افغان ڈیفنس منسٹری ترجمان دولت وزیری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کابل حکومت کی دعوت پر گزشتہ منگل وار کو افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے ملٹری سربراہوں نے کابل میں چیف آف ڈیفنس کانفرنس میں شرکت کی۔ جس میں پاکستان‘ امریکہ‘ افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک میں امن کیلئے تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعلان کیا گیا۔ پاکستان کی طرف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کانفرنس کے قیام میں دیگر شرکاء کے ساتھ باہمی صلاح مشورے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس موقع پر امریکن سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر یو ایس نیٹکام کمانڈر ریسولٹ مشن (آر ایس ایم) اور اتحادی نیٹو کمانڈر بھی موجود تھے۔ افغان وزارت دفاع کے مطابق کانفرنس کا ایجنڈا سکیورٹی چیلنجز کے حوالے سے دو اہم امور پر اتفاق اور عزم کے ساتھ باہمی تعاون پر زور دیا۔ اول: دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام شرکاء کانفرنس انٹیلی جنس شیئرنگ سے لیکر مختلف آپریشنز کے زمین پر عملی اقدامات کے بارے میں ایک دوسرے کو اعتماد میں لیکر مشترکہ کوآرڈی نیشن کو آگے بڑھائیں گے اور دوئم نارکوٹیکس ٹریڈنگ کے بڑھتے ہوئے چیلنج پر قابو پانے کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرینگے۔ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز ممالک پر واضح کیا کہ علاقائی اور ریجنل امن اور استحکام کے تمام راستے افغانستان سے ہوکر گزرتے ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے انہوں نے پاکستان کا خصوصی طور پر ذکر نہیں کیا لیکن یہ حقیقت تمام شرکاء پر واضح تھی کہ ماضی کی تاریخ اور حالیہ واقعات گواہی دیتے ہیں کہ کانفرنس میں زیر بحث ہر دو سکیورٹی چیلنجز پر قابو پانے کیلئے پاکستان کا کردار LYNCHPINکی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف نے شرکاء کانفرنس پرواضح کیا کہ موجودہ گلوبل ماحول میں مختلف علاقے اور خطے ریجنل سطح پر ترقی کے راستے پر گامزن ہوتے ہیں کیونکہ کسی بھی ریجن یا خطے میں کوئی ملک انفرادی سطح پر اکیلے روشنی اور ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ علاقائی ڈویلپمنٹ ISOLATION میں کسی ملک کیلئے ممکن نہیں کہ ایک بہت بڑے علاقائی طوفان میں ایک چھوٹا سا جزیرہ قائم رہ سکے۔ اس کانفرنس میں جن ممالک نے شرکت کی ان میں مندرجہ ذیل نام بین الاقوامی منظر نامہ سمجھنے کیلئے ضروری ہیں۔ ان میں کانفرنس کے میزبان افغانستان کے علاوہ امریکہ سے سینٹکام چیف جنرل جوزف وٹل اور نیٹو ممالک کی طرف سے نیٹو سپورٹ مشن کمانڈر جنرل جان نکلسن کے علاوہ آرمی چیف افغانستان‘ قازقسان‘کرغرستان‘ تاجکستان‘ ترکمانستان اور ازبکستان نے کانفرنس میں بھرپور شرکت کی۔ لیکن اس موقع پر جو نمائندے زمین پر کابل کانفرنس میں اگرچہ شریک نہ تھے لیکن میرے لئے ایک دفاعی تبصرہ نگار کی حیثیت میں یہ کہنا مشکل ہے کہ بڑے ممالک میں سے میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کانفرنس کے انعقاد میں روس‘ چین اور ترکی جیسے ممالک کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اگرچہ اس کا ذکر کرنا مصلحتاً مناسب نہ تھا اور دستوراً بھی کسی پراکسی وار میں بظاہر متعلقہ فریقین کا نام نہیں لیا جاتا گو کہ سب متعلقہ فریقین اس سے باخبر ہوتے ہیں اس کابل علاقائی چیف آف ڈیفنس کانفرنس میں میزبان ملک کی طرف سے بھارت کو مدعو نہ کیا جانا اور اس کے باوجود بظاہر بھارت کی طرف سے کسی ردعمل کا جواز نہ ہونا تمام شرکاء کانفرنس اور خاص طور پر امریکہ‘ نیٹو‘ پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ فوجی حکمت عملی کی کامیابی ہے کہ یہ علاقائی چیف آف ڈیفنس کانفرنس نیٹو‘ کی چھتری کے نیچے منعقد ہوئی۔ لیکن میرے علم اور یادداشت کے مطابق اس خطے میں بھارت کی نمائندگی کے بغیر ایسی کانفرنس کا انعقاد مجھے یاد نہیں پڑتا پاکستان نیشنل فورم نے کانفرنس کے فوراً بعد اس کا اعلان ہوتے ہی اجلاس میں تمام شرکاء ممالک کو مبارکباد دیتے ہوئے خصوصی طور پر افغان حکومت کو اس تاریخ ساز اقدام کو بریکنگ نیوز قرار دیا ہے۔معتبر ذرائع سے اطلاعات کا انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے اس کانفرنس میں شریک ممالک میں سے کئی ایک جن میں خاص طور پر ازبکستان اور قازقستان کا نام لیا جا رہا ہے انہوں نے شمالی افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کابل کے علاوہ امریکہ کے سیکرٹری دفاع اور پاکستان میں جی ایچ کیو کو بھی افغانستان میں مزید بدامنی پھیلنے کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ماہ رواں فروری کے آغاز میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان
AFGHANISTAN-PAKISTAN ACTION PLAN FOR PEACE AND SOLIDARITY (APAPPS)کی کانفرنس کے دوران اصلاح احوال کیلئے موثر اقدامات کی ضرورت پر خوشگوار ماحول میں گفتگو ہوئی تھی۔ اس تنظیم کے تحت کائونٹر ٹیری ازم اور موجودہ حالات میں بہتری کی طرف ضروری اقدامات فوری طور پر کرنے کیلئے مفید گفتگو ہوئی تھی۔ اس اجلاس میں پاکستان نے ایک جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے مطالبے کے علاوہ متعلقہ ممالک کے درمیان کئی اقدامات کی تجاویز دی تھیں جن میں علاقائی فوجی تعاون بھی شامل تھا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے آرمی چیف نے واضح کیاکہ افغان آرمی اور وہاں امریکن و نیٹو افواج افغان سرزمین سے پاکستان کیخلاف دہشت گردوں کے حملے بند کروانے کیلئے مزید اقدامات کو بہتر بنائیں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد افغان پناہ گزینوں اور غیر موثر سرحدی سکیورٹی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان سے دہشت گردوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ ہم دوسروں سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ اس پر عمل پیرا ہوکر پاکستان نے اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے ٹھکانے ختم کر دیئے ہیں۔ ملٹری آپریشن ردالفساد کے ذریعے بچے کچے اور چھپے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کامیابی سے جاری ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان امریکہ افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک دہشت گردی کے مکمل خاتمہ اور علاقہ میں پائیدار امن کیلئے کابل کانفرنس میں باہمی تعاون کے عزم کو جاری رکھیں۔ مختلف ذرائع سے ملنے والی خبروں سے تاثر ملتا ہے کہ امریکہ کا صدر اپنی پاکستان کے بارے میں دھمکیوں اور پابندیوں کی پالیسی پر حالات کے جبر کے تحت نرمی اور نظرثانی پر مائل ہے۔ امریکی صدر اور اس کی انتظامیہ کے سینئر ارکان کے تازہ ترین بیانات سے پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کے گزشتہ چند دنوں میں کئی مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ اس لئے پاکستان کے اندرونی پولیٹیکل حالات کو سٹرٹیجک نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے اندر مختلف واقعات کا رخ لوکل معاملات اور وقتی سیاسی و انتخابی مہم جوئی میں کھو دینے کی بجائے پاکستان کی قومی سلامتی اور آزادی کا دفاع لوکل نوعیت کی مقامی دلدل میں کھو جانے کی بجائے پاکستان کے وسیع تر اندرونی و بیرونی سٹرٹیجک ایشوز کو اولین ترجیح دینا پاکستان کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے ورنہ…