حال ہی میں خواتین اور بچیوں پر تشدد کے خاتمے کیلئے جدوجہد کے موضوع پہ کانفرنس پیس ہینڈز ویلفیئر سوسائٹی اور لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقد ہوئی۔ جس میں مجھے بھی شمولیت کی دعوت دی گئی۔ سینئر صحافی رئیس انصاری، واصف ناگی، شاہد قادر، ڈاکٹر شبیر سرور ، قیصر شریف، سعدیہ شکور نے شرکت کی۔
مجھے اس بات پہ خوشی اور مسرت حاصل ہوئی کہ میں پینل میں واحد خاتون سپیکر تھی۔ جب مجھے اس موضوع پہ بولنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ تو نوجوان نسل سے میں نے اپنا اظہار خیال کیا۔ خواتین کی خیر خواہی کے لیے میں نے صرف وہ نقطہ پیش کیا جو کہ عام طور سے کسی حد تک نظر انداز کیا جاتا ہے۔
خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ تشدد کے چند واقعات میں میرا مشاہدہ رہا ہے کے ان کی زبان مار پیٹ کھانے میں خود انکی ایک سہولت کار ہے۔ جیسا کہ بچپن میں باہر کھیلتے ہوئے مجھے کوارٹر میں عورت کی مار کھانے کے آواز سنائی دی۔ جو کہ مسلسل اور مستقل طور پہ اپنے شوہر سے بحث کر رہی تھی یہاں تک کہ گالی گلوچ تک نوبت پہنچ گئی اور مرد نے اس کو چپ کرانے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ پھر ایک دفعہ چند سال پہلے میں ڈرائنگ روم میں فون پہ بات کر رہی تھی کہ کھڑکی سے مجھے ڈرائیور اور اس کی بیوی کے لڑنے کی آواز آئی۔ لان میں وہ بیٹھے لڑ رہے تھے اور بات بحث سے بڑھ کے غصے کی اس حد تک پہنچ گئی جہاں دونوں میں آپس میں تو تو میں میں شروع ہو گئی۔ شوہر کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بیوی نہ رکی یہاں تک کہ اس کو اور اس کے گھر والوں کے لیے گالم گلوچ پہ اتر آئی شوہر منع کرتا رہا کہ آخر اس کے غصے کا ضبط ختم ہوا اور اس نے اس کی کرسی الٹا دی اور وہ گر کر بیہوش ہو گئی۔ کچھ عرصہ پہلے میرے اپنے گھر میں میری ملازمہ کے چہرے پہ نشان تھا۔ میری بہن نے مجھے بتایا کہ ان کے چہرے پہ چوٹ لگ گئی ہے ان کو کوئی مرہم لگا دو۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ پر کس نے ہاتھ اٹھایا ہے۔ پہلے تو وہ حیران ہوئی پھر زار و قطار رونے لگی اور کہنے لگی میرے شوہر نے مجھے بہت مارا ہے۔ میرے اصرار پہ انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے اس کو کھانا نہیں دیا تھا اس وجہ سیاس نے میرا یہ حال کیا ہے۔ ان کی داستان سننے کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے ان کو کھانا دینے سے انکار کے علاوہ مزید ان کو کیا کہا تھا کہ جاؤ جا کے خود لے لو۔ پہلے تو وہ انکاری ہوئی اور میرے بار بار سچ بولنے کے اصرار پہ انہوں نے مجھے کہا جی ہاں میں نے یہی کہا تھا اور بھی بہت کچھ۔ یہاں تک اس کو غصہ آیا اور اس نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ انسان کی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے آپ نے اپنی زبان کی وجہ سے اپنے ہی جسم پر تشدد کروایا ہے اس کو روک لیتی تو یہاں تک نوبت نہ آتی۔ کہا کہ آئندہ زندگی میں ایسے ہی دوبارہ مسئلہ کبھی ہو تو آپ ان کے پاس کھانا رکھ کے جتنا بھی غصہ ہو وہاں سے چلی جائیے کیونکہ مار آپ اپنی مرضی سے کھا رہی ہیں اور اپنے شوق سے اپنی زبان کو قابو میں رکھے بغیر۔ انہوں نے اس بات کو مانا اور اتنا عرصہ گزرنے کے بعد دوبارہ الحمدللہ میں نے کبھی نہیں سنا کہ انہوں نے انہوں نے اپنے شوہر سے مار کھائی ہو۔
شیخ سعدی کا قول ہے:
میں آج تک اپنی خاموشی پر نہیں پچھتایا۔ جب بھی پچھتایا بولنے پر پچھتایا۔
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
"مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہے"۔
حدیث مبارک ہے کہ:
"جب ابن ادم صبح کرتا ہے تو سارے اعضاء زبان کے سامنے عاجزی کے ساتھ التجا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر ہم تجھ سے متعلق ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے"- (ترمذی)
اس حدیث مبارک کی گہرائی کو سمجھیے "جو چپ رہا اس نے نجات پائی"۔ (احمد)
یعنی کہ بولنے کی وجہ سے کیا غلط نتائج ہو سکتے ہیں جو کہ انسان چپ رہ کے فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔
اسی لیے خواتین کو چاہیے کہ وہ لڑائی جھگڑے کے وقت صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ اگر میاں بیوی میں سے ایک آگ ہے تو دوسرے کو پانی کی طرح اس وقت ہونا چاہیے۔
جس وقت حالات بگڑتے نظر آرہے ہوں وہ جگہ اسی وقت چھوڑ دینی چاہیے تاکہ حالات میں مزید بگاڑ نہ آئے۔ حدیث کے مطابق عمل کرنا چاہیے غصے کو قابو کرنے کے لیے پانی پی لیں وضو کر لیں کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہوئے ہیں تو لیٹ جائیں۔
یاد رکھیے زبان سے آپ مرد کے ہاتھ کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اپنی عقل استعمال کیجئے اور عقل بروقت خاموشی میں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مطابق بہادر کون ہے یہ یاد رکھیے
"طاقتور وہ نہیں جو کسی کو پجھاڑ دیتا ہو بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے"- (صحیح بخاری)
عام حالات میں گھریلو تشدد کے خلاف آپ کا ہتھیار آپ کی زبان ہے۔ اس کو قابو میں رکھیں گی تو اپنے آپ کو بھی محفوظ رکھیں گی۔
دوسرا میرے نزدیک تشدد کی بدترین قسم ایسڈ کرائم ہے۔ جس کے خلاف مل کر سب کو زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہیے اس کی روک تھام کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
ہر سال پاکستان میں 200 سے زائد خواتین جن میں چند تعداد اب مردوں کی بھی ہے اس سنگین ظلم کی زد میں آتے ہیں۔ ہمارے ہاں قانون تو ہے پر وہ نافذ نہیں۔ اب تک زیادہ سے زیادہ صرف دو ایسے واقعات ہوں گیکہ جس میں مظلوم کو پاکستان میں انصاف ملا ہے۔ یہاں میں ذکر کرنا چاہوں گی مسرت مصباح صاحبہ اور سمائل اگین فاؤنڈیشن کا جو کہ دن رات ان دکھی عورتوں کی خدمت میں لگے ہیں اور یہاں تک کہ قانون سے انصاف دلانے کی حتن امکان کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جنگ احد کے بعد حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے موقع پر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم پر مْردوں اور لاش کو مسخ کرنے سے منع فرما دیا تھا تو یہ تو پھر ایک جیتے جاگتے انسان ہیں نعوذ باللہ۔ عورتوں کو چاہیے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالی اور سیرت سے اپنا تعلق رشتہ اتنا مضبوط کر لیں کہ جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کریں گی تو خود بخود وہ اپنے آپ کو اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو شیطانی ہٹ کنڈوں سے محفوظ رکھیں گی انشاء اللہ العزیز۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں جنت میں داخل ہونے میں وہ عورتیں سبقت لے جائیں گی جو دین میں دلیر ہو گیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی اس قوم کی ماں،بہن، بیٹی سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ان کے کردار میں ایسی زینت عطا فرمائے جو کہ صرف رحمت کا باعث ہوں اور ان کے اوپر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے مزید رحمتیں نازل ہو۔ آمین