ریٹائرڈ پولیس افسر کیلئے الوداعی پارٹی؟

Feb 16, 2016

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

آج کل سی سی پی او امین وینس بہت متحرک ہیں۔ عمر ورک بھی ان کے ساتھ سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے منصب کے اعتبار سے جو ان کی کارکردگی ہے۔ وہ اخبارات میں آتی رہتی ہے مگر میں ان کے ذوق و شوق اور سوشل سرگرمیوں کے لئے بھی مداح ہوں۔ عمر ورک مذہبی معلومات کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو ان کے محسوسات بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ وہ بہت جذبے سے قرآن و حدیث کے حوالے سے اور خاص طور پر سیرت رسولؐ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں۔ نایاب حیدر لاہور پولیس کے لئے لوگوں سے رابطے کے حوالے سے بہت سرگرم ہے۔
نبیلہ غضنفر آئی جی پولیس مشتاق سکھیرا کے حوالے سے پنجاب پولیس کو لوگوں میں قابل قبول بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ لوگوں سے رابطے کے ذریعے اور خوش اخلاقی انصاف پسندی سے معاملات اچھے ہو سکتے ہیں۔ یہ سوچا جائے کہ لوگ پولیس کے کیوں خلاف ہیں؟ میں تو اس دن کا منتظر ہوں کہ لوگ پولیس کو اپنا سب سے بڑا مددگار سمجھ لیں اور پولیس کو اپنی صورتحال بتاکر مطمئن ہو جائیں کہ اب انصاف ہو گا۔ ہماری عدالتیں بھی انصاف کریں۔ ان کے سامنے بھی تھانے میں درج ایف آئی آر اور پولیس کی ضمنی اور تفتیش ہوتی ہے اور وہ اس کے حوالے سے فیصلے کرتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انصاف کا پہلا دروازہ پولیس ہے۔ پولیس معاملات کو ٹھیک طرح سے چلائے تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے اور قانون کی حکمرانی قائم ہو سکتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والا پہلا ادارہ پولیس ہے۔
پولیس کے فرائض کے علاوہ مجھے ایک عمومی بات یاد آ رہی ہے۔ ایک دفعہ سی سی پی او نے تھانے کے انچارج پولیس افسروں کی خاصی سرزنش کی۔ سرزنش بھی ٹریننگ کا ایک حصہ ہے مگر اس کے ساتھ یہ واقعہ بڑا حیران کن ہے کہ مجھے پولیس میگزین کے کامران ابرار نے فون کیا کہ آپ تکلیف کریں اور ایوبیہ مارکیٹ مسلم ٹائون میں پولیس سنٹر میں آئیں جہاں ایک فرض شناس محنتی اور دیانتدار پولیس افسر انسپکٹر شریف سندھو ایس ایچ او کی الوداعی پارٹی میں شریک ہوں۔ جہاں سی سی پی او امین وینس اور ایس ایس پی سی آئی اے عمر ورک بھی خاص طور پر شریک ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایس ایچ او کی شاندار شخصیت کا اعزاز ہے۔ ایس پی اقبال ٹائون ڈاکٹر محمد اقبال ایس پی اعجاز شفیع ڈوگر کئی ڈی ایس پی صاحبان کئی ایس ایچ اوز اور کئی پولیس افسران اور ملازمین شریک ہوئے ہیں۔ میرے لئے یہ واقعی حیرت انگیز خوشی کا موقع تھا کہ ایک ایس ایچ او کی خدمات کے اعتراف میں ایک بہت اچھی تقریب سجائی گئی۔ بالعموم لوگ آتے ہیں تو ان کی پذیرائی ہوتی ہے۔ ایک جانے والے آدمی کے لئے یہ اہتمام بہت قابل تعریف ہے۔ آدمی بھی پولیس کا ہو۔ اللہ کرے ایسے لوگ پولیس میں ہوں اور بہت ہوں تاکہ ایک اچھا ماحول بن سکے۔ اطمینان بخش صورتحال پیدا ہو۔
ہر طرف وردی والے لوگ تھے۔ تنہا میں بغیر وردی کے تھا۔ میرا سوہنا اور اچھے دل و دماغ والا والد پولیس افسر تھا۔ انہیں وردی بڑی سوہنی لگتی تھی۔ اب جو بھی وردی میں ہو مجھے اچھا لگتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ باوردی آدمی کو زیادہ ٹرسٹ وردی ہونا چاہئے۔ لگتا ہے شریف سندھو واقعی شریف پولیس افسر تھے۔ کسی پولیس والے کے لئے شریف کا لفظ زیادہ معانی دیتا ہے۔ وہ ایس ایچ او نواں کوٹ کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ وہ اچھی شہرت کے مالک پولیس افسر تھے وہ جس علاقے میں بھی تھانے کے ایس ایچ او ہوئے وہاں ہر طرح کے جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ کر دیا۔ منشیات کے اڈے، جوئے خانے اور جرائم پیشہ افراد کے ڈیرے ختم کر دئیے۔ کسی معاملے میں کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔ اپنے افسران کی طرف سے جو کام سونپا گیا اسے دل لگا کے کیا۔ وہ جتنے اپنے افسران کے فیورٹ تھے اپنے ماتحت پولیس والوں میں بھی اتنے ہی ہردلعزیز تھے۔
وہ عمر ورک کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ عمر ورک نے بڑی محبت اور استقامت سے شریف سندھو کی تربیت کی۔ مجھے امین وینس عمر ورک ڈاکٹر محمد اقبال اور سب وردی والوں کی وہاں موجودگی سے دلی آسودگی ہوئی۔ میں نے کہا کہ میں شریف سندھو کو دیکھنے آ گیا ہوں کہ اس کی الوداعی پارٹی میں بڑے چھوٹے پولیس والے شریک ہوئے ہیں۔ شریف سندھو کو یہ جملہ بہت پسند آیا کہ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی مجھے دیکھنے آ گئے ہیں۔ امین وینس اور عمر ورک اسے الوداع کرنے کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ جب کوئی اچھا پولیس افسر جائے گا تو میں اس کی الوداعی پارٹی میں ضرور شریک ہوں گا۔ برادرم کامران ابرار کا شکریہ کہ انہوں نے مجھے دعوت دی برادرم نایاب حیدر بھی مجھے ایسی تقریبات میں بلاتا رہتا ہے۔ شریف سندھو کو شیلڈ دی گئیں۔ ایک شیلڈ بڑے ڈنڈے کے ساتھ منسلک کی گئی تھی۔ جسے شریف سندھو کو دینے کے لئے سب نے ڈنڈے کو پکڑ لیا تھا۔ میری گزارش پولیس والوں سے ہے کہ وہ ڈنڈے نہ مارا کریں اور ڈنڈی تو بالکل نہ مارا کریں۔
معاشرے میں بگاڑ کے لئے سیاستدان اور حکمران افسران اور پولیس افسران اپنے آپ کو سنبھال لیں تو سب کچھ سنبھل جائے گا۔ واصف علی واصف ایک رومانی سکالر ہیں۔ وہ جملہ کہتے تھے تو جملہ کیفیات کا منظر سامنے آ جاتا تھا۔ لگتا تھا کہ نامعلوم جہانوں سے لوٹ کر ابھی آئے ہیں۔ انہوں نے کہا جس معاشرے میں مظلوم اور محروم نہ ہوں وہی فلاحی معاشرہ ہے۔ مظلوم لوگوں کے لئے پولیس افسران اور محروم لوگوں کے لئے افسران غور کریں اور کہا کہ خاموش طوفان سے بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ ان دونوں جملوں پر غور کیا جائے تو بہت سی باتوں سے پردہ اٹھ سکتا ہے۔ میں نے شریف سندھو کی الوداعی پارٹی کا ذکر کیا تو میری خوشی کی انتہا نہ تھی مگر میں ابتدا پر غور کر رہا ہوں۔ کبھی کبھی ابتدا کے اندر انتہا چھپی ہوئی ہے۔ برادرم ڈاکٹر اظہر وحید واصف صاحب کے عاشقوں میں سے ہیں۔ وہ خود بھی بڑے اچھے اچھے جملے اپنی تحریر کی تقدیر بناتے ہیں۔ میرے دوست منصورالرحمن آفریدی بھی اپنی گفتگو میں کوئی گمشدہ آرزو ملا دیتے ہیں۔ انہوں نے احیائے اسلام پر بات کی تو واصف صاحب کو بہت یاد کیا۔ بچہ جب ماں کی گود میں جاتا ہے تو سمجھتا ہے کہ میں سب مشکلوں سے بچ گیا ہوں۔ بڑے ہو کر آدمی ماں کی گود کو تلاش کرتا رہتا ہے؟

مزیدخبریں