دوستی ادبی اور سیاسی دوستی

 مرحوم عباس نجمی وقت نیوز کے صبح کے پروگرام کے پہلے لوگوں میں سے تھا۔ اس نے اخبارات پر تبصرہ شروع کیا۔ اسکے ساتھ محبت اور نفرت کا ایک رشتہ تھا جو نہ بھلا دینے والا ہے۔ زندہ تر سکالر، محقق اور انتھک نقاد ڈاکٹر سلیم اختر کیلئے ایک اچھی خبر ہے اور نوائے وقت کے لندن میں بیورو چیف محترم خالد ایچ لودھی کی طرف سے دلچسپ مگر دکھ دینے والی باتیں آج کے کالم میں شامل ہیں۔
عباس نجمی حیران کردینے والا دوست تھا اور پریشان بھی کردیا کرتا تھا۔ جانے والے ساتھیوں کی یاد سے محفلوں کو آباد کرنیوالے بزم آرائیوں کے روح رواں اخبار نویس مدثر اقبال بٹ نے شاندار تقریب منعقد کی جس کی صدارت مجھ سے کرائی جبکہ مدثر کو پتہ ہے کہ میں اسکی شکایت اسی سے کرتا تھا مگر میں نے اسکے منہ پر کبھی اسے برا نہ کہا تھا۔ یہی عادت اس کیلئے بڑی اہم تھی کہ وہ دوستوں اور دوسروں کو منہ پر شرمندہ کردیتا تھا۔ میرے خیال میں یہ بات غیبت سے بھی بری ہے، وہ کھرا تھا اور کھردرا بھی تھا۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ شہر میں ایک آدمی تو تھا جو کسی کو ناراض کرسکتا تھا۔ اب تو ہم دوستوں کو راضی رکھنا دنیاداری کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ کسی کا کسی ایسی جگہ ہونا ضروری ہے جہاں سے فائدہ ملنے کی امید ہو اور نقصان کا ڈر بھی ہو۔
عباس نجمی کو معلوم ہوتا تھا کہ اس نے کیسا سلوک کس کے ساتھ کب کرنا ہے۔ میرے خیال میں اسکی عزت واجب تھی کہ وہ ڈاکٹر خواجہ زکریا کی عزت کرتا تھا۔ مدثر اقبال بٹ اسکا بہت مخلص دوست تھا اور وہ رنجیدہ ہو کر بھی اس کی دوستی کے ساتھ لپٹا ہوا تھا۔ جب نجمی بیمار ہوا تو اسے دیکھنے جانے کیلئے سب کو منع کردیا گیا۔ مدثر پھر بھی چلا گیا، جس حال میں نجمی تھا یہ جملہ کتنا گہرا ہے جو بٹ صاحب نے کہا۔ ہم دونوں خاموشی کی دلدل میں تھے، وہ ہنستا رہا میں روتا رہا۔ فخر چیمہ، امجد وڑائچ، حسین شاد اور رضا خورشید جیسے لوگ اسکے دوست رہے تو یہ انکی ہمت تھی مگر کوئی کریڈٹ تو عباس نجمی کا بھی تھا۔
اسکے بہت چاہنے والے تھے، کچھ تو اس میں تھا۔ اس نے کامیابیاں حاصل کیں، لمبی عمر میں لوگ جو نہیں پاسکتے، اس نے کم لمبی عمر میں پالیا۔ وہ پنجابی انسٹیٹیوٹ کا ڈائریکٹر بھی ہوا۔ بقول ڈاکٹر خواجہ زکریا کے وہ یہاں مس فٹ تھا۔ کئی خواتین و حضرات اسے ”بدتمیز“ کہتے تھے۔ بدتمیز آدمی دلیر ہوتا ہے مگر اپنے معاملات کا خیال رکھنے والا بھی ہوتا ہے۔ ریڈیو، ٹی وی پر بھی اس نے کامیابیاں حاصل کیں۔ منہ پر بات تو دلدار پرویز بھٹی بھی کرلیتا تھا مگر لوگ مائنڈ نہ کرتے تھے پھر عباس نجمی کی بات سے خفا کیوں ہوتے تھے؟ کسی کا منہ توڑ دیا جائے مگر دل نہ توڑا جائے۔ عباس نجمی کو باتوں باتوں میں یہ خیال نہ رہتا تھا کہ اس سے کسی کا دل بھی ٹوٹ گیا ہوگا۔ اس نے محسوس کرلیا تھا کہ وہ پنجابی انسٹیٹیوٹ میں بیوروکریسی کے ساتھ ایڈجسٹ نہ ہوسکتا تھا مگر وہ ناکام نہیں ہونا چاہتا تھا۔ وہ کامیاب نہ ہوا مگر ناکام بھی نہ ہوا۔ ہم اس سے محروم ہوگئے۔ میرے ساتھ پی ٹی وی کے آخری انٹرویو میں بہت پذیرائی اور عزت افزائی سے باتیں کیں۔ لگتا ہے کہ وہ مجھے اندر سے پسند کرتا تھا جبکہ میرے خیال میں جس سے محبت ہو اسے کہہ دینا چاہئے جو اچھا لگتا ہو اس سے کہو کہ تم اچھے ہو۔ خدا کی قسم اسکے بعد دنیا اچھے لوگوں سے بھر جائیگی۔ اکثر عورتوں نے اسکی شکایت مجھ سے کی مگر آمنہ الفت کیلئے وہ بہت عزت رکھتا تھا۔ وہ جس کی عزت کرتا دل سے کرتا تھا۔ آمنہ مدثر اقبال بٹ کا نام بھی لیتی ہے کہ اسکی تقریبات میں دلیری سے بولنے کا ہنر آگیا۔ بعد میں پنجاب اسمبلی میں بھی آمنہ کی صلاحیتوں کا پورا ایوان معترف ہوا۔
٭٭٭
ڈاکٹر سلیم اختر نے زندگی میں جتنا تحقیقی اور ادبی کام کیا، وہ بے مثال ہے۔ خاموشی، گوشہ نشینی اور شہرت سے دور بھاگنے کی ادا نے یہ معرکہ آرائی ممکن بنائی۔ اس مفادپرست اور پبلسٹی مائنڈڈ زمانے میں ایسے شخص نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شہرت اور عزت میں فرق ہے۔ بیرون ملک انکے کام پر پی ایچ ڈی بھی ہوئی ہے۔ انہوں نے 91 کتابیں لکھی ہیں۔ انشاءاللہ وہ کتابوں کی سنچری مکمل کریں گے۔ وہ 80 برس کے ہونیوالے ہیں۔ عمر کیلئے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں مگر ہماری خواہش کہ اچھے لوگ زیادہ دیر تک زمین پر رہیں۔ ہمیشہ عربی زبان میں کتابوں کے تراجم اردو زبان میں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے ناول ”ضبط کی دیوار“ کا عربی زبان میں ترجمہ ایک مصری خاتون تقوین امر حسنین نے کیا ہے۔ وہ الازہر یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ریسرچ سکالر ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر سلیم اختر کی ادبی خدمات پر عربی میں تھیسز بھی لکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی کتاب ”تنقیدی دبستان“ کا پشتو ترجمہ حال ہی میں جلال آباد افغانستان میں ہوا ہے۔ یہ ترجمہ اجمل کبل نے کیا ہے۔
٭٭٭
برادرم خالد ایچ لودھی لندن میں نوائے وقت کے بیورو چیف ہیں۔ وہ سینئر صحافی ہیں، پاکستان میں ایک عمر صحافت کے راستوں پر مسافرت کی۔ ایک سچے اور مخلص کارکن کے طور پر وہ افسردہ ہیں کہ آج بھٹو کی پیپلز پارٹی زرداری کی پیپلز پارٹی بن چکی ہے۔ وہ اس اجلاس میں موجود تھے جب بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے معراج محمد خان، ملک معراج خالد، مختار رانا، شیخ رشید، ڈاکٹر غلام حسین اور دوسرے سچے آدمیوں کو یاد کیا۔ آج پیپلز پارٹی ایسے آدمیوں کی خوشبو سے خالی ہے۔ یہ بات بھی لودھی صاحب کے سامنے ہوگی کہ معراج محمد خان نے عمران خان کو جوائن کیا مگر الگ کردئیے گئے۔ کیا یہ انکی دوسری مایوسی ہے۔ مختار رانا لندن میں ہیں۔ لودھی صاحب مختار رانا کی ”بے اختیاریوں“ کا احوال بھی لکھیں۔
یہ رپورٹ بھی نوائے وقت میں خالد ایچ لودھی کے حوالے سے شائع ہوئی ہے کہ لندن میں پاکستانی سفارتخانے کی طرف سے واجد شمس الحسن نے وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف کے اعزاز میں ایک دعوت کی۔ لودھی صاحب جانتے ہونگے کہ راجہ صاحب اب مہاراجہ صاحب ہوچکے ہیں۔ لندن میں اربوں روپے سے انہوں نے فلیٹ خریدے ہیں۔ انہیں یہ بھی پتہ ہوگا کہ سپریم کورٹ نے رینٹل پاور پلانٹ میں کرپشن کے سلسلے میں وزیراعظم راجہ رینٹل کی گرفتاری کا حکم بھی دیا ہے۔ لودھی صاحب نے رپورٹ کیا ہے کہ راجہ صاحب کے اعزاز میں دعوت کے دوران شراب بھی پیش کی گئی تھی۔ نجانے اس کیلئے انکی خاتونِ اوّل نصرت پرویز اشرف کے تاثرات کیا تھے؟ خاتونِ اوّل کیلئے جھگڑا بڑا پرانا ہے۔ فریال تالپور کی موجودگی میں یہ گستاخی صدر زرداری کیسے برداشت کرینگے۔ راجہ صاحب بھی کوئی جرا¿ت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ بیگم نصرت صاحبہ کیلئے محترمہ سمیحہ راحیل قاضی تعریف کرتی ہیں۔ وہ لاہور میں حجاب کانفرنس کی مہمان خصوصی تھیں۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی بیگم کو صہبا پرویز مشرف کی موجودگی میں حاضر ہونے کی اجازت بھی نہ تھی۔ سابق وزیراعظم لیاقت علی خان کی بیوی رعنا لیاقت علی نے خوامخواہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کے ساتھ حسد کرنے کی جرا¿ت کی تھی۔ قوم نے مجید نظامی کی طرف سے ان کیلئے مادرِ ملت کا خطاب قبول کرلیا تھا۔ وہ خاتونِ پاکستان ہیں۔ خاتونِ اوّل کیلئے شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ لیاقت علی خاں عزت مآب ہیں تو رعنا لیاقت علی لذت مآب ہیں۔ شراب نوشی پاکستان میں بھی زوروشور سے ہوتی ہے مگر بیرون ملک پاکستانی دعوتوں میں مناسب نہیں۔ نواب کالا باغ واقعی گورنر تھے۔ صدر ایوب کی ہدایت پر انہوں نے کہا کہ ملکہ برطانیہ کی دعوت کیلئے گورنر ہاﺅس حاضر ہے مگر وہ شراب اپنے ”گھر“ سے پی کر آئیں۔
....٭....٭....٭....

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...