واشنگٹن (ثناء نیوز + آئی این پی)کراچی میں پانچ ماہ سے جاری آپریشن کے باوجود پاکستانی طالبان نے ملک کے معاشی مرکز پر گرفت مضبوط کر لی ہے امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کراچی کے ایک تہائی پر کنٹرول یا اثر رکھتی ہے جہاں 25 لاکھ افراد رہتے ہیں۔ مغرب میں حب اور شمال مشرق میں جام شورو کی طرف بھی طالبان کے اثرات پھیل رہے ہیں طالبان کا اثر شہر کے مرکز صدر سے امریکی قونصلیٹ سلطان آباد تک پھیلا ہوا ہے یہ تمام اضلاع پختون اکثریتی علاقے ہیں پولیس حکام کا اس حوالے سے کا کہنا ہے کہ کراچی میں جنوبی وزیرستان کے محسود قبائلی طالبان گروپ طویل عرصے سے قائم ہیں لیکن اب مہمند اور سوات طالبان کے گروپ بھی جمع ہو رہے ہیں جن کا لیاری اور دوسرے غیر پختون علاقوں میں بھی اثر و رسوخ ہے یہاں ٹی ٹی پی کے اتحادی لشکر جھنگوی کے ڈیرے ہیں ٹی ٹی پی پورے کراچی میں حملے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اپنے زیر اثر علاقے کے لوگوں اور تاجروں سے ٹیکس وصولی کرتی ہے۔ امریکی میڈیا کی رپورٹس میں دعویٰ کیا ہے کہ کراچی میں طالبان روز پکڑ گئے اور اس وجہ سے شہر میں دہشت گردی بڑھ گئی ہے ، جنوبی وزیرستان یا علاقہ غیر میں ڈورن حملوں اور فوجی آپریشن سے بچنے کیلئے جنگجو سردار پہاڑوں سے اتر کر کراچی آ بسے ہیں، ان کو تو بیک وقت کئی فائدے ہوئے، لیکن، ’شہر کا امن تباہ ہوگیا، کراچی میں متعدد وارداتوں میں ملو ث ہونے کی ذمے داری قبول کرنے کے بعد کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ کراچی میں طالبان خاصے سرگرم ہوگئے ہیں، طالبان کو کراچی آنے اور آسانی سے ایڈجسٹ ہوجانے کی ایک وجہ یہاں ہر رنگ، ہر نسل، کثیرالمذاہب اور ملک کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ ان میں طالبان ہی کیا کسی کو بھی اپنی شناخت چھپانا کوئی مسئلہ نہیں۔ رپورٹ کے مطابق متعد دتجزیہ نگاروں نے بتایاکہ کہ کراچی میں آنے کا ایک بڑا فائدہ ڈرون حملوں کے خوف سے آزادی بھی ہے۔ پھر کراچی میں عسکری آپریشن کا بھی فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں۔ رپورٹ کے مطابق ’کالعدم تحریک طالبان کو وزیرستان سے کراچی تک کا سفر راس آگیاہے۔ منگھوپیر، اورنگی، موچکو، سہراب گوٹھ، افغان بستی، لانڈھی اور بلدیہ ٹائون کے پہاڑی علاقے ان کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں‘۔