آج سولہ دسمبر ہے۔یہ وہ دن ہے جب پاکستان دو حصوں میں بٹ گیا۔ دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے تاریخ سے سبق سیکھنے اور ماضی میں کی گئی غلطیوں کو دوبارہ نہ کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ایک گھر میں پل کے جوان ہونے والے ایک ماں باپ کے بیٹے بھی ایک وقت آتا ہے، الگ ہوجاتے ہیں۔کبھی کبھی بھائیوں میں ناراضگیاں اور دشمنیاں تک بھی ہو جاتی ہیں،لیکن دو بھائیوں کے درمیان جب دشمنیاں دوستی میں بدلتی ہیں تو دلوں سے پرانی رنجشیں ختم ہوجاتی ہیں۔ دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ملکوں کے درمیان دشمنیاں،دوستی بدل گئیں۔ مشرقی و مغربی جرمنی کے درمیان بنی دیوار برلن گرا دی گئی۔ایک مدت تک ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرنے والے یورپی ملک آج کرنسی استعمال کررہے ہیں اورایک ٹکٹ پر سفر کررہے ہیں۔ان ملکوں کے عوام کے دلوں میں نفرت اور رنجشیں نہیں بلکہ ایک دوسرے کیلئے عزت و احترام کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کی موجودہ نسل سقوط ڈھاکہ کے بعد پیدا ہوئی اور اس نسل کو دونوں طرف سے اپنی مرضی کے واقعات و حالات بتائے گئے۔جہاں دونوں طرف کے عوام کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے احترا م و محبت کے جذبات کم نہ ہوسکے اس کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملتی رہیں۔وہیں حکومتی سطح پر دونوں طرف سے آپس میں تعلقات کی بہتری کے لیے کوششیں ہوتی نظر نہ آئیں۔ حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کے بعد وہ سرزمین جہاں پاکستان کا نام لینا بھی جرم سمجھا جاتا تھا، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کے فوری بعد بنگلہ دیش کی اسٹوڈنٹس تنظیم کا بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی منانا،یہ ثابت کرتا ہے کہ بنگالی قائد اعظم سے کیسی عقیدت رکھتے ہیں۔بنگلہ دیش نے عشروں بعد پاکستان سے 25ہزار ٹن اعلیٰ کوالٹی کی چینی خریدی ہے جو کراچی پورٹ سے چٹاگانک پورٹ(بنگلہ دیش) پہنچ رہی ہے۔بنگلہ دیش اس سے پہلے بھارت سے چینی درآمد کرتا رہا ہے۔ سیلاب سے ہونے والے نقصان پر پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف کی طرف سے مدد کی پیشکش بھی اچھا پیغام تھا۔نہ صرف حکومتوں بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے دلوں میں بھی ایک دوسرے کیلئے محبت،اخوت اور بھارے چارے کے جذبات پیدا کرنے لیے ضروری ہے کہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف جلد ہی بنگلہ دیش کا دورہ کریں اور اپنے وفد میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ بزنس مینوں،صحافیوں اور نوجوانوں کو شامل کریں تاکہ دونوں طرف کے لوگوں کے درمیا ن رابطے اور کاروبار کو فروغ مل سکے۔کچھ ماہ پہلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے شہباز شریف سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے رہنماؤں نے معاشی اور تجارتی تعلقات کو بڑھانے کی مشترکہ خواہش کا اظہار کیا تھا۔
شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں بنگلہ دیش نے بھارت کی مدد سے 1971 میں آزادی تو حاصل کر لی، لیکن اس کے بعد کے حالات نے ان کی قیادت پر کئی سوالات اٹھائے۔ عوام کے لیے مجیب الرحمن کا اقتدارناکامیوں اور ناانصافیوں کا دور تھا۔شیخ مجیب کی حکومت میں کرپشن، بدانتظامی، اور عوامی مسائل بڑھنے لگے۔ ان کی آمرانہ پالیسیوں، خاندان پروری، اور سیاسی مخالفین کو دبانے کی کوششوں نے عوام کو مایوس کر دیا۔ ان کے دور میں بھوک، غربت، اور بدامنی نے بنگلہ دیش کو مزید مشکلات میں ڈال دیا۔ نتیجتاً، عوام نے انہیں ایک ناکام رہنما کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا اور ان کی قیادت سے بدظن ہو گئے۔اس دوران کئی بنگالی دانشوروں اور عوام نے قائداعظم محمد علی جناح کے نظریات کو دوبارہ سمجھنے کی کوشش کی۔بنگلہ دیش کے عوام، جو شیخ مجیب کے وعدوں کی ناکامی دیکھ چکے تھے، نے قائداعظم کے اتحاد، مساوات، اور عدل کے پیغام کو ایک مرتبہ پھر اہمیت دی۔بنگلہ دیش کے کچھ حلقے، خاص طور پر نوجوان نسل اور وہ افراد جو پاکستان کے ساتھ جذباتی تعلق رکھتے تھے، نے ''پاکستان زندہ باد'' کا نعرہ بلند کرنا شروع کیا۔لیکن مجیب حکومت نے جبر سے پاکستان سے محبت کرنے والوں کو سخت سے سخت سزائیں دیں۔شیح مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ کے زوال نے بنگلہ دیش کو آزادی کی نئی روح دی ہے، لیکن بھارت بنگلہ دیش میں اپنی شکست اور ہزیمت کو ہضم نہیں کر پارہا ہے۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان پیدا ہونے والی محبت، دوستی، بہتر سفارتی تعلقات، تجارتی سرگرمیاں اور چین کا پاک بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا، بھارت کے لیے تشویش کا باعث بن رہا ہے، یہ تعلقات خطے میں بھارت کی سپر پاور بننے کی خواہش کو چیلنج کر رہے ہیں۔یہ معاملہ صرف تجارتی نہیں بلکہ اس میں اسٹریٹیجک پہلو بھی شامل ہو سکتے ہیں، کیونکہ چین، پاکستان، اور بنگلہ دیش کے تعلقات بھارت کے ارد گرد ایک ممکنہ جغرافیائی اتحاد کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ اس طرح کے حالات بھارت میں اقتصادی اور سیکورٹی کے خدشات پیدا کر سکتے ہیں، جس کی وجہ سے میڈیا اور سیاسی حلقوں میں شور دیکھنے کو مل رہاہے۔ بھارتی حکومت نے بنگلہ دیش کو غیر مستحکم کرنے کے لیے مختلف سازشوں پر کام شروع کر دیاہے، جن میں اقلیتی مسائل کو ہوا دینا اور فرقہ وارانہ فسادات کو بڑھاوا دینا شامل ہیں۔ حال ہی میں بھارت میں بنگلہ دیشی قونصل خانوں پر حملے بھی کیے گئے ہیں۔
اب حسینہ واجد اپنی اصل جگہ موجود ہیں۔ دنیا نے پہلے شیخ مجیب الرحمٰن کا انجام دیکھا اور پھر دنیا نے شیخ حسینہ واجد کے فرار کا منظر بھی دیکھا ہے۔ اس میں ایک سبق بھی ہے کہ ہر وہ شخص جس نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے اس کا انجام ایسا ہی ہو گا۔ اس ملک کی بنیادوں میں شہیدوں کا خون ہے، عزتیں، عصمتیں اور معصوم بچوں کے لاشے ہیں، لاکھوں شہید اپنے خوابوں کے ساتھ دفن ہیں۔ جو بھی اس ملک کو نقصان پہنچانے کے عمل کا حصہ بنے گاوہ آخر کار اپنے انجام کو پہنچے گا۔اب بنگلہ دیشی لوگ 1971 کے سانحات کو بھول کر برصغیر کے مسلمانوں کے مشترکہ ورثے اور اتحاد کو اہمیت دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔آج بنگلہ دیش میں عوام شیخ مجیب الرحمن کو قوم کا باپ ماننے سے انکاری ہوچکی ہے۔شیخ مجیب کے مجسموں تک کو گرایا جاچکا ہے۔ اس کے برعکس، قائداعظم کی شخصیت اور پاکستان کے ساتھ تاریخی تعلقات کو عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ ''پاکستان زندہ باد'' کا نعرہ ان جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔