پاکستان کا قیام عالمِ اسلام کے لیے امید کی کرن تھا، لیکن 16 دسمبر 1971 کو سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ اس امید کو گہری مایوسی میں بدل گیا۔ یہ سانحہ نہ صرف پاکستان کی جغرافیائی تقسیم کا المیہ تھا بلکہ مسلم دنیا کے لیے اتحاد اور بھائی چارے کی اہمیت کا ایک تلخ سبق بھی۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کسی بھی قوم کی یکجہتی اور استحکام صرف اسی صورت ممکن ہے جب وہ داخلی اتحاد کو مقدم رکھے۔ سقوطِ ڈھاکہ کا زخم آج بھی ہمارے اجتماعی شعور میں گہری چوٹ کی صورت محسوس ہوتا ہے، جو ہمیں اپنی کوتاہیوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ کوئی ایک فرد، ادارہ یا نظریہ مکمل طور پر اس سانحہ کا ذمہ دار نہیں تھا اور نہ ہی یہ محض سیاسی و سماجی عوامل کا نتیجہ تھا بلکہ یہ عوامی مسائل کو نظرانداز کرنے، ناانصافیوں، بیرونی سازشوں، اندرونی کوتاہیوں اور دشمن عناصر کی سازشوں کا بھی شاخسانہ تھا۔ ماضی کی غلطیاں اور محرومیاں وہ عوامل تھے جنہوں نے قومی یکجہتی کو کمزور کیا اور ہمیں اس نقصان سے دوچار کیا۔ قوموں کے لئے ایسے سانحات اصلاح کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ ان سے سبق حاصل کیا جائے اور مستقبل کے لئے ایک واضح اور قابل عمل حکمتِ عملی ترتیب دی جائے۔ آج، اس سانحے سے سبق حاصل کرنا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے درمیان موجود اختلافات کو ختم کرکے ایک مضبوط اور متحد قوم بننے کی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ قومی یکجہتی کے بغیر ترقی کا خواب ادھورا ہے، اور سقوطِ ڈھاکہ کی یاد ہمیں متنبہ کرتی ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کریں۔ ایک مضبوط، عادلانہ اور متحد پاکستان ہی ہمارے مستقبل کی ضمانت ہے، اور یہی ہمارے شہدا کے خوابوں کی تعبیر بھی۔سقوطِ ڈھاکہ کے اثرات نہ صرف ماضی کے ایک المیے کے طور پر ہماری تاریخ میں رقم ہوئے بلکہ یہ واقعہ ہماری اجتماعی سوچ، قومی رویوں، اور ریاستی حکمت عملیوں پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ اس سانحے نے ہمیں باور کرایا کہ ریاست کا استحکام محض جغرافیہ یا عسکری طاقت پر مبنی نہیں ہوتا، بلکہ یہ عوامی احساسِ شمولیت، مساوات، اور ان کے مسائل کے حل میں مضمر ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ نے پاکستانی معاشرے میں گہرے نفسیاتی اثرات مرتب کیے، جنہوں نے ہمیں داخلی مسائل کی شدت اور ان کے ممکنہ نتائج کا احساس دلایا۔ یہ سانحہ قومی یکجہتی کے تصور کو ہلا کر رکھ دینے والا تھا، جس نے پاکستانی معاشرے میں صوبائیت اور نسلی تقسیم کی شدت کو بڑھا دیا۔ اس سانحے کے بعد ریاست نے مختلف سطحوں پر اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے اور "نظریہ پاکستان" کے تحت قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی کوشش کی، مگر یہ عمل اکثر غیر متوازن اور ناکافی ثابت ہوا جس سے مسائل مزید پیچیدہ ہوئے۔ سقوط کے بعد کے حالات نے یہ واضح کیا کہ حکومتی پالیسیاں صرف کاغذی منصوبوں پر نہیں بلکہ عوامی امنگوں اور ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنائی جانی چاہئیں۔ ہر طبقے اور علاقے کے ساتھ مساوی سلوک کے بغیر قومیت کا تصور نامکمل رہتا ہے۔ اس واقعے نے ملک میں سیاسی شعور کو بھی جھنجھوڑا، جہاں مختلف سیاسی دھڑے قومی یکجہتی کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے رہے۔ آج، سقوطِ ڈھاکہ کی یاد ہمیں ایک سنہری سبق دیتی ہے کہ ریاست کے تمام ستونوں کو عوامی فلاح، شفافیت، اور جوابدہی پر مبنی حکمرانی کو ترجیح دینی چاہیے۔ سانحے کے بعد پیدا ہونے والے صوبائی، لسانی، اور سماجی مسائل نے ہمیں یہ سمجھایا کہ قوموں کی تعمیر میں سب سے اہم عنصر اتفاق و اتحاد ہے۔ یہ المیہ ہمیں بار بار متنبہ کرتا ہے کہ ہمیں اپنی اندرونی کمزوریوں اور تقسیم کو دور کرنا ہوگا، تاکہ مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ ایک مضبوط اور متحد قوم کے طور پر کیا جا سکے۔ سقوطِ ڈھاکہ کی یاد ایک ایسے چراغ کی مانند ہے، جو ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور ایک بہتر، مضبوط پاکستان کے خواب کی تعبیر کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔سقوطِ ڈھاکہ کی تلخ یادوں کے پس منظر میں آج ہمیں ایک ایسے مستقبل کی بنیاد رکھنی ہوگی جہاں ماضی کی کوتاہیاں دوبارہ نہ دہرائی جائیں۔ ہمیں اپنی قوم کے ہر فرد کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں برابر کے شریک ہیں، اور ان کی آواز نہ صرف سنی جاتی ہے بلکہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں اپنی تعلیمی پالیسیوں میں ایسی تبدیلیاں لانی ہوں گی جو قومی ہم آہنگی، اتحاد، اور اجتماعی شعور کو فروغ دیں۔ نصاب میں ایسی اقدار کو اجاگر کرنا ہوگا جو نوجوان نسل کو اپنے قومی ورثے سے جوڑیں اور انہیں یہ سکھائیں کہ پاکستان کی اصل طاقت اس کی کثرت میں وحدت ہے۔ ساتھ ہی، معاشی انصاف کے بغیر قومی یکجہتی اور استحکام ممکن نہیں۔ ہمیں پسماندہ علاقوں کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنا ہوگا اور ان کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ کوئی بھی شہری احساسِ محرومی کا شکار نہ ہو۔ فیصلہ سازی کے عمل میں ہر طبقے اور علاقے کو شمولیت کا موقع دینا ضروری ہے تاکہ تمام شہری یہ محسوس کریں کہ وہ اس ملک کے مالک ہیں۔ مقامی حکومتوں کو فعال اور مؤثر بنا کر عوام کو ان کے مسائل کے حل میں براہِ راست شریک کیا جائے۔ اس کے علاوہ، ہمیں بین الاقوامی تعلقات کو مضبوط اور متوازن رکھ کر ہر ممکن بیرونی دباؤ اور سازش کا مؤثر طریقے سے سامنا کرنا ہوگا۔ میڈیا کو ایک قومی اثاثے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، رائے سازی میں مثبت رجحانات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ نفرت انگیز بیانیوں اور اختلافات کو ہوا دینے والے مواد پر قابو پانا اور اختلافِ رائے کو تعمیری انداز میں قبول کرنے کی روایت ڈالنا قومی یکجہتی کے لیے اشد ضروری ہے۔ یہ سب اقدامات مل کر ایک ایسے پاکستان کی تعمیر کا ذریعہ بن سکتے ہیں جو نہ صرف داخلی طور پر مضبوط ہو بلکہ خارجی سطح پر بھی ایک متحد ملک کے طور پر اپنی شناخت قائم کرے۔
سقوطِ ڈھاکہ نے یہ ثابت کیا کہ بیرونی مداخلت کو روکنے کے لئے داخلی استحکام کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ملک کے اندرونی مسائل کو نظرانداز کیا جائے تو بیرونی طاقتیں ان کا فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں کرتیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے نے ہمیں سکھایا کہ قومیں صرف جغرافیہ کی بنیاد پر زندہ نہیں رہتیں بلکہ باہمی محبت، احترام اور انصاف ان کی اصل طاقت ہوتی ہے۔ آج ہمیں اپنی غلطیوں کو سدھار کر ایک ایسی پالیسی اپنانا ہوگی جو اتحاد، یکجہتی اور یگانگت کو فروغ دے۔ یہ وقت تقسیم اور انتشار کا نہیں بلکہ تعمیر و ترقی کا ہے۔ ہمیں ایک ایسی قوم بننے کا عہد کرنا ہوگا جو ماضی کے سانحات سے سبق سیکھ کر مستقبل کو بہتر بنائے۔ اگر ہم آج ہی سے اپنی سمت درست کریں اور اجتماعی بھلائی کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں، تو ہم پاکستان کو ایک بار پھر ترقی، امن، اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں!!