگہ پر آویزاں تھی۔ اس کا مقصد اپنی غلطیوں پر عبرت حاصل کرتے رہنے کا تھا یا کچھ اور‘ مجھے اور ایم ڈی طاہر کو یہ تصویر بہت ناگوار گزری مگر یہ ردعمل کے اظہار کا موقع نہیں تھا۔ جنرل یحییٰ کا لقوہ زدہ چہرہ ٹیڑھا ہو کر اور بھی بھیانک نظر آرہا تھا جبکہ فالج کے حملے نے انکے پورے جسم کو بھی بے سادھ بنا دیا تھا۔ صرف آنکھ کی پتلیوں کے اشارے سے یحییٰ خان نے ہمارا خیرمقدم کیا مگر زبان کی لکنت نے کوئی ایک لفظ بھی ادا کرنے کی انہیں مہلت نہ دی۔ انہیں لاہور ہائیکورٹ کے احکام سے پہلے ہی آگاہ کیا جا چکا تھا جس کی روشنی میں انکے بیٹے علی یحییٰ نے پہلے ہی انکی جانب سے ایک بیان ضبطِ تحریر کرکے انگلش میں ٹائپ کرایا ہوا تھا جو میری اور ایم ڈی طاہر کی موجودگی میں علی یحییٰ نے انہیں پڑھ کر سنایا جس کی یحییٰ خان نے آنکھوں کی پتلیوں کو حرکت میں لا کر منظوری دی اور پھر علی یحییٰ نے ہی ان کا ہاتھ پکڑ کر اور انگلیوں میں قلم تھما کر بیان کے آخری صفحے پر انکے دستخط ثبت کرائے۔ جنرل یحییٰ کی کیفیت ایسی تھی کہ ان سے انٹرویو لینے کی میری خواہش من و عن پوری نہ ہو سکی البتہ میں نے علی یحییٰ سے بطور اخبار نویس بھی اپنا تعارف کراتے ہوئے ان سے یحییٰ خان کے انٹرویو کی خواہش بیان کر دی تھی چنانچہ انہوں نے جنرل یحییٰ کے آنکھوں کے اشارے والی رضامندی سے انکے قلمبند شدہ بیان کی ایک کاپی یہ کہہ کر مجھے فراہم کر دی کہ آپ اس کو ہی جنرل صاحب کا انٹرویو بنالیں۔ میرے لئے یہ اعزاز ہی بہت تھا کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد میں وہ واحد اخبار نویس تھا جسے چاہے جس بھی انداز میں سہی‘ جنرل یحییٰ تک رسائی حاصل ہوئی۔ چونکہ علی یحییٰ نے مجھے جنرل صاحب کے بیان کو انٹرویو کی شکل دینے کی اجازت دیدی تھی اس لئے میں نے واپس آتے ہی اس کا ترجمہ کیا اور اسے انٹرویو کی شکل دیکر اس وقت کے معروف ہفت روزہ ’’بادبان‘‘ میں شائع کرادیا جو صحافتی سکوپ ہی نہیں‘ عملاً ایک دھماکہ ثابت ہوا۔ اس انٹرویو کو کم و بیش تمام اخباروں نے لفٹ کیا اور بی بی سی اردو سروس پر بھی اسکے چرچے ہونے لگے۔ چونکہ یہ انٹرویو ایم ڈی طاہر کی رٹ درخواست کی آئندہ تاریخ سماعت سے پہلے شائع ہو گیا تھا اس لئے انہیں بھی پریشانی لاحق ہوئی۔ ایجنسیوں نے ان کا گھیراؤ کیا تو مجھ سے معذرت کرتے ہوئے انہوں نے اپنی خلاصی کی خاطر اس انٹرویو کی تردید کردی مگر تیر تو کمان سے نکل چکا تھا اور ہائیکورٹ میں اگلی پیشی پر جب یحییٰ خان کا بیان منظرعام پر آیا تو اسکے مندرجات وہی تھے جو انکے انٹرویو کی صورت میں میں پہلے ہی شائع کر چکا تھا۔ اس بیان میں یحییٰ خان نے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کیلئے سقوط ڈھاکہ کا سارا ملبہ ذوالفقار علی بھٹو پر ڈال دیا تھا جو پہلے ہی نواب محمد خان کے مقدمہ قتل میں کوٹ لکھپت جیل میں بند تھے۔ آج 52 ویں یوم سقوط ڈھاکہ کے موقع پر یہ واقعہ مجھے ایک اخباری خبر پڑھ کر اس حوالے سے یاد آیا کہ کسی کے انجام سے عبرت حاصل کرنا شاید انسانی جبلت میں شامل ہی نہیں ہے۔ اپنے مدہوش اقتدار کے مزے لوٹتے جنرل یحییٰ جس اذیت ناک انجام سے دوچار ہوئے اور فالج کی حالت ہی میں برس ہا برس تک بستر پر پڑے بے بسی کی موت مرے۔ یہ سانحہ تو سارے شہنشاہانِ معظم کیلئے مقام عبرت ہونا چاہیے۔ مگر عیش کوشوں کو اپنے طرز عمل والے پیشروؤں کے انجام سے عبرت کیوں حاصل نہیں ہوتی اور وہ کیوں اسی ڈگر پر گامزن ہو کر خود کو اسی انجام کی جانب لے جاتے ہیں۔ خدا کرے کہ کبھی ایوان اقتدار کی راہداریوں میں سے اس کا جواب مل پائے۔
ایک جواب تو مل چکا ہے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے جنہوں نے عساکر پاکستان کے مختلف شعبوں میں اپنے الوداعی دوروں کے دوران افسران اور جوانوں سے خطاب اور بات چیت کرتے ہوئے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے فوج کو یکسر بری الذمہ قرار دیا اور اس سانحہ کے اسباب پیدا کرنے کے معاملہ میں سیاست دانوں کو موردالزام ٹھہرایا جو آج خود بھی اپنے لئے اسٹیبلشمنٹ کی چھتری کے تمنائی ہو کر جمہوری نظام اور اپنی سیاست کا مردہ خراب کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہے تو اس کیلئے پہلے ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا ہوگا۔ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے اسباب و محرکات کسی منتخب جمہوری حکمرانی میں تو پیدا نہیں ہوئے تھے۔ 1958ء سے 1971ء کے سانحۂ سقوط ڈھاکہ تک ملک میں ماورائے آئین اقدام والی حکمرانی رہی اور 1970ء کے انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر یحییٰ خان اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل کرنا چاہتے تو انکے راستے میں کونسی رکاوٹ حائل ہو سکتی تھی۔ اس سانحہ میں سیاست دانوں کو ذوالفقار علی بھٹو کے ’’اْدھر تم‘ اِدھر ہم‘‘ والے ضرب المثل فقرے کی بنیاد پر موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ متعلقہ اخبار (روزنامہ آزاد) میں ذوالفقار علی بھٹو کی ایک تقریر کے متن میں سے یہ ’’سرخی‘‘ نکالنے والے معروف صحافی عباس اطہر مرحوم خود اپنے ایک انٹرویو میں اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے محض قارئین کی توجہ حاصل کرنے کیلئے متن کے سیاق سباق سے ہٹ کر یہ سرخی نکالی تھی اور فی الحقیقت بھٹو کی تقریر کا یہ مفہوم نہیں تھا۔
بھٹو مرحوم کو انکے اس مبینہ اعلان پر بھی سانحۂ سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار گردانا گیا کہ میرا جو رکن قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے ڈھاکہ جائیگا‘ میں اسکی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ احمد رضا قصوری بھٹو کے اس اعلان کے باوجود ڈھاکہ گئے مگر انکی ٹانگیں تو نہ ٹوٹیں البتہ ان کے والد نواب محمد احمد خان ان کے ’’جھاکے‘‘ میں ایف ایس ایف کی جانب سے کئے گئے حملے کی بھینٹ ضرور چڑھ گئے اور احمد رضا قصوری نے اپنے والد کے قتل کا کیس ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف درج کرا دیا اور پھر ضیاء الحق کی خواہش کے عین مطابق انہیں اس کیس میں تختۂ دار تک پہنچا دیا۔ اگر سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے معاملہ کی تحقیقات کیلئے تشکیل دیئے گئے حمودالرحمان کمیشن کی رپورٹ باضابطہ طور پر منظرعام پر لائی گئی ہوتی تو متعلقہ فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کو موردِالزام ٹھہرانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ اب سپریم کورٹ اس کیس کے فیصلہ پر نظر ثانی کر رہی ہے تو شائد اس کے ناطے سانحہ سقوط ڈھاکہ کے اصل کردار بھی بے نقاب ہو جائیں۔ مگرکیا ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر ہم ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل کر پائیں گے؟ آپ ماضی کی غلطیوں سے بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی کا جائزہ لے کر بھی سبق حاصل کر سکتے ہیں مگر یہاں تو اقتدار کیلئے سہاروں کی تلاش جاری ہے۔ صاحب! یہ زندہ قوموں کا چلن تو ہرگز نہیں۔
٭…٭…٭