سانحۂ سقوطِ ڈھاکہ اور موجودہ سیاسی عدم استحکام

سانحۂ سقوط ڈھاکہ کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ آج قوم پہلے سے بھی زیادہ سنگین خطرات میں گھرے پاکستان کو دیکھ کر نمناک آنکھوں اور متفکر سوچوں کے ساتھ ملک کے دولخت ہونے کی یاد تازہ کر رہی ہے اور کفِ افسوس ملتے ہوئے ملک کی سیاسی، انتظامی اور عسکری قیادت سے ملک کی سلامتی و بقاء کے لیے فکرمند ہونے اور قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا استوار کرنے کی متقاضی ہے۔ آج ہی کے دن دس سال قبل 16 دسمبر 2014ء کو ہمارے سفاک دشمن بھارت نے ہم پر اوچھا وار کیا اور اپنے تربیت یافتہ ننگ انسانیت دہشت گردوں کے ذریعے آرمی پبلک سکول پشاور کے دوسو کے قریب بے گناہ و معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ بشمول پرنسپل کو اپنے جنونی انتقامی جذبات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ان معصوموں کے خون سے رقم ہونے والی ہماری یہ تاریخ انتہائی کربناک اور دل دہلا دینے والی ہے اور گھناؤنی بے رحم سازشوں کے مقابل ہمہ وقت الرٹ رہنے کی متقاضی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آج ہمارا مکار دشمن کابل کی عبوری طالبان حکومت کو پاکستان کے خلاف جاری اپنی سازشوں میں شریک کر کے بلوچستان، خیبر پختونخوا اورشمالی علاقہ جات سمیت ملک کے مختلف حصوں میں گھناؤنی دہشت گردی کے ذریعے سقوطِ ڈھاکہ پر منتج ہونے والے مشرقی پاکستان کے حالات جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اسی تناظر میں مودی سرکار نے اپنے ناجائز زیر تسلط کشمیر کو بھارتی پارلیمان کے ذریعے ہڑپ کرنے کے اپنے 5 اگست 2019ء کے اقدام کی بھارتی سپریم کورٹ سے بھی توثیق کرا لی ہے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کی سلامتی خدانخواستہ تاراج کرنے کی علانیہ بڑ مارتے نظر آتے ہیں۔
 اسی طرح، طالبان حکومت کی سہولت کاری کے ساتھ افغانستان سے پاکستان داخل ہونے والے سفاک دہشت گرد بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز کو اپنے ہدف پر رکھ کر دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ملک کو درپیش ان سنگین حالات میں ہماری سکیورٹی فورسز اپنی جانوں پر کھیل کر ملک کے دفاع و سلامتی کے تقاضے خوش اسلوبی سے نبھا رہی ہیں اور ملک کی سیاسی، انتظامی اور عسکری قیادت باہم یکسو ہو کر نیشنل ایکشن پلان کو ایک نئے جذبے کے ساتھ عملی جامہ پہنا رہی ہے جس کے لیے پوری قوم ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ لیکن یہ ایک تکلیف دہ پہلو ہے کہ سیاسی قیادت کا پیدا کردہ عدم استحکام سکیورٹی فورسز کے لیے بھی مسائل پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے جس کا ایک مظاہرہ قوم نے 24 تا 26 نومبر اسلام آباد میں دیکھا جہاں ایک سیاسی جماعت وفاقی دارالحکومت پر قبضہ کرنے کی خواہاں دکھائی دے رہی تھی۔
آج سے نصف صدی پہلے بھی اسی طرح کے حالات پیدا کیے گئے تھے اور پھر 53 سال قبل 16 دسمبر کا بدنصیب و سیاہ دن 71ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران مکتی باہنی کی گھناؤنی سازشوں سے پاکستان کے دولخت ہونے پر منتج ہوا اور ہمیں مشرقی پاکستان میں لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی زیرکمان پاک فوج کے سرنڈر ہونے اور بھارتی لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے آگے ہتھیار ڈالنے کی انتہائی تکلیف دہ ہزیمت بھی اٹھانی پڑی۔ یہ ہماری قومی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے جو ملک کی سلامتی کے تحفظ و دفاع کے حوالے سے ہماری انتظامی، سیاسی اور عسکری قیادت سے آئندہ ایسی کسی سفاک غلطی کا اعادہ نہ ہونے دینے کا ہمہ وقت متقاضی رہتا ہے۔ بھارت نے اس سانحہ کے ذریعے پاکستان کو دولخت کرکے اسے کمزور کرنے کے مقاصد پورے کیے اور اسی رعونت اور تکبر کے عالم میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے بڑ ماری تھی کہ آج ہم نے نظریۂ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو کر مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔ 
بے شک اس ہزیمت اور شکست خوردگی کے ماحول میں بھی اس وقت کی سیاسی اور عسکری قیادت نے دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کے لیے ملک کو ایٹمی قوت سے سرفراز کرنے کی کوششوں کا آغاز کرکے قوم کی مایوسیوں کا ازالہ کیا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو نے جنگی قیدی بنے 90 ہزار فوجی جوانوں، افسران اور سویلینز کو اپنی کامیاب سیاسی اور سفارتی حکمت عملی کے تحت دشمن کے تسلط سے آزاد کرایا اور اس کے زیر قبضہ پاکستان کے علاقے بھی اس سے چھڑوانے کی سرخروئی حاصل کی۔ ان کے بعد کی قومی قیادتوں نے ملک کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرکے عملی طور پر ملک کا دفاع مضبوط اور ناقابل تسخیر بنایا مگر شروع دن سے ہماری سلامتی کے درپے ہمارا سفاک دشمن بھارت ہماری سلامتی کے خلاف آج پہلے سے بھی زیادہ گھناؤنی سازشوں میں مصروف ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو مکتی باہنی کے حمایت کرنے والے متشدد گروہ کے رکن ہونے کے ناتے پاکستان اوراسلام دشمنی کا ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں، بلوچستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو پاکستان سے الگ کرنے کی اپنے ذہن میں سمائی سازشوں کا علانیہ اظہار کرتے رہتے ہیں اور اس اظہار کا اعادہ انھوں نے گلگت بلتستان کے دو سال قبل کے انتخابات کے موقع پر بھی ان انتخابات کو متنازعہ قرار دلانے کی کوششوں کے ذریعے کیا۔ وہ اپنی ان سازشوں کی بنیاد پر ہی پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے دہشت گردی پھیلا کر اسے انتشار کا شکار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے قائم کردہ اس نیٹ ورک کے ذریعے بھارتی دہشت گردوں کو افغان دھرتی پر تربیت دے کر اور ان کی فنڈنگ کرکے افغان سرحد کے راستے پاکستان بھجوایا جاتا ہے جنھیں پاکستان میں بھارتی فنڈنگ پر پلنے والے سہولت کار دستیاب ہوتے ہیں اور ان کی معاونت سے وہ دہشت گردی کے لیے بھارتی متعین کردہ اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ 
اسی طرح، 16دسمبر 2014ء کو اے پی ایس پشاور میں بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی کی منظم واردات کی گئی جس کی یاد آج بھی قوم کو خون کے آنسو رلاتی ہے جبکہ بھارت آج مقبوضہ کشمیر میں اور کنٹرول لائن پر پہلے سے بھی زیادہ دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتا نظر آتا ہے۔ 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اس پر شب خون مارنے کا مودی سرکار کا مقصد بھی درحقیقت پاکستان کی سلامتی پر اوچھاوار کرنے کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانا تھا چنانچہ مقبوضہ وادی کو بھارتی فوجوں کے ہاتھوں محصور ہوئے آج 1959روز گزر چکے ہیں اور اس کے خلاف دنیا بھر میں عالمی قیادت اور نمائندہ عالمی اداروں کی جانب سے ہونے والی مذمتوں اور علاقائی و عالمی امن کے حوالے سے تشویش کے اظہار پر بھی مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی اوراپنے مکروہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل رہتی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار کے 5 اگست 2019ء کے اقدام کو جائز قرار دے کر اس کی ہٹ دھرمی کو مزید پختہ کر دیا ہے۔
 بھارتی سازشوں اور خطے میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم سے آج پوری دنیا آگاہ ہے اور مودی سرکار کی جانب سے اپنے جنگی جنون کو عملی قالب میں ڈھالنا بھی بعیداز قیاس نہیں اس لیے آج سانحۂ سقوطِ ڈھاکہ اور سانحۂ اے پی ایس کی کربناک یاد کو تازہ کرتے ہوئے ہمیں ملک کی سلامتی کے لیے زیادہ فکرمند ہونا ہے۔ اس کے لیے قومی سیاسی، انتظامی اور عسکری قیادت کا دفاع وطن کے لیے مکمل یک جہت ہونا اور اس ناتے سے دشمن کو سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام دینا ضروری ہے۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام نہ صرف ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ عوام کو بھی اس کی وجہ سے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ سیاسی قیادت کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہے۔
بد قسمتی سے آج پھر ہمیں انھی حالات کا سامناہے جو سانحۂ مشرقی پاکستان کا سبب بنے تھے۔ ایک طرف ملک دشمن قوتیں ہماری سلامتی کے درپے ہیں اور دوسری طرف ہمارے بعض عاقبت ناا اندیش سیاستدان اس چنگاری کو ہوادینے کی شعوری یا غیر شعوری کو ششوں میں مگن ہیں جو ملکی یکجہتی کو بھسم کرسکتی ہے۔ یہ کس قدر افسوس ناک بلکہ شرم ناک بات ہے کہ بنگلا دیش جوہم سے کٹ کرعلیحدہ وطن کے طورپر سامنے آیا تھا۔ آج پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہوچکاہے۔ اس کی اقتصادیات ہم سے بہت بہتر ہیں۔ بنگلا دیش کی کرنسی کا ریٹ پاکستان کے مقابلے میں دو گنا۔ درآمدات وبرآمدات کا حجم بھی قابل رشک ہے وہ جس تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتاچلاجارہاہے یہ گمان کیا جاسکتاہے کہ مستقبل میں وہ اس خطے کے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک میں شمارہونے لگے گا۔آج بنگلا دیش ایک پسماندہ ملک سے ترقی پذیر ملک بن چکا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کی صورت حال انتہائی پریشان کن ہے۔ قرضوں کے دلدل میں دھنسی پاکستانی معیشت اس قدرکمزور ہوچکی ہے کہ ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کی تلوار ہمہ وقت اس کے سر پر لٹکی رہتی ہے۔ ملک ترقی کی شاہراہ پرچلنے کے بجائے تنزلی کی پستیوں کی جانب لڑھکتاچلا جارہاہے۔ ان حالات میں سیاستدانوں کے درمیان شخصی لڑائی اور اختلافات میں فوج جیسے معتبر ادارے کو بھی اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھایاجارہاہے۔ اس پر طعن وتشنیع کی جارہی ہے اور اس کی قیادت کو متنازعہ بناکر دشمن قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ یہ طرز عمل اس حقیقت کی چغلی کھا رہا ہے کہ ہماری اشرافیہ اور سیاسی قیادتوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے سانحہ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ ہم انھی راستوں کے مسافربن چکے ہیں جو سقوطِ ڈھاکہ جیسے سانحات کو جنم دیتے ہیں۔ آج ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم اپنے طرزعمل کا جائزہ لیں، ملکی مفاد کی خاطر سارے اختلافات بھلا کر ایک ہوجائیں اور اس ملک کو ایسی ریاست بنانے کی کوشش کریں جس کا خواب بانیِ پاکستان قائداعظم نے دیکھا تھا۔ اس کے لیے ہم نے سب سے پہلے ملک کی سلامتی اور دفاع کو مضبوط بنانا ہے تاکہ ہمارا دشمن اور ملک کے بدخواہ دوسرے عناصر اس پر نگاہِ بد ڈالنے کی جرأت ہی نہ کرسکیں۔

ای پیپر دی نیشن