حقائق …چوہدری رخسار ایوب
16 دسمبر 1971ء سقوط ڈھاکہ، 16 دسمبر 2014ء سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور اور 10 دسمبر 2023ء (سانحہ آرٹیکل 370) بھارتی سپریم کورٹ کا متنازعہ فیصلہ دسمبر کی تلخ یادوں کا الاؤ روشن کرتا رہے گا… دسمبر کی سرد ہواؤں نے اہل پاکستان اور کشمیریوں کی خوشیاں مانند کر دی ۔ 52 برس قبل 16 دسمیر 1971 کو غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی ریشہ دوانیوں نے قائداعظم کا پاکستان دولخت کرا دیا تھا۔ ہر سال دسمبر سانحہ مشرقی پاکستان کا زخم تازہ کر دیتا ہے 9 برس قبل 16 دسمبر 2014ء کو انسانیت دشمنوں نے پھولوں کی سرزمین پشاور میں معصوم زندگیوں کو خون میں نہلا دیا۔ قوم 153 ننھے شہداء کو بھول نہیں سکتی نہ ان کی قربانیاں فراموش کرے گی۔
10 دسمبر 2023 کو بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار کی خوشنودی ،بی جے پی کی خوشی اور انتہا پسند ہندووں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے عدالتی قتل سے اپنا چہرہ داغ داغ کرلیا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والوں کو ذرا بھر شرم نہیں آئی کہ انکی اعلی عدلیہ عالمی قوانین کے دھجیاں اڑارہی تھی۔ اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کو پاؤں تلے روند رہی دوسری طرف ہندوستانی سیاست دان خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے!عالمی امور کے ماہر مشاہد حسین سید کا یہ کہنا درست ہے کہ بھارتی عدالت کی طرف سے آرٹیکل 370 کی تائید کا فیصلہ مودی سرکار کے لیے خوش آئند تو ہوسکتا ہے لیکن بھارت عالمی سطح پر اخلاقی جواز کھو چکا۔ اب وہ مسئلہ کشمیر کا فریق نہیں رہا، تنازعہ کشمیر آج کے بعد اقوام متحدہ' پاکستان اور کشمیریوں کے مابین حل طلب رہے گا۔ پاکستان اور چین نے چیف جسٹس چندر چوڑھ کے فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے اسے انٹرنیشنل لاء کی توہین قرار دیا ہے، چین کے تحفظات درست ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر طے شدہ متنازعہ امور پر بھارتی عدالت کو فیصلہ نہیں دینا چاہیے اورنہ ہی عالمی سطح پر اس فیصلہ کی کوئی حیثیت ہے۔ 14 دسمبر 2023ء کو آزاد کشمیر دورے اور قانون ساز اسمبلی سے خطاب کے دوران وزیراعظم پاکستان انوارالحق کاکڑ نے کشمیر کی آزادی کے لیے 300 مرتبہ جنگ کرنے کا اعلان کیا۔ وزیراعظم بار بار یقین دہانی کراتے رہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق اول ہے اور اس مسلمہ حیثیت سے وہ کشمیریوں کی اخلاقی' سیاسی اور سفارتی مدد اور حمایت جاری رکھے گا۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فوجیوں، پیراملٹری پولیس اہلکاروں، بدنام زمانہ بھارتی تحقیقاتی اداروں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی اور سٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی نے نومبر2023 میں محاصرے اور تلاشی کی 218کارروائیوں کے دوران 368افراد کو کالے قوانین''پی ایس اے اور یو اے پی اے'' کے تحت گرفتار کیا جن میں زیادہ تر طلبائاور نوجوان شامل تھے۔ قابض بھارتی فوجیوں نے گزشتہ ماہ تلاشی آپریشنوں کے دوران پانچ رہائشی مکان بھی تباہ کیے۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموںوکشمیر سے 35 لاکھ سے زائد کشمیری آزاد جموں وکشمیر، پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ بھارتی فوجیوںنے جنوری 1989 سے اب تک 96ہزار2سو78کشمیریوں کو شہید کیا ہے جن میں سے7ہزار3سو22کو دوران حراست وحشیانہ تشدد اورجعلی مقابلوں میں شہید کیا گیا۔بھارتی فوجیوں نے اس عرصے کے دوران 1لاکھ 68ہزار9سو 39کشمیریوں کو گرفتارکیا، 1لاکھ10ہزار5سو09مکانات اور دیگر عمارتیں تباہ کیں۔ بھارتی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں اس عرصے کے دوران 22ہزار9سو68خواتین بیوہ جبکہ1لاکھ7ہزار9سو41بچے یتیم ہوئے۔ بھارتی فوجیوںنے جنوری 1989 سے اب تک 11ہزار2سو59خواتین کی آبرو ریزی کی۔ رپورٹ میں سرینگر میں قائم ایک ریسرچ سیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں تعینات بھارتی فوجیوں کی اصل تعداد 15لاکھ ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ بھارتی فوج کے اہلکاروں کی تعداد 7لاکھ50ہزار، پیرا ملٹری اہلکاروں کی تعداد 5لاکھ 35ہزار، پولیس اہلکاروں کی تعداد 1لاکھ30ہزار، اسپیشل پولیس آفیسرز کی تعداد 35ہزار جبکہ ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کے اہلکاروں کی تعداد 50 ہزارہے۔ مجموعی طور پر یہ تعداد پندرہ لاکھ ایک ہزار بنتی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بہیمانہ مظالم میں بھارتی حکمراں جماعت بی جے پی ملوث ہے جب کہ جینوسائیڈ واچ پہلے ہی دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کی مہم سے خبردار کر چکی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق فروری 2023 میں بھارت نے مقبوضہ وادی میں مسلم اکثریتی علاقوں کو مسمار کرتے ہوئے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے باعث بے شمار نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ بی جے پی کی زیرقیادت بھارتی حکومت کشمیریوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے دہشت گردی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے لیکن بھارتی مظالم کشمیریوں کے عزم کو توڑنہیں سکتے کیونکہ ان مظالم سے کشمیریوں کا جذبہ آزادی مزید مضبوط ہوجاتا ہے۔اب یہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں بھارت کی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور دنیا کو مجبور کریں کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی مظالم کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اْٹھائے۔
آرٹیکل 370 کی حمایت میں بھارتی سپریم کورٹ کے جانبدار اور غیر قانونی فیصلہ کے بعد سب سے بڑی ذمہ داری آزاد کشمیر کے بیس کیمپ پر عائد ہورہی ہے، فوری طور پر اے پی سی بلائی جائے۔ کشمیریوں کی آواز کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے بیرون ممالک وفود بھیجے جائیں' سفارتی سطح پر تنازعہ کشمیرکو اجاگر کرنے کے لیے کوششیں تیز کی جائیں۔ ان سب تعمیری سرگرمیوں کے لیے مسلم کانفرنس کے صدر اور سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان کو اہم ذمہ داری دی جائے جن کی قیادت میں عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ بہتر انداز سے پیش کرنے کی سبیل پیدا کی جائے۔ بلاشبہ سردار عتیق ''بڑے باپ کے بڑے بیٹے'' ہیں۔ مسلم کانفرنس کے قائد ہونے کے سبب وہ کشمیر اور کشمیریوں کے مفادات کا ادارک رکھتے ہیں۔ انہیں ہدف دیا جائے تو انشاء اللہ وہ پاکستانی اور کشمیری قوم کو مایوس نہیں کریں گے ( قلم کار ضلعی سیکرٹری جنرل مسلم کانفرنس میرپور آزاد کشمیر ہیں)