امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کس قدر بدقسمتی اور بدنصیبی ہے کہ انہیں یا تو مختلف ہنر جاننے اور اس میں مہارت رکھنے والوں کا پتہ نہیں یا اقتدار اور طاقت کے نشہ میں وہ ایسے ماہرین سے مشورہ کرنا یا کوئی ’’میثاق جمہوریت‘‘ کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ توہین سے زیادہ نادانی ہے ۔اگر پاکستانیوں کی ریسرچ کے مطابق ٹرمپ خود کو آفتاب شیر پاؤ کا جڑواں بھائی تسلیم نہیں کرتے تو نہ کریں مگر خود کو عدالتوں سے بچانے کیلئے پاکستان کے لیڈروں کے تجربے اور طریق کار کو جاننے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ انکی بدنصیبی تو اسی دن شروع ہو گئی تھی جب انہوں نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو فون کرکے انکی تعریفیں کرنے پر ہی اکتفا کیا تھا اور کوئی کام کی بات پوچھنے سے پہلے ہی فون بند کر دیا تھا دوسری طرف وزیراعظم غور سے یہ فون سنتے تو اپنے اتنے بڑے ’’فین‘‘ کی دلجوئی کیلئے عدلیہ کو زیر کرنے کا اپنے تجربات پر مبنی کوئی مشورہ ضرور دے دیتے۔ بدنصیب ٹرمپ نے دانش کی کوئی بات نواز شریف سے نہ سنی اور عدالت کے اندر حکومتی وکیل نے وہی گھسا پٹا مؤقف اختیار کیا کہ صدر ٹرمپ کے احکامات کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا واشنگٹن کے اٹارنی جنرل باب فرگوسن کی ایگزیکٹو آرڈر معطل کرنے کی درخواست پر اسکی اس دلیل کے بعد فیصلہ آیا کہ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرسے آئین میں دی گئی مذہبی آزادی اور یکساں تحفظ کی خلاف ورزی ہوئی ہے اس ضمن میں اٹارنی جنرل نے یہ بھی کہا کہ یہاں کوئی قانون سے بالا نہیںخواہ وہ صدر ہی کیوں نہ ہو اور پھر جج نے فیصلہ دے دیا۔ اگر ٹرمپ کی نواز شریف سے مشاورت ہو جاتی تو انہیں فیصلہ پر خود اپنا بڑا منہ کھول کر یہ تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ ’’نام نہاد جج کی مضحکہ خیز رائے ملک کو قانون سے دور لے جائیگی پابندی بحال کرائیں گے‘‘۔
ٹرمپ کا لہجہ اور مزاج دیکھ کر وائٹ ہاؤس نے بھی عدالتی فیصلے کو اشتعال انگیز قرار دیا۔ اگرچہ چند لمحوں بعد ہی وائٹ ہاؤس لفظ اشتعال انگیز سے دستبردار ہو گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا اور پھر اسی دن فیصلے کیخلاف اپیل کر دی اور اس میں موقف اختیار کیا کہ ’’وفاقی عدالت کا فیصلہ غیر آئینی اور تعصب پر مبنی ہے‘‘ اسی مؤقف کے ساتھ کہ عدالت سے انصاف ملے گا۔
صدر ٹرمپ نے سیاسی پتے بھی کھیلے وفاقی عدالت کے ان ریمارکس پر کہ حکومتی فیصلہ متعصبانہ ہے اور پابندی نہیں لگائی جا سکتی تاہم اگلے روز تک مزید دلائل طلب کرنے کی مہلت سے خوب فائدہ اٹھایا گیا ’’یقین نہیں آتا ایک جج ملک کو خطرے سے دوچار کر سکتا ہے کچھ ہوا تو جج اور عدالتی نظام پر ہی الزام آئیگا‘‘ اس کا نائب صدر بھی حق وفاداری ادا کر گیا۔ ’’عدالتی فیصلہ مایوس کن ہے‘‘ صدر ٹرمپ اس فیصلے سے اتنا مشتعل اور بے قابو ہو چکا تھا کہ اسے امریکہ کے دشمن نمبر ایک کا بھی دفاع کرنا پڑا اور کہا کہ ’’ روس کے صدر پیوٹن کی عزت کرتا ہوں۔ اگر وہ قاتل ہے تو امریکی کونسے معصوم ہیں‘‘ اس دلبرداشتگی کے باوجود وہ اپنی سی آئی اے یا سیاسی حاشیہ برداروں سے وہ کچھ نہ کرا سکا جس کے ہونے کی شکل میں سارا الزام جج اور عدالتی نظام پر رکھ دیا تھا اور بالآخر سات دن کے اندر اندر ہی فیصلہ آگیا اور اپیل کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سات مسلم ممالک پر ویزا کی پابندی کے حوالے سے امریکی صدر کی اپیل مسترد کر دی اور صدارتی حکم کی معطلی کا فیصلہ برقرار رکھا۔ یو ایس سرکٹ کورٹ آف اپیل نے 29 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کر دیا۔ اپیل مسترد ہونے پر ماہی بے آب کی طرح امریکی صدر کے تڑپنے کا منظر بھی دنیا والوں نے دیکھا اور اسکے اشتعال انگیز ردعمل کے طور پر اسکے منہ سے نکلنے والے انگارے ان لفظوں کے روپ میں لوگوں کی سماعتوں سے ٹکرا کر انہیں امریکہ کے انتہائی متعصب سربراہ کے چہرے سے رعونت اور ہٹ دھرمی کا نقاب نوچتے دکھائی دیئے۔ ’’فیصلہ شرمناک ہے،سپریم کورٹ میں دیکھ لونگا‘‘۔ امریکی صدر۔
اس بدحواسی میں ٹرمپ نے ججوں کو دھمکی بھی دی اور فیصلے کو سیاسی کہا۔ اب سپریم کورٹ کا آٹھ رکنی بنچ اسکی سماعت کریگا۔ ٹرمپ پر طاری بدحواسی کا دورانیہ طویل ہو گیا، پہلے فیصلے کے بعد اس نے پیوٹن کی تعریف کی اور اس فیصلے کے بعد چین کے صدر شی چن پنگ کو فون کر دیا۔ اگرچہ طویل فون کال کے دوران ہونیوالی گفتگو کو صرف توجہ طلب مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کا نام دیا ہے اور اس ایکسپلائٹیشن سے جو نواز شریف سے کی جانیوالی کال کے بعد پاکستان کی حکومت نے کی تھی بڑی ہنرمندی سے خود کو بچایا ہے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی‘ قطر کے امیر اور عراق کے وزیراعظم کو بھی فون کر دیئے۔ بندہ پوچھے کہ یہ سب اس سلسلہ میں تمہاری کیا مدد کرینگے وہ نواز شریف کو فون کر کے اور اس سلسلے میں انکے قیمتی مشوروں سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے تو نہ اٹھائیں اپنے یار غار آصف علی زرداری سے رابطہ کر لیں ان باپ بیٹوں کو جب امریکہ یاترا کا موقع ملا تو پاکستانی پریس میں ہم نے یہی پڑھا تھا کہ زرداری صاحب سے انکے بہت دیرینہ مراسم ہیں۔ کسی نے یہ تو نہیں لکھا کہ تب سے مراسم ہیں جب زرداری صاحب سینما کی ٹکٹیں بلیک کرتے تھے۔
چونکہ ٹرمپ بھی اس قماش کے صدر بن کر ابھرے ہیں اس لئے یہ تحقیق بغیر تحقیق کے بھی مان لی جاتی۔ سابق صدرانہیں عدالتوں میں کیس لٹکوانے اور جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ‘ مجرم کو معصوم اور معصوم کو مجرم بنانے کی فنی موشگافیوں سے اس طرح متعارف کراتے کہ ٹرمپ کے ہوش اڑ جاتے۔ وہ جیتی جاگتی مثالوں سے اسے آسانی سے قائل کر لیتے کہ وہ خود پیچھے رہ کر کارروائیاں کریں اپنے فرنٹ مین رکھیں بلکہ ’’ماڈل‘‘کی طرح فرنٹ ویمن‘ جنہیں رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تو بھی ان کا کچھ نہ بگڑے اور اصل ایشو کی بجائے اسکے لباس اور میک اپ کی کوریج میں پورا میڈیا ایسے جت جائے جیسے ایک سال بعد ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نقصانات اور خرافات کو نظرانداز کرکے اسے پاپولر بنا چکا ہے۔ یہ مواقع ضائع کرنے پر اسکے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ بدنصیب ٹرمپ بہتی گنگا کے کنارے بیٹھ کر بھی ہاتھ نہیں دھو رہا۔