اسلام آبادترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے کہا ہے کہ بھارت اسلحہ کے انبار لگا رہا ہے جس کی وجہ سے خطہ میں ہتھیاروں کی دوڑ کو فروغ ملے گا۔ ہفتہ وار پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان نے کہا پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھی پاکستان میں بھارتی مداخلت سے آگاہ کیا گیا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ بھارتی افواج نے کولگام میں نہتے کشمیریوں پر فائرنگ کی۔ علی گیلانی اور آسیہ اندرابی نظر بند ہیں۔ ہم کشمیریوں کی اپنے حق خود ارادیت کی تحریک کی حمایت پر پُر عزم ہیں۔ پاک چین معاشی راہداری ایک اقتصادی منصوبہ ہے اس کے باوجود راہداری کی کھل کر مخالفت کر رہا ہے اور ہم اس کی اسے سبوتاژ کرنے کی کوششوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ کلبھوشن یادیو نے بھی اپنے بیان میں پاک چین معاشی راہداری کو سبو تاژ کرنیکی کوششوں کا اعتراف کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا کردار حساس ہے۔ پاکستان ان مبصرین کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے تاہم بھارت کی جانب سے اس تعاون کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔ پاکستانی قوم مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ لاہور دہشت گردی پر تفتیش جاری ہے۔ کچھ افراد کو اس ضمن میں گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ پاک چین معاشی راہداری نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے لئے مفید منصوبہ ہے۔ یہ ایک معاشی منصوبہ ہے۔ ہم لاہور میں دہشت گرد حملے، حیات آباد میں ججوں پر حملے ، کوئٹہ میں بم ناکارہ کرتے ہوئے ایک اہلکار کی شہادت اور ایل او سی پر تین جوانوں کی شہادت کی مذمت کرتے ہیں۔ ماسکو میں چھ فریقی مذاکرات کے دوران افغانستان میں علاقائی سلامتی پر بات چیت کی گئی۔ شرکائے امن کیلئے تعاون پر اتفاق کیا۔ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لئے کسی بھی کوشش کا خیر مقدم کرتا ہے۔ بھارت کی جانب سے دفاعی پیداوار میں اضافہ خطے کے مفاد میں نہیں۔ بھارت کی جانب سے اسلحے کے انبار لگانا خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کو فروغ دے گا۔انہوں نے کہا عالمی برادری بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانیت کے خلاف جرائم کا نوٹس لے۔پاکستان میں بھارتی مداخلت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پاکستان نے یہ معاملہ کئی فورمز پر اٹھا رکھا ہے۔ بھارت کو بے نقاب کرنے کا کام کرتے رہیں گے۔ بھارت ایل او سی پر جان بوجھ کر دیہات اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ پاکستان نے بارہا بھارت کے ساتھ احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ عالمی برادری کو صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ اے پی ایس سمیت کئی دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی۔ جماعت الاحرار صرف افغانستان میں موجود ہے۔ جنرل نکلسن افغانستان میں دہشتگرد تنظیموں بارے رپورٹ دے چکے ہیں۔ افغانستان سے کہا ہے وہ ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے۔ افغانستان ہماری تشویش کو دور کرے۔ افغانستان کو پاکستان سے جو تعاون درکار ہوگا وہ فراہم کریں گے۔ ہم نے افغان ڈپٹی ہیڈ مشن سے دہشتگرد سرگرمیوں کے حوالے سے بات کی ہے۔جماعت الاحرار کے حوالے سے بھی افغان حکام کو آگاہ کیا گیا ہے۔ افغانستان سے کہا کہ انھیں دہشتگرد عناصر کو ختم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے خواہش مند ہیں،،37 سال سے افغانی یہاں مہاجر ہیں۔افغانی ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم طالبان کے حامی ہیں۔ افغانستان میں بہت سی انٹیلی جنس ایجنسیاں کام کررہی ہیں۔ پاکستان کے چین سے تعلقات میں اضافہ ہوا۔ چین اور روس بھی ایک دوسرے کے قریب ہورہے ہیں۔ بھارت کی مقامی حکومت خطے میں امن نہیں چاہتی،پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کی بات کی، مذاکرات کے لیے ہمارے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔ پاکستان کشمیر کو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتا۔ کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔ حکومت 4 سے 5 اہم نکات پر اپنی خارجہ پالیسی بنا رہی ہے، کسی کے معاملے میں مداخلت کریں گے نہ کسی کو ہمارے معاملات میں مداخلت کرنے دیں گے،ہمیں کشکول توڑ کر اپنے ہی قدموں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ ائیر یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ نے کہا کشکول لے کر پھرنے والی قومیں پیچھے رہ جاتی ہیں، ہمیں کشکول توڑنا ہو گا۔ بھیک مانگنے کا سلسلہ بند کرنا ہو گا۔اپنا قد اونچا کرنے کے لئے اپنے ہی قدموں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پر امن ملک ہے۔ وہ کسی سے محاذ آرائی نہیں چاہتا ہے ۔انہوں نے کہا پاکستان کی پالیسی ہے کہ دہشت گردی کا حل بھی پرامن طریقے سے ہو۔ ہم امن پسند ہمسائے کی حیثیت سے خطے میں مثبت پیغام دینے کے خواہش مند ہیں۔ اعزاز چوہدری نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی مثبت ہے، ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں، دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمارے چین اور ایران سے اچھے تعلقات ہیں۔ہمارے بھارت اور افغانستان سے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ہم نے پہلے اپنی ترجیح کو دیکھنا ہے۔غیر مستحکم افغانستان دوسرے ممالک کے لیے خطرہ ہے۔بھارت پاکستان میں دہشتگردی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کررہا ہے۔ جماعت الاحرار نامی تنظیم افغانستان سے پاکستان میں دہشتگردی کررہی ہے۔ ہم پرامن افغانستان کی حمایت جاری رکھیں گے۔ افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ دہشتگردی کا حل ہے کہ بارڈر مضبوط ہو،نہ وہاں سے کوئی آ کر دہشتگردی کرے نہ یہاں سے کوئی جائے،ہم دنیا سے ایڈ نہیں ٹریڈ چاہتے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جتنا پاکستان نے کام کیا ہے کسی قوم نے نہیں کیا۔ امریکہ میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ پاکستانی قوم کو پروپیگنڈے سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ امریکہ کے ڈو مور کو نہیں مانتے،ہم اپنی پالیسی کے مطابق کام کررہے ہیں۔امریکہ کی جانب سے مسلمان ممالک پر پابندیوں کے حوالے سے انہوںنے کہا امریکہ نے جن سات ممالک پر پابندی لگائی پاکستان اس میں شامل نہیں۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو ویزہ نہ ملنے والا معاملہ ہم نے اٹھایا ہے۔ سارک ممالک کانفرنس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سارک سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہوتا تھا،بھارت نے ہمیں نہیں سارک کو تنہاکیا بھارت ہمیں تنہا نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا مستقبل روشن ہے سی پیک سے ایک انقلاب برپا ہونے جارہا ہے۔ یہ ہمارے پاس متحد ہونے کے لیے آئیڈیل وقت ہے۔ امریکہ سے تعلقات میں اتار چڑھاو آتا ہے۔ مستقل وزیر خارجہ کا نہ ہونا کوئی مسئلہ نہیںمشیر خارجہ بہت قابل ہیں، انکا وزیر کا درجہ ہے۔دہشتگردی کا کوئی مذہب، دین اور سرحد نہیں،ملک ترقی کی جانب جائے گا تو دشمن سرگرم ہوں گے،ترقی کا راستہ روکنے والے ناکام ہوں گے۔ کشمیر میں آزادی کی لہر اٹھتی رہے گی۔انہوں نے کہا پاکستان کے لوگ بہت ذہین اور سمجھدار ہیں۔تمام ممالک ایک دوسرے سے تعلقات بڑھا رہے ہیں۔انہوں نے کہا داعش کے لوگ بھی یہاں آ سکتے ہیں ان سے خطرہ ہے۔داعش کے لوگ افغانستان میں جمع ہو چکے ہیں افغانستان کے ان علاقوں میں ہیں جو پاکستان کے قریب ہیں۔پشاور میں وال چاکنگ ہو چکی تھی۔
امریکہ کا ڈو مور نہیں مانتے، اپنی پالیسی کیمطابق کام کررہے ہیں، سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی بھارتی کوششوں سے آگاہ، افغانستان تحفظات دور کرے: پاکستان
Feb 16, 2017 | 19:17