اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر اطلاعات پرویز شید نے قومی اسمبلی سے خطاب میں کہا ہے وزیراعظم آزاد کشمیر نے جس لہجے میں جواب دیا ہم ایسا نہیں کر سکتے وزیراعظم آزاد کشمیر نے وفاقی وزراءکیلئے وفاقی بدمعاش جیسے توہین آمیز الفاظ استعمال کئے۔ہم نے وزیراعظم آزاد کشمیر کے سخت بیان کو خندہ پیشانی سے تسلیم کیا۔ پرویز رشید نے خطاب پر قومی اسمبلی میں شور مچ گیا۔ پرویز رشید نے کہا میں نے آپ کی بات سنی اب سچ سننے کا حوصلہ بھی رکھیں۔ وزیراعظم آزادکشمیر نے نعشوں کی بات کی۔ کوٹلی واقعہ پر جوڈیشل کمشن کی رپورٹ کا انتظار کیا جانا چاہیے تھا۔ کارکن کی ہلاکت کے معاملے پر خورشید شاہ کو مصنف مقرر کرتا ہوں ان کا فیصلہ قبول ہوگا۔ ریکارڈ لے کر خورشید شاہ کی خدمت میں حاضر ہو جاﺅں گا۔ پرویز رشید نے کہا سیاسی کارکن کے طور پر آزاد کشمیر کا دورہ کیا تھا۔ ہم نے کوٹلی واقعے پر آزاد کشمیر حکومت کے قائم کردہ جوڈیشل کمشن کو تسلیم کیا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر نے مجھ سے بھی ٹیلی فون پر سخت الفاظ استعمال کئے۔ انہوں نے کہا جوڈیشل کمشن جو فیصلہ کرے گا وہ قبول ہوگا۔ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ آزاد کشمیر میں ہمارے کارکنوں پر کیوں مقدمات قائم کئے جارہے ہیں؟ جوڈیشل کمشن کی رپورٹ آنے دیں قصوروار ثابت ہوئے تو سزا تسلیم کریں گے۔ نکیال بازار کے زیادہ تر لوگ سردار سکندر حیا ت کے حامی ہیں۔ حقائق دیکھ لیں۔ آئی این پی کے مطابق سینیٹر پرویز رشید نے کہا سانحہ نکیال کوٹلی اور اس میں ایک سیاسی کارکن کے جاں بحق ہونے کے ذمہ دار وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید ہیں، جنہوں نے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے آزاد کشمیر کی سیاسی فضا میں کشیدگی اور اشتعال پیدا کیا۔ سانحہ کوٹلی پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو منصف ماننے کےلئے تیار ہیں، وزیراعظم آزاد کشمیر بھی ریکارڈ لیکر آجائیں، دوطرفہ صورتحال جاننے کے بعد وہ جو بھی فیصلہ کریں گے وفاقی حکومت تسلیم کر لے گی، سانحہ پر آزاد کشمیر حکومت نے خود جوڈیشل کمیشن بنایا، اس کے فیصلے سے قبل لیگی کارکنوں کی گرفتاریاں اور مقدمات قابل قبول نہیں، پی پی پی کی ریلی نے مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر سردار سکندر حیات اور ان کے رشتہ داروں کی دکانوں اور املاک پر حملے کئے، جس سے تصادم ہوا۔ پرویز رشید نے کہا قائد حزب اختلاف کا بڑا احترام ہے، آزاد کشمیر کے سانحے کے حوالے سے منصف کا کردار بھی ادا کریں، 11 جنوری کو میں آزاد کشمیر میں ضلع بھمبر میں ورکرز کنونشن میں خطاب کےلئے گیا، اس سے قبل میں نے آزاد کشمیر کی سیاست میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا، ہم اپنی ذاتی گاڑیوں پر گئے تھے، ابھی ہم راستے میں تھے کہ اخبار میں پڑھا وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید کا بیان چھپا ہوا تھا آج 3 وفاقی بدمعاش آزاد کشمیر پر حملہ کرنے آ رہے ہیں، ان کی نعشوں کو بھی جگہ نہیں ملنی چاہیے، یہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے ہمارا استقبال کیا تھا، ہم نے بات کو مذاق میں اڑا دیا تاکہ کشیدگی پیدا نہ ہوا مگر چوہدری عبدالمجید مسلسل اشتعال انگیز بیان دیتے رہے، پھر مجھے ان کا فون آ گیا، مجھے لگا کہ ان کی آواز میں لڑکھڑاہٹ ہے، میں نے ان کی تلخ باتوں کے جواب میں کہا کہ آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ آپ کے عہدے کو زیب نہیں دیتیں، وہ ساتھی وزراءکے بارے ناقابل بیان باتیں کر رہے تھے، کوٹلی کس کے دائرہ اختیار میں ہے، کوٹلی میں امن و امان کس کے فرائض ہے، وہاں پولیس افسران کون تقرر کرتا ہے، نکیال کے بازار میں اکثر دکانیں اور گھر مسلم لیگ (ن) اور سابق وزیراعظم سردار سکندر حیات کے رشتہ داروں کے ہیں، وزیراعظم نے سردار سکندر کے اور رشتہ داروں کے گھروں اور دکانوں کے تحفظ کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا پی پی پی کی ریلی کے شرکاءنے اشتعال انگیز رویہ اختیار کیا ، کوٹلی میں جو ناخوشگوار واقعہ ہوا اس کی تحقیقات کےلئے آزادکشمیر حکومت نے ایک جوڈیشنل کمشن بنایا ہم نے اسے تسلیم کر لیا ، کمیشن جو فیصلہ کرے گا ہم تسلیم کریں گے۔ وزیراعظم کو اپنی غلطیوں کا احساس تھا اس لئے کمشن کی رپورٹ سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا اور یوم سیاہ منانے کا اعلان کردیا، آزادکشمیر کا سانحہ وزیر اعظم کے غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے پیش آیا۔ پرویز رشید نے کہا وزیراعظم کے اپنے جلسے میں پارٹی کے لوگ ایک دوسرے سے لڑے جھگڑے، اس کی وجہ بھی وزیراعظم کا رویہ تھا۔
پرویز رشید