ایک دوست سے دوسرے نے پوچھا کہ اگر اسکے پیچھے شیر پڑ جائے تو وہ کیا کریگا؟ جواب ملا کہ وہ بھاگنا شروع کردیگا۔ کہا اگر شیر تیز بھاگے تو! جواب ملا وہ اور تیز بھاگے گا۔ کوئی راستہ نہ ملے تو! جواب ملا وہ درخت پر چڑھ جائیگا ۔ استفسار کیا کہ اگر شیر بھی درخت پر چڑھنا شروع کردے تو؟ کہاکہ وہ درخت کی آخری ٹہنیوں تک چلا جائے گا۔ دوست نے اپنے تئیں آخری پتا استعمال کیا اور پوچھا کہ اگرشیر نیچے سے درخت کی جڑیں ہی کاٹنا شروع کردے تو پھر وہ کیا کر یگا؟ جس پر دوسرے دوست نے کہا کہ اس کا جواب وہ بعد میں دے گا پہلے وہ یہ بتائے کہ وہ شیر کے ساتھ ہے یا اُسکے ساتھ ؟
دورِ حاضر میں پاکستان میں معاملہ الٹ ہے۔ یہاں شیر کے پیچھے دوست پڑا ہوا ہے۔ شیر آگے آگے، دوست پیچھے پیچھے۔ یہاں تک کہ وہی شیر سوال پر سوال کر دہ اپنے دوست سے پوچھتا دکھائی دیتا ہے کہ ’’ تم دوست کیساتھ ہو یا میرے ساتھ ـ‘‘
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خون نہ نکلا!
آمریت اور جمہوریت کے مابین اپوزیشن کا ہونا ایک بڑا فرق ہے ۔ آمریت میں اپوزیشن نہیں ہوتی جبکہ اپوزیشن جمہوریت کا حسن اور لازمی جزو ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ہمیشہ وہ نہیں کر سکتے جو عوام چاہتے ہیں! وہ وہ کرتے ہیں جو عوام اور ریاست کے مفاد میں ہو ! ڈاکٹر اگر مریض کی مانے تو وہ کبھی انجکشن یا کڑوی گولی نہ دے۔ وہ آپریشن بھی کرتا ہے کیونکہ مریض کی صحت ہدف ہوتا ہے۔ عوام نہیں قیادت فیصلہ کرتی ہے چاہے وہ حکومتی ہو یا اپوزیشن سے ـ! ہر اپوزیشن کے چند مقاصد ہوتے ہیں! اختلاف برائے اصلاح اور اختلاف برائے اختلاف یاکہ حصول حکومت! پارلیمنٹ یا قانون ساز اسمبلی، انتظامیہ یا حکومت اور عدلیہ جمہوری ریاست کے تین بڑے ستون ہیں۔ جس میںاپوزیشن کو ایک اہم مقام حاصل ہے جو پارلیمنٹ کے اندر اور باہرسیاسی جماعتوں اور میڈیا کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔
کچھ دانشور میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون جبکہ دوسرا مکتبہ فکر اسے ریاستی ستون نہیں گردانتا۔ تاہم اس بات پر سب متفق ہیں کہ میڈیا ایک بھرپور تعمیری اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ حکومتی پالیسیوں کی وضاحت، تعریف، آگاہی اور تعمیری اور اصلاحی تنقید کے ذریعے اداروں کی خامیوں کی نشاندہی اور رد عمل سے قومی تعمیر کا زینہ بن سکتا ہے۔ دور حاضر میں اورنج لائن ٹرین او ر اقتصادی راہداری کے منصوبے حزب اختلاف اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ہر منصوبے میں اصلاح کی گنجائش ہر وقت موجود ہوتی ہے ۔ تاہم اصلاح کا ر کا زیادہ وژن، ایمانداری، حب الوطنی، تعمیری سوچ اور تعصب اور تنقید برائے تنقید کی سوچ سے پاک کیفیت کا حامل ہونا لازم ہے۔ درست ہے کہ اقتصادی راہداری تمام صوبوں پر ترقی کی یکساں لکشمی نچھاور کرے۔ اورنج لائن خلق خدا کو یوں اپنے ثمرات سے مستفید کرے کہ رعایا کے گھونسلوں اور دانہ دُنکوں پر گرتی بجلیوں کی وجہ سے تباہ ہونیوالے اثاثوںکا مناسب متبادل فراہم کرے۔ تاریخی ورثہ جات کو اپنے پروں کی حفاظتی آغوش میں لے لے۔ کچھ سیاسی جماعتیں اور تو اور کچھ زیرک دانشوراور صحافی بھی اپوزیشن کے تعمیری کردار سے روگردانی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ پنجابی محاورہ ہے کہ ’’توں آٹا گُندی ہلدی کیوں ایں‘‘ لہٰذا میرا تمہارے ساتھ گزارا نہیں۔ ہمارے سماج میں شریکے کی آگ ہر دو منفی اور مثبت پہلوئوں پر مشتمل ہے۔ شریکا یا حریف اپنے حریف کو پھلتا پھولتا دیکھے تو یا تو حسد پیدا ہوتا ہے اور شریکے کی کی ترقی کے غبارے میں سوراخ کرنے کی کوشش کرتا ہے یا بصورت دیگر مثبت تقلید سے اپنی حالت بہتر بناتے شریک سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ روڑے اٹکانے کیلئے جادو، ٹونا ہنڈیا چڑھانا عام سی بات ہے۔ مثبت رشک حلیف میں ترقی کا عزم پیدا کرتا ہے اور وہ شریکے میںکسی افسر سے بڑا افسر بنتے فخر محسوس کرتا ہے جس سے مجموعی فائدہ معاشرے کو ہوتا ہے۔ دشمن کی چھاتی پہ مونگ دلے۔ پاکستان میں حالت مختلف ہے ۔ ایک کی اچھی پالیسی دوسرے کو اپنا منہ پیٹ کر سرخ کرنے پر اُکساتی ہے۔ ایک اہم سیاسی جماعت کے ضلعی عہدہ دار کو اورنج لائن ٹرین کے متاثرین کی طرف سے اُس وقت شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جب وہ متاثرین کے احتجاج کو اپنے سیاسی ماتھے کا جھومر بنانا چاہ رہے تھے۔ جو حزب اختلاف PIA ، ریلوے اور واپڈا جسے اداروں کی زبوں حالی اور سیاسی بھریتوں کا ماتم کرتی ہے وہی بعد ازاں ان میں جائز اصلاحات پر احتجاج کے ذریعے جلتی پرتیل کا کام کرتی ہے۔ اندازہ لگائیے کہ بیچ درمیان اگر اورنج لائن اور اقتصادی راہداری ٹھپ ہوجائیں تو رادھا کیسے ناچے گی اور کتنے سینوں کی آگ بجھے گی اور ترقی کے کتنے ستونوں میں آگ بھٹر کے گی۔ آج وکالت بھی احتجاج کی گنگا میں نہانے آئینی درخواستوں کے ذریعے دوامِ شہرت حاصل کرتے ترقی پاتی ہے۔ تاہم بے جا آئینی درخواستیں باشعور طبقہ میں نفرت کا باعث بھی بنتی ہیں۔ تاہم چند زیرک دانشوروں اور صحافیوں کیطرف سے بے جا مخالفت پاکستانی سیاسی اکھاڑے میں قدرے نئی بات ہے۔ وہ اپنے قائم کردہ مفروضے کی حفاظت کیلئے کسی حد تک بھی جاتے دکھائی دے رہے ہیں جس سے عوامی رائے عامہ کے بھٹکنے کاخدشہ رہتا ہے۔ ہر نقطے اور اصلاح کے بعد کوئی نیا نقطہ سامنے آجاتا ہے اور شیر کے دوست یا نہ ہونے کا سوال پیدا ہوجاتا ہے۔
اورنج لائن ٹرین کو ائرپورٹ جو کہ صرف 5 کلومیٹر کی دوری پر ہے سے منسلک کیا جائے تاکہ حج وعمرہ اور اوورسیز پاکستانی مسافروں کو سہولت میسر آ سکے اور سٹرکوں پر ٹریفک کا دبائو بھی کم ہو سکے۔ عاشق کو ہمیشہ دل کے دھڑکنے کا شور سنائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں کھول کر دیکھا جائے تو اس میں اتنا خون نہیں جتنا شور!
جو چِیرہ تو اک قطرہ خون نہ نکلا
Feb 16, 2016