تاریخ وہ نقشہ ہے جو ماضی حال اور مستقبل کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ ماضی جائے بغیر حال کونہیں سمجھا جا سکتا اورحال کے بغیر مستقبل کا کوئی تصور نہیں۔ زندہ قومیں اپنے تاریخی ورثے کو سنبھال کر رکھتی ہیںتا کہ آنے والی نسلیں ہمارے شاندار ماضی سے باخبرر ہیں۔ پاکستان میں بے شمار تاریخی مقامات ہیں جن میں ایک انتہا ئی اہم اور خوبصورت تاریخی مقام ستگھرہ ( ضلع اوکاڑہ) میں واقع میر چاکر اعظم رند کا مقبرہ ہے ۔ میرچاکراعظم ایک عظیم بلوچ سردار تھے جنہوں نے اس وقت کی برصغیر کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ خانہ جنگیوں میں گھرا ہونے کے باوجود مغل بادشاہ ہمایوں کی مدد کرنے اورتخت واپس دلوانے میں اہم کردار اداکرنے پرانہیں ایک وسیع جاگیر تحفے میں دی گئی اور سردار رند نے ستگھرہ میں آ کر ڈیرہ ڈالا جہاں ان کی آخری آرامگا ہ موجودہے۔
میرچاکر اعظم کا مقبرہ اوراسوقت کے شہر کے کھنڈرات اپنی کہانی اپنی زبانی سناتے ہیں۔ ماضی کے شاندار حالات اور موجودہ خستہ حالی اپنے آپ میں بہت بڑا تضاد ہے۔ پاکستان میں جہاں دوسرے ادارے کرپشن اور بے ایما نی کا گڑھ ہیں وہیں محکمہ آثارقدیمہ کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔میر چاکر کے مقبرے پر محکمہ آثارقدیمہ کا متعین کارندہ 'Ghost Officer" ہے جو شاذو نادر ہی ڈیوٹی پرآتا ہے ۔ ستگھرہ کا پرانا شہر اور اس کے ٹیلوں کو محکمہ مال اورمقامی پٹواری نے مل کر بیچ یا لیز کردیا گیا ہے جہاں آجکل فصلیں اگی ہوئی ہیں ۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آخر کس قانون کے تحت ایسا کیا گیا۔ اپنے وقت کے عظیم سردار کے مزار کی دیواروں پرلگے گوبر کے اپلے اور احاطے میں مویشی باندھ کر علاقے کے لوگ محکمہ سے ساز بازکر کے اس تاریخی ورثے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں اور مزارکی آس پاس کی زمین بندر بانٹ کی نذر ہو گئی ہے۔ مقبرے کے ارد گردپائی جانے والی تاریخی عمارتوں کو لوگوں نے اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال کر رہائش اختیار کر لی ہے۔ یہ ساری بندربانٹ صرف اپنی جیبیں گرم کرنے کے لئے کی گئی ہے اور سرکار کے خزانے میں اس ضمن میں ایک کوڑی بھی نہیں گئی۔ ڈر ہے کہ ناجائز الاٹمنٹس کا سلسلہ یو ںہی چلتا رہا تو ایک دن مزار بھی کسی کو الاٹ کردیا جائے گا کیونکہ ابھی ناجائز الاٹمنٹ مزار کی دیواروں تک پہنچ چکی ہے ۔ اس ورثے کی حفاظت کے لئے قائم میر چاکر اعظم فاونڈیشن کی کارکردگی بھی صفر ہے اور اس کا وجود محض کاغذوں میں ہے۔ سابق وفاقی وزیر سرحدی و ریاستی امور اور میر چاکر اعظم کی لڑی سے ہونے کے دعویادار سردار یارمحمد رند نے مزار کی بحالی کے لئے کچھ فنڈمختص کیا اور اپنے اس کارنامے کی تختی بھی مزارکے باہر آویزاں کر دی گئی۔ لیکن اس رقم سے جو کام کیا گیا اس نے مقبرے کے قدیمی حسن کو مزید گرہن لگا دیا گیا ۔ سردار یار محمد رند ایک باثر بلوچ سردار ہونے کے باوجود اپنے خاندانی ورثے کو سنبھالنے میں ناکام رہے اور تختی لگانے کے بعد یہ گوارہ نہیں کیا کہ بحالی کا کام کس نوعیت کاہو رہا ہے۔ گزشتہ ماہ ساہیوال ڈویژن میں کمشنر آفس میں وزارت اطلا عات و نشریات کے زیر اہتما م ایک کانفرس میں میں نے یہ تجویز دی کہ اس تاریخی ورثے کو محفوظ بنا کر وہاں پرتعلیی اورتفریحی سرگرمیوں کا سرکاری سطح پر انعقاد کیا جائے جس سے ہماری تاریخ سے آگاہی اوروابستگی بڑھے گی اور صوبوں میں ہم اہنگی کو فروغ ملے گا کیونکہ چاکراعظم رند ایک بہادرسپہ سالار ہونے کے ساتھ ساتھ بلوچی لوک ادب کی مشہورداستان ہانی اور مراد میں بھی ایک اہم کردار تھا۔ آج بھی جب پنجاب میں بلوچی فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کا آغاز میر چاکر اعظم کی داستان سے کرتے ہیں۔ یہ سب تب ہی ممکن ہے جب اس قیمتی تاریخی ورثہ کی اصل شکل میں بحالی اور قبضہ گروپوں سے محفوظ بنایاجائے گا اس سے صوبوں میں ہم آہنگی کو فروغ دے کر پاکستانیت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعلی پنجا ب شہباز شریف نے لاہور میں نہر پر اس عظیم بلوچ سرادر میر چاکر اعظم رند کے نام ایک انڈر پاس منسوب کرکے گویا اپنا فرض ادا کر دیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس کی تاریخی اہمیت سے آگاہ تو تھے لیکن اس عظیم تاریخی ورثے کو محکمے کے نا اہل افسران کے سپردکر دیا کہ وہ اسے مال غنیمت سمجھ کر اپنے پسندیدہ لوگوں میں بانٹ دیں۔ صوبے میں شفافیت کا ان کا دعوی اپنی جگہ لیکن ستگھرہ کا یہ ورثہ بھی ان کی توجہ چاہتا ہے ۔ اور قبضہ گروپس سے اس کی واگزاری صرف خام اعلی ہی کرا سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام ، ارباب اختیار، سیاسی اور سماجی کارکن اس کا ادارک کریں اوراس کی حفاظت یقینی بنایں۔ ایسے مقامات پر تاریخی نوعیت کے میلے اور اکٹھ کا اہتما م ہونا چائیے جسے تاریخی مطالعے اور ریسرچ کے لئے استعما ل کیا جا سکے۔ اور ایسے اقدامات کئے جانے چاہئیں کہ لوگوں کو اس کی اہمیت کا احساس ہو۔