ویژنری کمیونسٹ کا قومی و جمہوری بیانیہ

Feb 16, 2016

نعیم قاسم

پتہ نہیں کیونکر ازمنہ رفتہ کے کمیونسٹ بار بار یہ موضوعات زیربحث لاتے ہیں جو ہزاروں دفعہ وہ دہرا چکے ہیں کہ پاکستان کیا ہے؟ کیا پاکستان اسلامی ریاست ہے یا سیکولر؟ قائداعظم اس کو کیسی ریاست دیکھنا چاہتے تھے۔ بار بار قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی دستور ساز اسمبلی کی تقریر کا حوالہ دینا؟ سوال یہ ہے کہ اگر مذہب اور عقیدے کا تعلق اللہ اور بندے کے درمیان ہے تو پھر ایک مسلم نیشن سٹیٹ قائم کرنے کی ضرورت کیا تھی۔
ارشاد احمد حقانی مرحوم کیمطابق پاکستان میں ریاست کی نظریاتی بنیادوں، مذہب اور ریاست کے متعلق، قیام پاکستان کے بعد دو قومی نظریے کے تقاضوں اور اسکی Relevance اور پاکستان کے ایک نیشن سٹیٹ یا ایک نظریاتی ریاست ہونے کی بحث ہمارا سب سے بڑا نظریاتی مخمصہ ہے۔ اس مخمصے کو حل کرنے کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں ان میں افراط و تفریط کا عنصر غالب رہا ہے۔ اگر قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مذہب انسان کا ایک نجی معاملہ ہے تو پھر ایسے حضرات سے یہ دریافت کرنا چاہوں گا کہ مذہب کو انسان کا نجی معاملہ قرار دینے کے بعد وہ ریاست پاکستان کی حیات اجتماعی کو کس فلسفہ زندگی، کس نظام اقتدار، کس تصور انسان و کائنات، کن تہذیبی، سماجی اور اقتصادی نظریات پر منظم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تو آپ تسلیم کرینگے کہ ریاست کو اپنی صورت گری اور تنظیم کیلئے ایک نظام اقتدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ خواہ وہ اسے خود تجویز کرے یا کہیں سے اخذ کرے کیا پاکستان کیلئے یہ بات فطری نہیں کہ وہ اپنا نظام اقتدار، اپنے تہذیبی ثقافتی، اقتصادی سیاسی اور اخلاقی نظریات اسلام سے اخذ کرے؟ آخر وہ ایسا کیوں نہ کرے؟ کیا اسلام کی ابدی تعلیمات ہمیں رہنمائی نہیں دیتی ہیں۔ اصل میں اختلاف اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ (i) اسلامی تعلیمات کیا ہیں اور انکی تعبیری آخری اتھارٹی کون ہوگا۔ قارئین یہ بات واضح ہے کہ قائداعظم تھیو کریسی کے خلاف تھے اور وہ اسلامی تعلیمات پر عملدرآمد کا حق روایتی اہل مذہب کو دینے کے قائل نہیں تھے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم نے اسلام کی تعلیمات کی تشریح اور اسکے مطابق قانون سازی کا حق پارلیمنٹ کو دیا ہے۔ جب ویژن کمیونسٹ وادی سندھ کی تہذیب، ثقافت، زبان اور رہن سہن اور رسم و رواج کی بنیاد پر برصغیر کے تمام باشندوں کو ایک قوم قرار دیتے ہیں اور اپنے یہ الفاظ نواز شریف کی زبان سے بھی ادا کرا دیتے ہیں تو ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اسلام کی آمد سے بھی وادی سندھ کی تہذیب اور کلچر پر اسلام کے نظریات، صوفیا کرام اور شاہ ولی اللہ جیسی شخصیات کے واضح اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں مسلم تہذیب اور ثقافت کے بھی برصغیر کی سماجی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں جس سے تہذیب و تمدن کے ارتقاء کے نئے نئے شگوفے کھلتے چلے گئے اور یہ اسلام کی تہذیبی خصوصیات کی برتری تھی کہ ہندو مذہب اس کو اپنے اندر سمو کر اسکی شناخت ختم نہ کر سکا جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان قائم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ ضرور ہوا مگر چونکہ بنگالی مسلمان تھے لہٰذا انہوں نے ہندوستان کے ساتھ الحاق نہیں کیا اگر مشرقی پاکستان ہم سے اس لئے علیحدہ ہوا کہ وہاں کے باشندوں کی تہذیب اور کلچر ہم سے مختلف تھا مگر درحقیقت ہمارے حکمرانوں نے مشرقی پاکستان کے معاملات کو ہینڈل کرنے میں فاش غلطیاں کیں اگر ہماری طاقتور اسٹیبلشمنٹ مشرقی پاکستان کے معاملات سیاسی طریقے سے سلجھا لیتی اور وہاں پر لوگوں کے معاشی معاملات بہتر بنانے پر توجہ دیتی اور ہندوئوں کے اثر و رسوخ پر صحیح طور پر اصل وقت پر قابو پا لیتی تو شاید تمام تر سماجی اور ثقافتی فرق و اختلافات دونوں بازوئوں کی علیحدگی کی طرف نہ لے کر جاتے۔
معروف دانشور طارق جان کہتے ہیں علامہ اقبال نے اگر علاقائی انتخابی حلقوں اور صوبوں کی حد بندی کی بات کی تو اس سے کہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اسلامی ریاست کے حامی نہیں تھے بلاشبہ اقبال نے یہی الفاظ استعمال کئے تھے لیکن یہ الفاظ اُن کے 30 صفحات پر محیط تقریر کا حصہ ہیں جن کا ایک خاص پس منظر ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ 1920ء کے عشرے میںہندو، مسلمان اور انگریز باہمی کشمکش میں مبتلا تھے اور اُن کا اپنا اپنا مؤقف تھا۔ اسکے علاوہ مسلمانوں کو تب تک یقین نہیں تھا کہ وہ برطانوی ہند کے انتظامی یونٹ سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ روح قائد کو بے چین کرنے کیلئے یہ الزام کافی ہے کہ وہ سیکولر پاکستان چاہتے تھے اگر وہ آج زندہ ہوتے تو اپنی 25 جنوری 1948ء کی وہ تقریر ضرور دہراتے جو انہوں نے کراچی بار ایسوسی ایشن کے سامنے کی تھی۔ قائد نے کہا تھا ’’وہ ایسے لوگوں کو سمجھ نہیں پائے جو جان بوجھ کر فتنے کھڑے کرتے ہیں اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شرعی بنیادوں پر تشکیل نہیں دیا جائیگا۔‘‘ اسلامی اصول حیات آج بھی ویسے ہی قابل عمل ہیں جیسے 1300 سال پہلے تھا۔ کیا جناح کی یہ تقریر 11 اگست 1947ء کی تقریر کے متعلق کنفیوژن ختم کرتی ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ ہر ذی شعور شخص کر سکتا ہے۔ (ختم شد)

مزیدخبریں