اسلام آباد (اعظم گِل/خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو گزشتہ رات (جمعہ کی رات) ہی الیکشن شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینیئر ججز سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی ملاقات کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس میں میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کوکالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ 8 فروری کو انتخابات کرانے کے فیصلے پرعمل درآمد کرائے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر درخواست پر کچھ ہی دیر بعدچیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔ عدالتی کارروائی کے دوران چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی سے استفسار کیا کہ آپ نے الیکشن 8 فروری کو کرانے تھے، اتنی کیا جلدی ہو گئی؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن شیڈول جاری کرنے میں وقت بہت کم ہے، الیکشن کمیشن کی کوشش ہے کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہی کرائے جائیں۔جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کوشش کیوں؟ آپ نے تو الیکشن ہر حال میں کرانے ہیں۔وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کے عمیر نیازی نے درخواست دائر کی ہے اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ عمیر نیازی کی درخواست انفرادی ہے یا پارٹی کی جانب سے دائر کی گئی ہے؟الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ظاہر ہے عمیر نیازی پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل ہیں، اس لیے یہ درخواست بھی پارٹی کی سطح پر ہی دی گئی ہے۔ سجیل سواتی نے کہا کہ عمیر نیازی نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ انتظامی عہدوں پر فائز افیسران کی تعیناتی صاف و شفاف انتخابات پر سوالیہ نشان ہو گا اس لیے آر اوز اور ڈی آر اوز کی تعیناتی کو کالعدم قرار دیا جائے۔اسی دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بنچ کی تشکیل کے حوالے سے کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن 3 رکنی بینچ کا حصہ نہیں بنے، جسٹس اعجاز الاحسن کی کچھ اور مصروفیت تھی ،جسٹس منصور علی شاہ کو سینئر جج ہونے پر گھر سے بلایا ہے۔ آج کے بینچ کے حوالے سے وضاحت کرنا چاہتا ہوں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اب بینچز تشکیل دیے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننک افسران اور ریٹرننگ افسران کی فہرست حکومت دیتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ درخواست گزارکیا چاہتے ہیں؟الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے بتایا کہ درخواست گزار چاہتے ہیں ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے جائیں ۔الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ عدلیہ نے زیرالتواء مقدمات کے باعث جوڈیشل افسران دینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کے خط کے بعد درخواست گزار کیا انتخابات ملتوی کرانا چاہتے تھے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جواب نہیں دیا، پشاور ہائیکورٹ نے کہا جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی سے رجوع کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمیر نیازی آخر چاہتے کیا تھے؟ ہائیکورٹ اپنی ہی عدالت کی خلاف رٹ کیسے جاری کر سکتی ہے؟ پی ٹی آئی کی درخواست پر ہی سپریم کورٹ نے انتخابات کا فیصلہ دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمیشن افسران اور ڈپٹی کمشنرز بھی انتخابات نہ کرائیں تو کون کرائے گا؟۔ تمام ڈی آر اوز متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنرز ہیں۔ اس سے تو بادی النظر میں انتخابات ملتوی کرانا ہی مقصد نظر آتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں تو تحریک انصاف درخواست گزار تھی کیا عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ درخواست آئی لگ بھی گئی، حکم امتناع دینے والا جج ہی لارجر بینچ کا سربراہ بن گیا، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کوئی بھی جمہوری عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل وہ کہیں گے عدلیہ پر بھی اعتماد نہیں ہے، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کون لوگ ہیں جو الیکشن نہیں چاہتے؟ ہائیکورٹ نے ٹریننگ دینے سے نہیں روکا تھا۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ عمیر نیازی کی ایک درخواست پر پورے ملک میں انتخابات روک دیں؟ عمیر نیازی کی درخواست تو سپریم کورٹ کے حکم کی توہین ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدلیہ سے ایسے احکامات آنا حیران کن ہے، الیکشن پروگرام کب جاری ہونا تھا؟، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آج ( جمعہ کے روز) الیکشن شیڈول جاری ہونا تھا۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اگر آر اوز انتظامیہ سے لینے کا قانون کالعدم ہوجائے تو کبھی الیکشن ہو ہی نہیں سکے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ہزار سے زائد افسر اکیلے عمیر نیازی کے خلاف جانبدار کیسے ہوسکتے ہیں؟ وکیل الیکشن کمیشن حد ہوگئی ہے، ابھی تک الیکشن شیڈول کیوں نہیں دیا گیا؟ شیڈول پیش کریں تیار تو کیا ہی ہوگا، کیا الیکشن شیڈول آج جاری کریں گے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ قانون کہاں کہتا ہے ٹریننگ سے الیکشن شیڈیول مشروط ہے؟۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انتخابی پروگرام 54 دن کا ہونے کے لیے آج شیڈول جاری ہونا لازمی ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ٹریننگ بلاوجہ کیوں روکی ہے؟ الیکشن کمیشن نے ڈی آر اوز کی معطلی کا نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا؟ الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ نے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم نہیں دیا تھا ۔ بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکمنامہ لکھوانا شروع کیاجس میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کر کے آئندہ آر اوز اور ڈی آر اوز سے متعلق درخواستوں پر کارروائی نہ کرنے کی ہدایت بھی کی جبکہ عدالت نے عمیر نیازی کو الیکشن کمیشن کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیا اور کہا کہ عمیرنیازی جواب دیں کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟،عدالت نے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آج (جمعہ) رات بارہ بجے تک انتخابی شیڈول جاری کرے۔ حکم نامے کے مطابق سیکرٹری الیکشن کمیشن نے یقین دہانی کرائی آج (جمعہ کے روز) ہی شیڈول جاری کرینگے، پیر کو ڈی آر اوز آر آوز تربیت کا دوبارہ آغاز کرینگے۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کا انعقاد آئین کا تقاضہ ہیں، ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے متضاد ہے۔سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ 13 دسمبر کے حکم نامے کے خلاف الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، لاہور ہائی کورٹ نے سیکشن 50 کے سب سیکشن 1 بی اور 51 کی سب سیکشن 1 کو غیر آئینی قرار دیا ۔عدالتی حکم میں لکھا گیا کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، سپریم کورٹ میں کیس کے ذریعے انتخابات 8 فروری کو طے ہوئے، ہم نے اپنے فیصلے میں لکھا کوئی بھی جمہوریت کو ڈی ریل نہ کرے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بتایا گیا اگر ہائی کورٹ کا حکمنامہ برقرار رہا تو الیکشن پروگرام جاری نہیں ہوسکے گا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہائی کورٹ کے حکمنامے میں تضاد ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنا کام کریں ہمیں اپنا کرنے دیں،اجازت دیں تومیں چھٹی پرچلا جاؤں۔چیف جسٹس کے فیصلہ لکھوانے کے دوران پی ٹی آئی کی وکیل مشعل یوسفزئی روسٹرم پر آگئیں، جس پر چیف جسٹس نے خاتون وکیل کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ ہم حکم نامہ لکھو رہے ہیں۔مداخلت نہ کریں، آپ کون ہیں کیا آپ وکیل ہیں؟ جا کر اپنی نشست پر بیٹھیں، آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مشعل یوسفزئی سپریم کورٹ وکیل نہیں ان کا بولنا نہیں بنتا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دوبارہ مداخلت کی تو توہین عدالت کا نوٹس دیں گے۔حکم نامے میں لکھا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے 1011 ڈی آر اوز، آر اوز اور اے آر اوز کو کام سے روکا، ہائیکورٹ نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ افسران نے ملک بھر میں خدمات انجام دینی ہیں، ہائیکورٹ نے اپنے علاقائی حدود سے بڑھ کر حکم جاری کیا، حکم نامے میں مزید لکھا گیا کہ عمیر نیازی اسی پارٹی سے ہیں جس نے انتخابات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، عمیر نیازی کہتے ہیں وہ بیرسٹر ہیں تو انہیں سپریم کورٹ احکامات کا علم ہونا چاہیئے تھا، بظاہر عمیر نیازی نے جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالی۔
سپریم کورٹ
اسلام آباد (وقار عباسی/ وقائع نگار) سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے رات گئے سال 2024 کا انتخابی شیڈول جاری کردیا ہے جس کے تحت ملک بھر میں عام انتخابات آئندہ سال 8 فروری 2024 کو منعقد ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ریٹرننگ افسران نوٹس جاری کریں گے۔ 20 سے 22 دسمبر تک امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرا سکیں گے اور 23 دسمبر تک امیدواروں کے ناموں کی فہرست جاری کی جائے گی۔ 24 سے 30 دسمبر تک ریٹرننگ افسران کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کریں گے اور 3 جنوری 2024 کو کاغذات کی منظوری اور مسترد ہونے پر اپیلوں کی سماعت ہو گی۔ اعلامیے کے مطابق الیکشن کمیشن 10 جنوری 2024 کو اپیلوں پر اپیلیٹ اتھارٹی کے فیصلوں کا آخری روز ہوگا اور 11 جنوری 2024 کو امیدواروں کی نظرثانی فہرست جاری کی جائے گی۔ بیان میں کہا گیا کہ 12 جنوری 2024 کو کاغذات نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ ہو گی اور 13 جنوری 2024 کو امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہوں گے جس کے بعد 8 فروری 2024 بروز جمعرات کو عام انتخابات ہوں گے۔ واضح رہے کہ شیڈول کا اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب چند گھنٹے قبل ہی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو آج ہی شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ علاوہ ازیں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو ’’سلیبرٹی اور قومی ہیرو‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کرکٹ میں پسندیدہ پلیئر عمران خان ہیں، میرے گھر میں ان کی تصویر لگی ہے۔ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کا مخالف نہیں ہوں، انہوں نے میری نامزدگی کی، اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کے تمام جماعتوں کو لیول پلئنگ فیلڈ دی جائے، پی ٹی آئی کے تمام مقدمات کے فیصلے میرٹ پر ہوں گے۔ سکندر سلطان راجا نے مزید کہا کہ حلقہ بندیاں بلکل ٹھیک ہوئی ہیں، ن لیگ لاہور میں ناخوش ہے، الیکشن شیڈول تیار ہے، میں نے کبھی نہیں کہا کہ الیکشن میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹس کے انکار کے بعد بیوروکریسی سے آر اوز لیے، الیکشن کمیشن آج ہی شیڈول جاری کرے گا۔ عملی طور پر آر اوز کی تربیت کے بعد شیڈول جاری ہونا چاہیے لیکن سپریم کورٹ کا حکم آیا ہے تو شیڈول آج دے دیں گے۔
شیڈول جاری