ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ کالم کسی اور موضوع پر لکھنا ہوتا ہے لیکن عین وقت پر کوئی ایسا نیا ٹْنٹا کھڑا ہوجاتا ہے کہ اْس نئے رخنے پر لکھنا پڑ جاتا ہے۔آج پندرہ دسمبر ہے اور میں کل سولہ دسمبر کے حوالے سے لکھنا چاہ رہی تھی۔ انیس سو اکہتر کے بعد یہ پہلا سولہ دسمبر ہوگا جب پاکستانیوں کے زخموں پر بنگلہ دیش کے انقلاب، شیخ مْجیب کے گرائے جانے والے مجسموں اور ہندوستان کے آرمی چیف کے دفتر سے جنرل نیازی کی تصویر ہٹا دیئے جانے والے واقعات پر وقت نے کْچھ مرہم رکھ دیا ہے۔ ایک گھر کے دو ٹکڑے دوبارہ کبھی نہیں جْڑ سکتے لیکن جو دروازہ نئی سفارتی پیش رفت سے کْھل رہا ہے وہ کئی بچھڑے ملا سکتا ہے۔سولہ دسمبر ہی کا دن، اے پی ایس اسکول پشاورمیں معصوم بچوں کے قتل عام کا ایک نہ بْھلا سکنے والا سانحہ ہے جو پی ٹی آئی ہی کی کے پی میں حکومت میں عمران خان کے دھرنے کے دوران ہوا اور دھرنا ختم کرنے کے لئے ایک فیس سیونگ کا باعث بنا۔ میں نے اْن سالوں میں اپنے کالمز میں اس سانحے کی اصل سازش کو بے نقاب کرنے کے لئے انکوائری کا مطالبہ کئی بار کیا اور چند دن پہلے جاوید بدر کے ٹی ٹی پی طالبان اور عمران خان کے درمیان دو ہزار تیرہ کے ہونے والے معاہدے کے انکشاف کے بعد دوبارہ مطالبہ کیا کہ اس سانحے کی ایک اعلیٰ سطح پر انکوائری کی جائے کیونکہ میری پی ایچ ڈی کے دوران اس سانحے کے وقت پشاور میں تعینات ایک اعلیٰ پولیس افسر نے اے پی ایس سانحے کے کْچھ وائرلیس کال ریکارڈ شیئر کئے تھے جو کہ ایسی کسی انکوائری میں ہولناک انکشافات فراہم کرسکتے ہیں کہ اس بھیانک قتل عام کے پیچھے کس کا سازشی دماغ تھا۔کل سولہ دسمبر کا دن امریکہ کے جبران الیاس کی قیادت میں اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی نئی سول نافرمانی کے آغاز کا بھی دن ہے جسے ختم کرنے کے لئے جہاں بیرسٹر گوہر سمیت پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت فیس سیونگ کے لئے حکومت سے مذاکرات کی راہ تک رہی ہے وہیں ایپکس کمیٹی کے اجلاسوں میں سر جھکا کے بیٹھنے والے گنڈاپور نے آج پھر ایبٹ آباد میں اگلے احتجاجوں میں اسلحہ لے کے آنے اور بھڑک مار کے فوج اور پولیس پر حملہ کرنے کا بھی اعلان کرکے سول نافرمانی کی تحریک کا آج ہی سے آغاز کردیا ہے جس کا انجام بھی چھبیس نومبر کے احتجاج سے بدتر ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ محسن نقوی کی پرویز خٹک سے ملاقات کے نتیجے میں شاید نئے گورنر کی تعیناتی کے فارمولے کے ساتھ گنڈاپور کی حکومت کو بھی لینے کے دینے پڑ جائیں۔ پی ٹی آئی کی سازشی ذہنیت صرف اندرونِ ملک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی فعال ہے۔ یہ بات خود پی ٹی آئی کے بیرونِ ملک سوشل میڈیا مہمات سے واضح ہوتی ہے، جن میں فوجی مصنوعات کے بائیکاٹ اور فوجیوں سے شادی تک کے تعلقات ختم کرنے کی اپیلیں شامل ہیں۔یہ سب پاکستان کے داخلی استحکام کے خلاف ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ لگتا ہے۔لیکن یہ کالم لکھنے کی اصل وجہ بنا پی ٹی آئی کاوہ خوفناک پروپیگنڈہ جہاں اْنہوں نے ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس کو آپس میں لڑانے کی سازش کا آغاز کردیا ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے پی ٹی آئی ہی کے کْچھ حلقے سینیٹر فیصل واوڈا کی سرگرمیوں اور بیانات کو وزیراعظم کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی سازش سے جوڑتے رہے جبکہ مجھ سمیت جو لوگ سینیٹر واوڈا کو جانتے ہیں اْنہیں پتہ ہے کہ وہ اپنی زات میں مگن سیدھی فائرنگ کرنے والا وہ لون رینجر ہے جو کہ سازش جیسے کھیل نہیں کھیل سکتا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ سینیٹر واوڈا کا جو میڈیا چارم ہے اْسے پازیٹولی کیش کرنے کے لیے نون لیگ کی حکومت کو سینیٹر واوڈا سے انگیج ضرور کرنا چاہیئے کہ فائرنگ کا یہ رْخ پی ٹی آئی کی طرف موڑ دیا جائے۔لیکن فی الحال واوڈا کی حالیہ سیاسی سرگرمیاں عمران خان کو بقول خْود سینیٹر فیصل واوڈا بشریٰ بی بی اور دیگر ان کی سازش اْس سازش سے بچانے کے لئے ہیں جن میں عمران خان کی جان جاسکتی ہے جبکہ میرے خیال میں عمران خان کی زندگی کو اگر سب سے زیادہ کسی سے خطرہ ہے تو وہ عمران خان کی اپنی زبان اور بشریٰ بی بی جیسے استادوں کی سیاسی پلاننگ ہے ورنہ اگر جنرل فیض کے ساتھ عمران خان کا ٹرائل (جو کہ ملٹری ٹرائل نہیں ہوگا) ہو بھی جائے تو اْس میں مْجھے موت کی سزا ہوتی نہیں دکھائی دیتی کیونکہ یہ بات نہ جانے کیوں سب بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کا کئی سالوں سے انٹرنیشنل کنوینشنز سے ایک خاموش معاہدہ ہے جس کے تحت کسی کو بھی پھانسی نہیں دی جارہی تو جہاں عادی قاتلوں اور ظاہر جعفر جیسے جنونی قاتلوں کو سزائے موت نہیں دی جارہی وہاں ایک سابق وزیراعظم کو کیسے پھندے پر لٹکایا جاسکتا ہے۔ اس لئے مْجھے نہیں لگتا کہ عمران خان کو کبھی بھی سیکرٹ ایکٹ کے تحت پھانسی کی سزا ہوسکتی ہے۔ ہاں سزا ضرور ہوگی لیکن اْس کے لیے بھی جتنے عمران زدہ جج ہیں اْن کے مزید ریلیف کوئی اچنبھا نہیں ہونگے۔بہرحال ابھی ایک طرف پی ٹی آئی کے بیرسٹر سیف اور محمد علی درانی ایوان صدر اسلام آباد میں ہونے والی خیالی سازشوں کا میڈیا اور ایک مخصوص چینل پر بار بار اپنے انٹرویوز میں زکر کررہے ہیں کہ زرداری صاحب اپنے بیٹے بلاول کو وزیراعظم بنانے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو گرانے کی سازش کررہے ہیں، اور دوسری طرف پی ٹی آئی ہی کے کْچھ پارلیمینٹیرینز یہ فیلر بھی پھیلا رہے ہیں کہ اگر عمران خان کو ملٹری کورٹ سے سزائے موت ہوجائے تو ہم پیپلز پارٹی کو ملاقاتوں میں یقین دلا رہے ہیں کہ صدر زرداری سے صدارتی معافی کے عیوض بلاول کو وزیراعظم بنانے کے لیے ووٹ دے سکتے ہیں اب یہ ایک ایسی بھیانک افواہ ہے جس کا نہ ایوان صدر کو پتہ ہے نہ وزیراعظم ہاؤس کو اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کو۔ اور نہ ہی کوئی مْلاقاتیں ہورہی ہیں- یہ بات میں دعوے سے اس لئے لکھ رہی ہوں کہ میں نے خود زاتی طور پر ہر جگہ سے اعلیٰ ترین سطح تک جا کے نہ صرف انکوائری کی بلکہ اس خبر پر خْود بات بھی کی جو اْنہوں نے حیرانی سے سْنی۔ اور مکمل تحقیق کے بعد یہ لکھ رہی ہوں کہ یہ اسلام آباد قتل عام کی جْھوٹی خبر کے بعد ایک اور غلیظ سازش ہے جس میں ایک طرف تحریکِ انصاف والے سول نافرمانی کے نام پر وفاق سے گْڈ اور کے پی سے بیڈ کاپ بن کے کھیل رہے ہیں تو دوسری طرف گورنر فیصل کنڈی کی اسپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں شیر افضل مروت سے دو منٹ کی دعا سلام کے دوران بنائی گئی ایک تصویر کو بلاول کے وزیراعظم بنانے کے جوڑ توڑ سے ٹوئٹر ٹرینڈ بنا کے ملا دیتے ہیں کہ کوئی بہت بڑی خبر آنے والی ہے۔ یہ خْود سازش بْنتے ہیں، اور پھر اْسے پھیلا کے ایک ہیڈ لائین بنا کے اتنی بڑی خبر بنا دیتے ہیں کہ متعلقہ فریقین بھی ایک دوسرے سے حیرانی سے یہ بات پوچھتے نظر آتے ہیں کہ یہ کیا معاملہ ہوگیا ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے اْسی اسپیکر ایاز صادق کے دفتر میں حکومتی وزراء سے رسمی سلام دْعا کو بھی مذاکرات سے جوڑ کے ایک اتنی بڑی ہیڈ لائین بنوا دیا کہ خْود وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کو ترکی سے تردید کرنی پڑی کہ یہ ایک جْھوٹی خبر ہے۔ اسی طرح یہ اْفواہ بھی اتنی شدید نکلی کہ بلاول کے ترجمان تک کو وضاحت دینی پڑی کہ بلاول اور صدر زرداری صاحب جب کراچی میں ہیں تو ایوان صدر اسلام آباد میں سازش کون کررہا ہے۔دوسرا وزیراعظم صاحب جب ہر معاملے پر ایک فْل ٹیم ورک کے ساتھ سب کو اعتماد میں لے کے چل رہے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کیوں اْن کے خلاف سازش کرے گی کیونکہ یہ وزیراعظم شہباز شریف ہی کی قیادت ہے جس میں ڈیفالٹ ہوتا ہْوا پاکستان اب اقتصادی ترقی کی طرف ٹیک آف کرچکا ہے اور یہی وہ کامیابی ہے جس کو ختم کرنے کے لیے اس سولہ دسمبر کو بھی پاکستان کو مزید سازشوں کا سامنا ہے، جس کا انجام انشاء اللّہ ایسے ہی ہوگا جیسے بنگلہ دیش میں تریپن سال کے بعد بنگالیوں نے شیخ مْجیب کے مْجسموں کو زمین بوس کرکے دیا۔