نواز رضا
سپریم کورٹ کے جسٹس عظمت سعید کی علالت کے باعث ’’پانامہ پیپرز لیکس‘‘ کیس کی سماعت دو ہفتے تک معطل رہنے کے بعد گذشتہ روز دوبارہ شروع ہو گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے باہر حکومت اور اس کی مخالف جماعتوں تحریک انصاف ،جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کی ’’عدالتیں ‘‘ بھی لگنا شروع ہو گئی ہیں۔ اگرچہ ورکرز کنونشن منعقد کر کے مسلم لیگ ن نے اپنی سیاسی قوت کا بھر پور اظہار کیا ہے تاہم دیگر حوالوں سے بھی ایک بات واضح ہے کہ مسلم لیگ(ن) یا وزیر اعظم محمد نواز شریف کی مقبولیت پر ’’پانامہ پیپرز لیکس ‘‘ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ یہ بات قابل ذکر ہے عالمی شہرت کے حامل انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ (آئی آر آئی) نے اکتوبر 2016 کو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کے حوالے سے سروے کروایا ہے ۔ جس کی رپورٹ خاموشی سے مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف‘ پیپلز پارٹی‘ قومی وطن پارٹی‘ عوامی نیشنل پارٹی ‘ جمعیت علماء اسلام (ف) ‘ نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی قیادت کو بھجوا دی گئی ہے۔ آئی آر آئی اس رپورٹ کو جاری نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے باوجود جب یہ رپورٹ شائع ہو گئی تو اس پر سیاسی حلقوں میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے سوا تمام جماعتوں نے اسے مسترد کر دیا ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ جماعتیں بھی آئی آر آئی کی رپورٹ کو قبول کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آرہیں جو ماضی میں اس کی اپنے حق میں آنے والی رپورٹوں پر یقین کا اظہار کر چکے ہیں۔ یہ رپورٹ مسلم لیگ(ن) اور وزیر اعظم محمد نواز شریف کے حق میں ہے جو اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انٹرنیشنل ریپلکن انسٹیٹیوٹ کے سروے میں پاکستان کے سیاسی قائدین میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کو 63 فیصد کی شرح کے ساتھ مقبول ترین لیڈر قراردیا گیا ہے ۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان مقبولیت میں 39 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 32 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر سروے رپورٹ میں پنجاب حکومت نے پہلا نمبر حاصل کیا ہے ۔ 79 فیصد لوگوں نے پنجاب حکومت کی کارکردگی کو سراہا ہے ۔ خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی کو72 فیصد پسندیدگی کے ووٹ ملے ہیں ۔ سندھ حکومت کی کارکردگی پر 54 فیصد جب کہ بلوچستان حکومت کی کارکردگی کو 48 فیصد لوگوں نے سراہا۔ سروے رپورٹ کے مطابق 59 فیصد پاکستانیوں کو پانامہ بارے کچھ بھی معلوم نہیں۔ 26 فیصد لوگ پانامہ لیکس کی مکمل تحقیقات کے حق میں ہیں جب کہ 38 فیصد پانامہ لیکس کے بارے کچھ نہ کچھ دلچسپی رکھتے ہیں۔
بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے آئی آر آئی کے سروے کو چیلنج کرنے پر اس ادارے نے سروے رپورٹ کو اپنی ’’ویب سائٹ‘‘ پر جاری کر دیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا ہے کہ آئی آر آئی نے 27ستمبر سے 26اکتوبر2016ء تک تیار کی جانے والی سروے رپورٹ ملک بھر سے پانچ ہزار سے زائد افراد کی رائے لی گئی ہے ۔پنجاب ‘ خیبرپختونخوا‘ سندھ اور بلوچستان سمیت قبائلی علاقوں سے 4978 لوگوں سے رائے لی گئی۔ انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ نے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سروے رپورٹ پاکستان کی سیاسی صورتحال عکاسی کرتی ہے ،ان کا ادارہ2002ء سے پاکستان میں کام کررہا ہے۔ جس کا مقصد سیاسی جماعتوں کو بہتر پالیسی سازی کے لئے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا ہے۔ آئی آر آئی نے پاکستان کے 75اضلاع سے لوگوں سے سیاسی جماعتوں کے بارے میں پوچھا ہے جن میں شہری اور دیہی آبادی شامل ہے۔ اس حوالے سے گھروں میں موجود خواتین سے بھی پوچھا گیا جبکہ خواتین کو بھی سروے میں شامل کیا گیا۔ دور جدید میں سیاسی جماعتیں گیلپ سروے کی رپورٹوں سے استفادہ کرتی ہیں اور ان رپورٹوں کو پیش نظر رکھ کر اپنی سیاسی حکمت عملی تیار کرتی ہیںاگر کوئی سیاسی جماعت اپنے خلاف نتائج کو تسلیم نہیں کرتی تو یہ اس کی ’’سیاسی کمزوری‘‘ ہو سکتی ہے مسلم لیگ(ن) کی اعلی قیادت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف شدید تنقید کا براہ راست جواب دینے سے گریز کرتی رہی ہے لیکن اب اس نے دوسرے درجے کی پوری ٹیم میدان میں اتار دی ہے ۔جس پرزچ ہو کر عمران خان بھی یہ کہنے مجبور ہوگئے ہیں کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے براہ راست جواب دینے کی بجائے مریم نواز کی نگرانی میں مسلم لیگ (ن) کے دوسرے درجے کے لیڈر ان کو ان کے پیچھے لگا دیا ہے۔ اس وقت سب لوگ جانتے ہیں کہ عمران خان ایشوز کی سیاست نہیں کر رہے انہوں نے نواز شریف کو’’ ٹارگٹ ‘‘بنا رکھا ہے ۔ پانامہ پیپرز لیکس کیس کی وجہ سے مسلم لیگ(ن) اور جماعت اسلامی کے تعلقات بری طرح متاثر ہوئے ہیں مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ایک دوسرے کے بارے میں اپنے دل میں’’ نرم گوشہ‘‘ رکھتے ہیں لیکن جب سے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی عمران خان کی طرح نواز شریف کو ٹارگٹ بنانا شروع کیا ہے دونوں جماعتوں کے درمیان اس حد تک فاصلے بڑھ گئے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) نے جماعت اسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی کشمیر کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ اس صورت حال سے دونوں جماعتوں میں ایک دوسرے کے قریب ہونے کے خواہشمندلوگ پریشان ہیں ۔وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب میں آئندہ انتخابات میں ایک دوسرے کے قریب ہونے کی پیشکش کی لیکن جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت جو خیبر پختونخوا میں عمران خان کی جماعت کے بہت قریب ہے مسلم لیگ(ن) کی پیشکش کا ’’مثبت ‘‘جواب نہیں دیا۔ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی تمام گیلپ سروے اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ2018ء کے عام انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کو کامیابی حاصل ہو گی۔ لیکن جماعت اسلامی مسلم لیگ(ن) سے انتخابی الائنس کر نے کا ارادہ نہیں رکھتی ۔جس طرح جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر نے مسلم لیگ(ن) کے ساتھ معاملہ کر کے اپنے لئے قانون ساز اسمبلی میں جگہ بنالی ہے اب جماعت اسلامی نے اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ تحریک انصاف کا ’’دم چھلا‘‘ بنتی ہے یا مسلم لیگ(ن) کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہے ۔
جب سے حکومت نے جماعتہ الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کو نظربند کیا ہے حافظ محمد سعید کی نظر بندی کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے ۔ دفاع پاکستان کونسل کے زیر اہتمام کل جماعتی مشاورتی اجلاس میں شریک 30سے زائد مذہبی، سیاسی و کشمیری جماعتوںکے قائدین نے حافظ محمد سعید و دیگر رہنمائوں کی نظربندی کے خلاف لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں بڑے پروگراموں کا اعلان کیاہے اور کہا ہے کہ اس سلسلہ میں کراچی سے پشاورتک ملک گیر تحریک چلائی جائے گی۔ جمعہ 17فروری 2017ء کو زبردست احتجاجی مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ حافظ محمد سعید ودیگر رہنمائوں کوپانامہ کیس سے توجہ ہٹانے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو خوش کرنے کیلئے نظربند کیا گیاپاکستان سے کشمیریوں کی حمایت میں اٹھنے والی آواز کو خاموش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کے اجلاس میں مسلم لیگ(ن) کو آئندہ انتخابات میں ووٹ نہ دینے کے لئے فتوٰ ی جاری کرنے کا معاملہ بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ تاہم بعض علما کرام نے ابھی حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کا موقع دینے کی تجویز کے ساتھ ووٹ کے خلاف فتویٰ دینے کے انتہائی اقدام کو موخر کروادیا ہے۔