پاکستان کی 76 سالہ تاریخ مختلف حادثات و سانحات سے بھری پڑی ہے تاہم کچھ واقعات ایسی بھی ہیں جو ہم شاید کبھی بھلا نہ پائیں۔16دسمبر کا دن بھی تاریخ کے انہی واقعات میں سے ہے جہاں ایک طرف 1971ء میں دو لخت ہوئے پاکستان کا غم منایا جاتا تھا وہی سال 2014ء میں اسی روز ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔16دسمبر 2014ء کی صبح صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس)پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)کے عسکریت پسندوں نے حملہ کردیا اور وہاں موجود طلبہ اور اساتذہ کو نہ صرف یرغمال بنایا بلکہ ان پر فائرنگ کرکے طلبہ سمیت 140سے زائد افراد کو شہید کردیا تھا۔اس واقعے کے بعد پاک فوج کی جانب سے جاری آپریشن ضرب عضب کو مزید تیز کیا گیا تھا اور یہی نہیں بلکہ واقعے کے کچھ دن بعد ہی اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کا اعلان کیا تھا۔نواز شریف نے 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان (این اے پی)کا اعلان کیا تھا اور اس پر ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقات کے بعد اتفاق رائے ہوا تھا۔حکومت نے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نہ صرف قومی لائحہ عمل ترتیب دیا تھا بلکہ دہشت گردوں کو سزائیں دلانے کے لیے ملک میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جب کہ سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد غیر اعلانیہ پابندی بھی اٹھالی گئی تھی۔جہاں ایک طرف دہشت گردی کے خلاف موثر حکمت عملی مرتب کی گئی تھی وہیں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے شہید طلبہ و دیگر افراد کے لواحقین انصاف کے متلاشی تھے اور ان کا یہی مطالبہ تھا کہ ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ابتدائی طور پر پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سانحے کی مختلف زاویوں سے تحقیقات کی تھی جسے 2016ء میں سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے سامنے لانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔بعد ازاں متاثرین نے انصاف کی فراہمی اور معاملے کی عدالتی تحقیقات کے لیے پشاور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا اور فروری 2018ء میں پشاور ہائی کورٹ نے سانحہ اے پی ایس میں خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو پولیس تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم جاری کیا تھا۔اپریل 2018ء آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس)حملے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کو نوٹسز جاری کیے تھے۔بعد ازں بچوں کے والدین کی درخواست اور ان کی شکایات کے ازالے کے لیے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے پر ازخود نوٹس بھی لے لیا تھا۔بعد ازاں5 اکتوبر 2018ء کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا تحریری حکم جاری کردیا تھا۔جس کے بعد 14 اکتوبر 2018ء کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں اے پی ایس سانحے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔جسٹس ابراہیم خان کی معاونت کے لیے 3 دیگر افسران بھی کمیشن میں شامل تھے۔9جولائی 2020ء کو یہ بات سامنے آئی کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے کمیشن نے اپنی کارروائی مکمل کرلی جس کی سربمہر رپورٹ عدالت عظمی میں جمع کرادی گئی۔اے پی ایس کمیشن کے ترجمان عمران اللہ نے بتایا تھا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول انکوئری کمیشن نے سر بمہر رپورٹ سپریم کورٹ بھیج دی جو 3ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔بعد ازاں 4اگست 2020ء کو سانحہ اے پی ایس سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر اٹارنی جنرل کو حکومت سے ہدایت لینے کا حکم دیا تھا۔پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کسی بھی طرح سے 9/11 جیسے واقعے سے کم نہیںتھا، پشاور میں ہونے والا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جبکہ دنیا کادوسرا بڑا واقعہ تھا۔اس سانحہ میں 150سے زائد شہادتیں ہوئیں جس میں 133سے زائدننھے ، پیارے اور معصوم پھول جیسے بچے شامل تھے جبکہ اس کے علاوہ 126طلباء زخمی بھی ہوئے تھے۔اس بھیانک واقعہ میں 133 طلباء اپنی زندگی کی بازی ہار گئے تھے جبکہ سٹاف کے 9ارکان بھی جام شہادت نوش کر گئے تھے جن میں ایک خاتون ٹیچر کے علاوہ سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی بھی شامل تھیں۔ پاک آرمی نے سات دہشتگردوں کو بھی ہلاک کر دیاتھا۔ دہشت گردی کی یہ خبر دوپہر کو جونہی اس دن ٹی وی چینلز پر نشر ہوئی تھی تو پورا ملک سوگوار ہوگیا تھالیکن جن مائوں کی گودیں اجڑیں ، جن والدین کے لخت جگر ہمیشہ کیلئے جدا ہوئے جن بہنوں کے بھائی بچھڑے اور جو جو اس جانکنی کے مراحل سے گزرے اس کا دْکھ وہی جان سکتے ہیں۔ راقم چونکہ خود بھی پشاور کا باسی ہے اس لئے جب یہ دل ہلا دینے والی خبر کا پتہ چلا توراقم سانحہ آرمی پبلک سکول کی جگہ پر پہنچا تو وہ رْلادینے والے مناظر اب بھی دس سال گزرجانے کے باوجود مجھے یاد ہیں کیونکہ میں اس ماں کی تصویر کو کبھی نہیں بھلا سکتا جو یہ روح فرساخبر سن کر اپنے بچے کی خبر گیری کیلئے دیوانہ وار سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ میں اس بوڑھے بزرگ کو بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتا جو اپنے خاندان کو گلے لگا کر شدید آہ و زاری کررہا تھا۔ میں ہسپتال میں رکھی اس معصوم بچے کی لاش کو نہیں بھول سکتا جو عرش کی طرف منہ کر کے فریاد کررہا تھا کہ یاللہ ہمارا قصور کیا تھا اور ہمیں کس جرم میں اتنی بڑی سزا دی گئی۔میں ان شہیدوں کو کبھی بھول نہیں سکتا۔ان کا ایک ایک نام میرے دل ودماغ پر ثبت ہے،مجھے آرمی پبلک سکول کے عملے کے وہ قابل فخر 22ارکان اور پاک فوج کے تین اہل کار بھی یاد ہیں جو ملک وقوم کی بقاء اور سا لمیت کے کام آئے۔آئیے ان سب کو یاد کرتے ہیں۔ان عظیم شہیدوں کی خوشبو اب بھی میرے اردگرد کی فضاؤں کو معطر کئے ہوئے ہے۔ ان روشن چراغوں کو ہمیشہ کیلئے بجھا دیاتھا۔ کیا بگاڑا تھا ان ننھے پھولوں نے جو دہشت گردی کے مفہوم سے ہی نا آشنا تھے۔ ان کی مائوں نے صبح کتنے ارمانوں سے ان کو نیند سے بیدار کیا ہوگا۔ جلدی سے ان کی تیاری کرائی ہوگی کتنی چاہت سے بھاگم بھاگ ان کو ناشتہ دیا ہوگا اور پھر اس یخ بستہ سردی میں دل پر پتھر رکھ کر ان کو خدا حافظ کہا ہوگا مگر ان کو کیا معلوم تھاکہ آج وہ ان کو ہمیشہ کیلئے رخصت کررہی ہیں اور پھر وہ ان کو کبھی دیکھ نہیں سکیں گی۔ یہ دسمبر کیسا تھا، کتنا ظالم اور بے نیاز، کتنا سنگدل اور بے حس کہ جس نے اپنی آنکھوں سے ننھی کلیوں کو مسلتا ہوا دیکھا، پھر بھی خاموش رہا۔ ان کلیوں کو کھل کر پھول تو بننے دیتا، یہ نوخیز کلیاں زندگی کی کچھ بہاریں تو دیکھ لیتیں مگر یہ خاموش تماشائی بنا رہا۔ اس دسمبر کے سامنے ، بالکل اس کی آنکھوں کے آگے ان ننھی منی کلیوں کا خون ہوا، سفاک قاتل خون اچھالتے رہے، مائوں کی گودیں اجاڑتے رہے، کئی گھرانوں کے آنگن ویران کرتے رہے، کئی روشن چراغوں کو بجھاتے رہے مگر یہ خاموش رہا،اے دسمبر تو کبھی نہیں بھولے گا ، تو تو مائوں کے کلیجے چیر کر نکل گیا ہے۔ مڑکر بھی نہیں دیکھا کہ جو معصوم تیرے ہاتھوں میں شہید ہوئے ہیں، ان کے والدین کس کرب میں مبتلا ہیں۔دسمبر تمہیں کیا بتائوں آرمی پبلک سکول کے ان شہید بچوں کے گھروں میں جھانک کر دیکھو گے نا تو تمہارا کلیجہ پھٹ جائے گا۔سانحہ آرمی پبلک سکول کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں، ضرب عضب آپریشن نے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا۔ ''اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے''۔ سابق جنرل راحیل شریف ! ہم آپ کے جذبو ں، جوش اور ولولہ کو سلام پیش کرتے ہیں۔پاکستان میں رہنے والا ہر فرد اپنے قابل فخر فوجی سپوتوں کے لیے ہر لمحہ دعاگو رہتا ہے۔پوری قوم یہ یقین رکھتی ہے کہ ہمارے موجودہ آرمی چیف حافظ عاصم منیر احمدپاکستان میں بے گناہ لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے اس ملک کوجہنم بنا دیں گے،کیونکہ مقدس ساعتوں میں معروض وجود میں آنے والے اس ملک کا ہر دشمن اور اس کے سہولت کار کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لیے صرف اور صرف جہنم ہی ہے۔16دسمبر کو آرمی پبلک سکول کے واقعے کودس سال ہو چکے ہیں'اس دن شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے صوبہ بھر میں سرکاری طور پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتاہے۔ان تقریبات کے انعقاد میں پاک فوج بھی حکومت کے ساتھ شامل ہے۔ آرکائیوز لائبریری پشاورمیں آرمی پبلک سکول کے شہدا کے نام سے منسوب ایک یادگاربھی تعمیر ہو چکلی ہے جس پر سانحہ پشاور میں جاں بحق ہونے والے تمام بچوں کے تصویریں لگائی گئی ہیں۔صوبے کے تقریباً 127سرکاری سکولوں کے ناموں کو شہید بچوں کے نامو ں سے منسوب کیا گیاہے۔پشاور کی معروف شاہراہوں اور چوکوں کو ان شہید بچوں کا نام دیا گیاہے جبکہ آرمی پبلک سکول پر حملے میں ملوث چار مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا جا چکاہے،چاروں مجرم پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے میں ملوث تھے۔پاکستان آرمی اور پولیس نے بے پناہ کوششوں کے بعد ان مجرموں کو گرفتار کیا تھا،دوران تفتیش ان پر جرم ثابت ہوا تھا جس کے بعد فوجی عدالت نے انہیں موت کی سزا سنائی تھی۔