سقوط ڈھاکہ : تاریخ کے چند اوراق میں

ڈاکٹر سلیم اختر

مسلم لیگ ایک سیاسی جماعت تھی جو مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی حقوق کیلئے قائم کی گئی تھی۔ 1937ء  کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ کے رہنما ہندو مائنڈ کے بے نقاب ہونے کے بعد کانگریس سے بدظن ہوگئے اور مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد میں دو ریاستوں اور خودمختار صوبوں کی بات کی گئی تھی۔ جب ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ ہوگیا تو انگریزوں اور ہندوئوں نے گہری سازش تیار کی کہ مسلمانوں کو ایسا کٹا پھٹا لولا لنگڑا اور اپاہج پاکستان دیا جائے جو اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو سکے اور آزادی کے چھ ماہ بعد ہی مسلم لیگ ہندوستان میں دوبارہ شمولیت کیلئے بھیک مانگنے لگے۔ جب پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا منصوبہ سامنے آیا تو حسین شہید سہروردی نے لارڈ مائونٹ بیٹن سے کہا کہ وہ بنگال کو متحد رکھنے کیلئے کردار ادا کر سکتے ہیں اور قائد اعظم کو قائل کر سکتے ہیں کہ متحدہ بنگال پاکستان سے الگ ایک آزاد ریاست بن جائے۔ جب مائونٹ بیٹن نے قائداعظم سے سہروردی کی تجویز پر رائے لی تو قائداعظم نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کہا کہ اگر بنگال متحد رہے اور علیحدہ ریاست کی شکل اختیار کر ے تو ان کو بہت خوشی ہوگی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ بنگال کے پاکستان کے ساتھ تعلقات خوشگوار رہیں گے( ایچ وی ہوڈسن: گریٹ ڈیوائڈ صفحہ 246) یہ کتاب مستند ترین کتب میں شمار ہوتی ہے کیوں کہ اسے اصل سرکاری دستاویزات کی روشنی میں قلمبند کیا گیا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن نے کانگریس کے لیڈر جگ جیون رام کی رائے سے اتفاق کیا کہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے بعد پاکستان انتظامی حوالے سے قائم نہیں رہ سکے گا اور مسلم لیگ رضاکارانہ طور پر انڈین یونین میں شامل ہونے پر مجبور ہو جائیگی۔( ایچ وی ہوڈسن:گریٹ ڈیوائڈ صفحہ 245)بنگال اور پنجاب کی تقسیم کا حربہ قائداعظم کو بلیک میل کرنے کیلئے چھوڑا گیا تاکہ وہ قیام پاکستان کا ارادہ ترک کر دیں۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان میں ہندو بیس فیصد تھے جو تعلیم تجارت اور بیوروکریسی میں بڑے بااثر تھے۔ قائد اعظم نے دستور ساز اسمبلی کی قرار داد کی روشنی میں اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جو پانچوں صوبوں میں رابطے کی واحد زبان تھی۔ مشرقی پاکستان کے ہندوئوں نے کانگریس کی آشیرباد سے زبان کے مسئلہ کو اْچھالا اور بنگالیوں میں اشتعال پیدا ہوا۔ قائداعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان واحد سیاسی رشتہ کمزور پڑگیا اور مسلم لیگ مشرقی پاکستان میں انتخابات ہار گئی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب سیاسی اور جمہوری رشتے کمزور پڑ جائیں تو اتحاد اور قومی یکجہتی دائوپر لگ جاتی ہے۔ سکندر مرزا غلام محمد اور محمد علی سول سرونٹس تھے جو کلونیل ذہنیت کے حامل تھے، انہوں نے کلونیل نظام کو جاری رکھا اور پاکستان کے دونوں بازو آئین اور جمہوریت کے رشتے میں منسلک نہ ہو سکے۔ غلام محمد نے اپنے اقتدار کیلئے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو ختم کر کے اور دستور ساز اسمبلی کو توڑ کر بنگالیوں کو مایوس کیا۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے تین وزیراعظم برطرف کئے گئے۔ جنرل ایوب خان اور سکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کر کے مشرقی اور مغربی پاکستان کے رہے سہے سیاسی اور جمہوری رشتے پر کاری ضرب لگائی۔ مغربی پاکستان کی مقتدر اشرافیہ نے مشرقی پاکستان کو اپنی کالونی سمجھ کر عوام کا معاشی استحصال کرکے ان میں شدید احساس محرومی پیدا کیا۔ قرارداد پاکستان کیمطابق صوبائی خود مختاری دینے کی بجائے مضبوط مرکز کی سیاست کی گئی۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے بنگالیوں کی مایوسی اور بداعتمادی سے پورا فائدہ اْٹھایا۔ خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق افسر آر کے یادیو نے اپنی کتاب’’مشن آر اینڈ ڈبلیو‘‘ میں انکشاف کیا کہ اندرا گاندھی نے انیس سو ساٹھ میں آئی بی کے سینئر افسر آر این کاؤ کے ساتھ مل کر خفیہ منصوبہ تیار کیا جس کا مقصد مشرقی پاکستان بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بغاوت کے جذبات کو تقویت دے کر ان کو علیحدہ ریاستوں میں تبدیل کرنا تھا۔ اس منصوبے کو ’’کائو پلان‘‘ کا نام دیا گیا۔ باوثوق شہادتوں کیمطابق شیخ مجیب الرحمن کو بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے 25 ہزار روپے ماہانہ وصول ہوتے تھے۔ حسینہ واجد نے شیخ مجیب الرحمن کی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں تسلیم کیا ہے کہ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے ایک خفیہ تنظیم قائم کر رکھی تھی۔ یہ کتاب آکسفورڈ نے شائع کی ہے جو مارکیٹ میں موجود ہے۔ اگرتلہ سازش کیس بے بنیاد نہ تھا جو سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوگیا۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی نے گہری سوچ بچار کے بعد چھ نکات تیار کیے۔ جنرل یحییٰ خان ان نکات کے موذی اثرات کا بر وقت ادراک نہ کر سکے۔وہ چھ نکات کیا تھے‘ آئیے ان پر بھی روشنی ڈال لیتے ہیں۔ 
1۔ قرار داد لاہور کے مطابق آئین کو حقیقی معنوں میں ایک فیڈریشن کی ضمانت دیتے ہوئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب مقننہ کی بالا دستی اور پارلیمانی طرز حکومت پر مبنی ہونا چاہیے۔ 
2۔ وفاقی حکومت صرف دو محکمے یعنی دفاع اور امور خارجہ اپنے پاس رکھے گی ، جب کہ دیگر محکمے وفاق کی تشکیل کرنیوالی وحدتوں میں تقسیم کر دیئے جائیں گے۔ 
3۔ (الف) ملک کے دونوں بازوئوں میں دو علیحدہ مگر باہمی طور پر تبدیل ہو جانیوالی کرنسی متعارف کرائی جائے یا۔ (ب) پورے ملک کیلئے ایک ہی کرنسی رائج کی جائے ، تا ہم اس کیلئے موثر آئینی دفعات کی تشکیل ضروری ہے تا کہ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کو رقو مات کی ترسیل روکی جا سکے۔ مشرقی پاکستان کیلئے علیحدہ بینکنگ ریز روز قائم اور الگ مالیاتی پالیسی اختیار کی جائے۔ 
4۔ محاصل اور ٹیکسوں کی وصولی کے اختیار کو وفاق کی وحدتوں کے پاس رکھا جا ئے۔ مرکز کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے تا ہم فیڈریشن وفاقی وحدتوں کے ٹیکسوں میں حصے دار ہو گی تا کہ وہ اپنی ضروریات پور ی کر سکے۔ ایسے وفاقی فنڈز پورے ملک سے جمع ہونیوالے ٹیکسوں کے طے شدہ فیصد تناسب پر مشتمل ہوں گے۔ 
5۔ (الف) دونوں بازوئوں میں زرمبادلہ کی آمدنی کیلئے دو علیحدہ اکائونٹس ہونے چاہئیں اور (ب) مشرقی پاکستان کی آمدنی کومشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی آمدنی کو مغربی پاکستان کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔(ج) مرکز کی زر مبادلہ کی ضروریات ، دونوں بازوئوں کو مساوی طور پر یا کسی طے شدہ تناسب کے مطابق پوری کرنا ہوں گی۔(د) ملکی مصنوعات کی دونوں بازوئوں کے درمیان آزادانہ نقل و حمل پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں کی جائیگی۔ (ہ) آئین کی رو سے وفاقی وحدتوں کو یہ اختیارات حاصل ہونگے کہ وہ غیر ممالک میںتجارتی مشن کے قیام کے ساتھ تجارتی معاہدے نیز تجارتی تعلقات قائم کرسکیں۔ 
6۔ مشرقی پاکستان کیلئے ملیشیا یا ملٹری فورس کا قیام ۔
یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ان چھ نکات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے شیخ مجیب الرحمن کتنا بااختیار تھا۔ لہذا اْ س وقت 3 جنوری 1971ء کو شیخ مجیب الرحمن نے ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا جس میں اس نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان سے حلف لیا اور پارٹی کی صوبائی خود مختاری کے ایجنڈے سے وفا دار رہنے کا وعدہ کیا۔ اگرچہ چھ نکات کے سلسلے میں پہلے شیخ مجیب الرحمن پیچھے ہٹتے رہے اور لچک دکھاتے رہے لیکن بعد میں اْس نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ چھ نکات بنگلہ دیش کی عوام کی ملکیت ہیں لہٰذا ان پر سودے بازی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سقوط ڈھاکہ کی مرکزی ذمہ داری جنرل یحییٰ خان پر عائد ہوتی ہے جو کامل اختیارات کے مالک تھے۔ وہ اقتدار کے نشے سے باہر نکل کر حالات کا درست ادراک نہ کر سکے اور اس وقت کرسی چھوڑنے پر مجبور ہوئے جب فوج کے اندر بغاوت کے آثار پیدا ہوئے اور مشتعل عوام نے انکے گھر کو نذر آتش کر دیا۔ غیرجانبدار مورخین کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو اگر چھ نکات پر سخت موقف اختیار نہ کرتے تو بھارت کا مغربی پاکستان کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا خواب بھی پورا ہو جاتا۔ سقوط ڈھاکہ کو اسکے پس منظر تاریخی ارتقاء اور معروضی حالات کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم سقوط ڈھاکہ کے بنیادی اسباب سے سبق سیکھ کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی طرح آج بلوچستان کے شورش پائی جا رہی ہے‘ علیحدگی پسند تحریک بھی جاری ہے جس کی سرپرستی خفیہ طریقے سے بھارت ہی کررہا ہے۔ مشرقی پاکستان میں بھی علیحدگی کی شروعات اسی طرح کی کارروائیوں سے ہوئی تھیں۔ ہمیں سب کو سوچنا ہو گا کہ خدانخواستہ کہیں بلوچستان کی علیحدگی کیلئے ایک بار پھر کوئی چھ نکات تو تیار نہیں ہو رہے ؟ 

ای پیپر دی نیشن