کسی بھی انسان کے خلوص کی سچائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ آپ سے کیسے ملتا ہے اور کیا چاہتا ہے؟ اس فارمولے پر کشمیریوں کو رکھیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستانیوں کے ساتھ دل کھول کر ملتے ہیں اور پاکستانیوں کی محبت کے علاوہ کچھ بھی نہیں چاہتے۔ پاکستانیوں کی طرف سے بھی ایسا ہی خلوص بھرا ردعمل کشمیریوں کو پچھلی سات دہائیوں سے مل رہا ہے۔ یعنی ’’آپ ہیں ہمارے اور ہم ہیں آپ کے‘‘۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی طرف سے جب بھی کوئی کشمیری اِدھر آجائے تو اُس کی آئوبھگت میں عام پاکستانی بھی کچھ خاص کرنے کو ہروقت تیار رہتے ہیں۔ البتہ اُدھر سے آنے والے کشمیریوں کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ سنا جائے تاکہ غلط فہمیوں اور پراپیگنڈے کے اِس طوفانی عہد میں دل اور باتیں صاف رہیں۔ تھوڑے دن پہلے حریت کانفرنس کے نامور رہنما اور جے کے سیلویشن موومنٹ کے چیئرمین ظفر اکبر بھٹ پاکستان آئے۔ گلوبل فورم فور انٹیلیکٹ اینڈ پروفیشنلز نے ظفر اکبر بھٹ کی مصروفیات میں سے کچھ وقت حاصل کیا۔ اس موقع پر نیشنل پریس کلب کے صدر طارق محمود چوہدری ، عقیل احمد ترین، محمد پرویز، بیگ راج، خالد قریشی اور محمد آصف نور نے چیف ایڈیٹروں، ایڈیٹروں، کالم نگاروں، اینکروں، رپورٹروں اور صحافیوں کو ظفر اکبر بھٹ سے اسلام آباد میں تبادلہ خیال کی دعوت دی۔ بلند آواز میں آزادی کے ترانے پڑھنے والے اِن کشمیریوں کی انسانی اقدار بھی بلند ہیں۔ بھارت کی جیل میں لمبی قید گزارنے کے بعد جب ظفر اکبر بھٹ رہا ہوئے تو وہ اپنے عزیزو اقارب کو ملنے کی بجائے سب سے پہلے جے کے ایس ایم کے سینئر اراکین کے ہمراہ جموں و کشمیر کے گوشے گوشے میں گئے اور اُن خاندانوں سے ملے جن کے افراد ظفر اکبر بھٹ کی قید کے دوران بھارتی ظلم و تشدد کے نتیجے میں شہید، زخمی، لاپتہ ہوئے یا قید میں چلے گئے۔ ظفر اکبر بھٹ کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ پُرسا کرنے کے بعد اُن کا آزادی پر یقین پہلے سے بھی زیادہ مستحکم ہو جاتا ہے کیونکہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ہاتھوں شہید، معذور، لاپتہ یا قید ہونے والے افراد کے خاندانوں کا حوصلہ پہلے سے بلند ہوتا ہے۔ ظفر اکبر بھٹ اور آزادی کشمیر کی تحریک سے جڑے ہر خاص و عام کو سن کر یہ سوچنا مشکل نہیں کہ بھارتی اہلکاروں کے پاس کشمیریوں کو آزادی سے روکنے کے لئے اذیت دینے کے طریقے پرانے ہوچکے ہیں جبکہ پرانی کشمیری نسل نئی کشمیری نسل کو آزادی کی تحریک منتقل کرچکی ہے۔ جب بھی بھارتی اہلکار کشمیریوں کو ٹارچر کرنے کا کوئی نیا طریقہ ایجاد کرتے ہیں، اُس وقت تک کشمیریوں کی نئی نسل اپنی تحریک کو بہت آگے لے جاچکی ہوتی ہے۔ انٹرنیشنل سطح پر مخصوص حالات کی وجہ سے بھارت کی سفارتکاری پاکستان سے زیادہ موثر ہے۔ اسی لئے کشمیریوں کے بہتے خون سے دنیا غافل رہنا چاہتی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر وہ واحد تحریک ہے جو دنیا کے منصفوں کے منہ موڑے رکھنے کے باوجود بھی زندہ سلامت ہے۔ یہ کشمیریوں کے عزم اور تحریک آزادی کا کمال ہے کہ اب اِس کا جادو بھارت کے سرچڑھ کر بولنے لگا ہے۔ پاکستان کی سفارتکاری میں جو حالیہ تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اُن کا فائدہ تحریک آزادی کشمیر کو بھی ملنا چاہئے۔ سفارتکاری میں حکومتی سطح کے تعلقات کے ساتھ ساتھ لوگوں سے لوگوں کے تعلقات بھی بہت اہم ہوتے ہیں۔ پاکستان کشمیریوں پر بھارتی ریاستی ظلم و تشدد اور تحریک آزادی کشمیر کے لٹریچر، دستاویزات اور فلموں وغیرہ کو چینی، روسی اور کورین وغیرہ زبانوں میں ترجمہ کرکے مذکورہ ملکوں میں خوب پھیلائے۔ اس سے چین، روس اور کوریا کے عام باشندے بھارتی جارحیت اور کشمیریوں کا موقف براہِ راست سمجھ پائیں گے۔ اس طرح اِن ممالک کے عوام میں کشمیروں کے حق کے لئے جو شعور پیدا ہوگا وہ اُن کے ممالک کی خارجہ پالیسیوں پر اثرانداز ہوگا اور یوں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو انٹرنیشنل برادری میں ایک موثر لابی میسر آجائے گی۔ تیس مار خان نظر آنے والا بھارت حریت پسند کشمیری شہداء سے بھی ڈرتا ہے۔ مثلاً حریت پسند کشمیری رہنما مقبول بھٹ کو 11 فروری 1984ء کو تہاڑ جیل میں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ بھارتی حکام نے مقبول بھٹ کا جسد خاکی لواحقین کو واپس کرنے کی بجائے تہاڑ جیل میں ہی دفنا دیا۔ ایک اور حریت پسند کشمیری رہنما محمد افضل گرو کو 9 فروری 2013ء کو اسی تہاڑ جیل میں آزادی کا الزام لگاکر پھانسی دے دی گئی۔ اُن کی قبر بھی تہاڑ جیل میں ہی بنا دی گئی۔ مقبول بھٹ اور محمد افضل گرو کے ورثاء دنیا سے کہتے ہیں کہ کم از کم انہیں اپنے عزیزوں کی تدفین کا حق تو دلوا دیں۔ مشہور امریکی رائٹر جیمز تھربر کی ایک شارٹ سٹوری ’’دی سیکرٹ لائف آف والٹر میٹی‘‘ 1939ء میں امریکی جریدے دی نیویارکر میں شائع ہوئی۔ کہانی میں بتایا گیا کہ والٹر میٹی ہروقت مہمات کی خیالی دنیا میں رہتا ہے۔ کبھی وہ تصورات میں اپنے آپ کو جنگ عظیم کا انتہائی اہم لڑاکا پائلٹ خیال کرکے جنگی معرکوں میں شامل سمجھتا ہے، کبھی وہ اپنے آپ کو انسانی زندگیاں بچانے والا انتہائی اہم ایمرجنسی سرجن خیال کرتا ہے اور کبھی وہ اپنے آپ کو بے پروا کھلنڈرا بانکا قرار دیتا ہے۔ دن میں دیکھے جانے والے انہی خوابوں کے آخر میں والٹر میٹی تصور کرتا ہے کہ وہ بڑی بہادری سے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑے ہوکر گولیوں سے چھلنی ہو گیا ہے۔ والٹر میٹی اتنا مشہور ہوا کہ وہ محاورے کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ یہاں تک کہ امریکی وزارت خارجہ میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔ والٹر آئزک سن نے 1992ء میں ہنری کسنجر کی بائیوگرافی میں لکھا کہ ’’1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران 6 اکتوبر کو امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے امریکی صدر رچرڈ نکسن کے چیف آف سٹاف جنرل الیگزینڈر ہیگ پر زور دیا کہ وہ صدر نکسن کو امریکی دارالخلافے واشنگٹن سے دور فلوریڈا میں ہی رکھیں تاکہ اُن کی طرف سے کسی بھی بے قابو دیوانگی والی کیفیت سے پیدا ہونے والی والٹر میٹی حرکتوں کو کنٹرول کیا جاسکے‘‘۔ بھارت بھی کشمیر کے حوالے سے والٹر میٹی جیسا ہی کردار ادا کررہا ہے جبکہ کشمیر ایک حقیقت ہے۔ ظفر اکبر بھٹ نے پاکستانی قلم کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ ’’کشمیریوں کی آواز دور دور تک پہنچائیں۔ تحریک آزادی کشمیر پر ہرانداز میں ہروقت لکھیں اور بات کریں‘‘۔ انہوں نے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے سوال کیا کہ ’’آزادی کے لئے کشمیری مرنے سے نہیں ڈرتے، آپ آزادی کشمیر پر لکھنے سے کیوں ڈرتے ہیں؟‘‘
بھارت ’’والٹر میٹی‘‘ جبکہ کشمیر ایک حقیقت
Feb 16, 2018