بچوں سے بدسلوکی کے بُرے اثرات اور اس سے بچائو

ڈاکٹر آصف محمود جاہ (ستارۂ امتیاز)

ٹِین ایج گائیڈ پڑھ کر ایک نوجوان بچی نے لکھا ’’میں ایک تعلیم یافتہ اور متمول گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ والد صاحب بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ والدہ کسی جگہ جاب کرتی ہیں۔ گھر میں نوکر چاکر ہیں۔ ماں چلی جائے تو نوکر ہی سارا کام کرتے ہیں۔ میری بڑی بہن نوکروں سے بہت تنگ ہے۔ شروع میں تو پتہ ہی نہ چلا معاملہ کیا ہے۔ آخر ایک دن بڑی بہن پھٹ پڑی۔ ماں کو سب کچھ بتا دیا کہ نوکر نے کیسے اپنی حدود کراس کرنے کی کوشش کی ماں کوپہلے تو یقین نہ آیا۔ حقائق معلوم کیے تو دنگ رہ گئی۔ نوکروں کو نکالا اور زیادہ وقت بچوں کو دینے لگی۔‘‘ (ایک لڑکی کا خط)جسمانی اور جنسی بدسلوکی، جذباتی بدسلوکی، جسمانی نظر اندازی، جذباتی نظر اندازی، طبی نقطۂ نظر سے نظر اندازی اور تعلیمی نظر اندازی یہ سب چیزیں بچوں کے ساتھ بدسلوکی، نظر اندازی اور برے سلوک کا احاطہ کرتی ہیں۔ تمام عمر کے بچے ان سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ کچھ نو عمر لڑکے عمومی طور پر اور نو عمر لڑکیاں خصوصی طور پر نوکروں، ٹیوٹروں یا اساتذہ اور کزنوں وغیرہ سے بدسلوکی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جب ایک دفعہ ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو دوبارہ نارمل سطح پر آنا بہت مشکل ہوتا ہے اور مجروح نہ صرف اپنی شخصیت کا توازن کھو بیٹھتا ہے بلکہ یہ چیز اس کی آئندہ زندگی پر مستقل داغ چھوڑ جاتی ہے۔ جنسی طور پر متاثرہ بچے بڑے پیمانے پر مزاج کی تبدیلی اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان تبدیلیوں میں نیند میں خلل آنا (خوفناک خواب، راتوں میں ڈرنا وغیرہ) بھوک کا غائب ہو جانا، خوف، جرم اور شرم کا احساس، گرم مزاجی اور جارحانہ انداز وغیرہ شامل ہیں۔ ان حالات میں مجروح و مضروب لڑکی پڑھائی میں دلچسپی کھو دیتی ہے اور ہرچیز سے لاتعلق ہو جاتی ہے۔ اسے اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ بعض زیادہ حساس تو شرم کے مارے خودکشی بھی کرلیتی ہیں۔
ایسی صورتِ حال سے کیسے نپٹا جائے؟
۰ اگر آپ اپنی ٹین ایج کے دوران کسی قسم کی جنسی بدسلوکی کا شکار ہوئے ہوں تو یہ چیز ذہن نشین رکھیں کہ ایک معصوم بچے کی حیثیت سے آپ کو ایسی صورتِ حال کی طرف زبردستی دھکیلا گیا تھا جس میں آپ کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اپنے اندر سے شرم اور جرم کے احساسات کو مٹا دیں حتیٰ کہ یہ سب اگر آپ کی مرضی سے بھی ہوا تو ایک نوعمر لڑکی کی حیثیت سے آپ اس وقت اس پوزیشن میں نہیں تھیں کہ صورتِ حال کا صحیح ادراک کر پاتیں اور اس کے مطابق عمل کرتیں۔ جو بیتا اسے قصۂ پارینہ سمجھیں۔ حوصلہ کریں اور ہر بات اپنی امی کویا پھر خاندان میں جو بہت قریب ہو اسے بتا دیں جو اس صورتِ حال کا کوئی مناسب حل تلاش کرے گا اور اس نازک اور پریشان کن صورتِ حال میں آپ کی بہتر رہنمائی کرے گا۔ جو ہوا سو ہوا اب آپ کی کوشش ہونا چاہیے کہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ کبھی نہ ہو اور کوئی اور آپ کی معصومیت اور نوجوانی سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ گزری ہوئی بات کو بھول جانے کی کوشش کریں اور ایسی تمام باتوں کو ذہن سے جھٹک دیں جن میں آپ کی مرضی اور کردار شامل نہیں تھا۔
-2 اپنے مسائل ہمیشہ اپنی فیملی کے لوگوں سے بیان کریں۔ ان کی خوشیوں اور غموں میں بھرپور حصہ لیں اور ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کوشش کریں۔ اس طرح آپ ان گزرے ہوئے تکلیف دہ واقعات کو بھلانے کے قابل ہو سکتی ہیں۔
-3 اپنے آپ کو تعمیری کاموں میں مصروف کرلیں۔ سوشل ورک میں حصہ لیں۔ غریبوں اور ناداروں کی مدد کریں۔ کوئی اچھا مشغلہ اپنا لیں۔ یہ مطالعہ، پھولوں، درختوں، تتلیوں، جانوروں اور دوسری چیزوں کے بارے میں ہو سکتا ہے۔ بہت سی دلچسپیاں رکھنا بہت اچھی بات ہے۔ جب آپ اکیلی ہوں اور بہت افسردگی اور بوریت محسوس کر رہی ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو دلچسپی کی اور بھی چیزیں چاہئیں۔ یہ دلچسپیاں اور مشغلے آپ کو مشغول اور گزشتہ تلخ یادوں سے دور رکھیں گے۔ جب آپ کسی غریب اور ضرورت مند کی مدد کریں گی تو آپ کو روحانی خوشی حاصل ہوگی اور آپ اپنا مسئلہ بھول جائیں گی۔
-4 اگر گھر میں جوان مرد ملازم ہوں تو آپ ان سے دور رہیں۔ انہیں کبھی بھی اپنے ساتھ گھلنے ملنے کی اجازت نہ دیں۔ اپنے کام سے کام رکھیں اور بِلا ضرورت کسی کو اپنے کمرے میں گھسنے نہ دیں۔ جب والدین یا کوئی بڑا گھر میں نہ ہو تو ان لوگوں کو گھر میں آنے کی بالکل اجازت نہیں ہونا چاہیے۔ ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر کوئی ملازم آپ کے کنٹرول میں نہ ہو تو اس کے بارے میں فوراً اپنے والدین کو بتائیں تاکہ فوری طور پر اس پر قابو پایا جاسکے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ سکول/ کالج جاتے ہوئے ڈرائیوروں کے ساتھ بھی سرد مہری برتی جائے۔ غیر ضروری گفتگو سے مکمل پرہیز کیا جائے اور کبھی ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر نہ بیٹھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ کبھی بھی بدتمیزی نہ کی جائے بات بات پہ ڈانٹ ڈپٹ اور جھاڑ پلانے سے پرہیز کیا جائے۔
-5 انسانی ہمدردی کے ناطے اپنے ملازمین کے مسائل حل کرنے کی کوشش ضرور کریں۔
-6 شاپنگ وغیرہ کے لیے ڈرائیور کے ساتھ اکیلے جانے سے ممکنہ حد تک پرہیز کریں۔ والدین مصروف ہوں تو اپنے بھائی کو ساتھ لے لیں۔ اکیلے جانے کی بجائے بڑی بہن یا کسی اور دوست کو ساتھ لے جانا بہتر ہے۔
-7 آپ کو خدا کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جس نے آپ کو ایک خاص فرد اور خوبیوں سے مالا مال بنا کربھیجا ہے کیونکہ آپ اس دنیا میں ایک خاص مقصد کے لیے وارد ہوئی ہیں۔ اپنے آپ کو پہچانیں اور زندگی کی خوبصورتیوں میں شامل ہو کر ان کا بھرپور لُطف اٹھائیں۔
والدین کا کردار:
-1 والدین کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ اس نازک موڑ پر اپنے بچوں کی بہتر راہنمائی کریں۔ اگر والدین اپنی بچی میں کوئی غیر معمولی تبدیلی دیکھیں تو ماں کو چاہیے کہ بچی کو اعتماد میں لے۔ اگر آپ ایسا کر پائیں تو بچی اپنے تمام مسائل آپ کے سامنے رکھ دے گی اور جو کچھ ہوا ہے وہ سب آپ کو بتا دے گی۔ ماں کو چاہیے کہ بچی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار کر اس کی جسمانی اور ذہنی تکالیف کو کم کرنے کی کوشش کریں اور اس کی ہر طرح سے مدد کریں لیکن یہ خیال رہے کہ کسی بھی طور پر نو بالغ بچی کی عزتِ نفس اور خودی مجروح نہ ہو۔
-2 یہ بہت ضروری ہے کہ تمام مرد کزنوں اور ٹیوٹروں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ بچی کو ان سے آزادانہ ملنے جلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک حد مقرر ہونی چاہیے۔ ماں کو چاہیے کہ وہ وقتاً فوقتاً ٹیوٹر اور کزنز وغیرہ کو چیک کرتی رہے۔ کزنز اور ٹیوٹرز کی نوجوان لڑکیوں سے جنسی بدسلوکی کے واقعات روز ہوتے رہتے ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کو ٹیوٹرز سے پڑھاتے وقت آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ پڑھائی کے دوران فیملی کا ایک فرد ساتھ بیٹھا ہو۔
-3 اگر والدین کو لڑکیوں کے بارے میں کسی قسم کے غلط میل جول کی اطلاع ملے تو انہیں چاہیے کہ پہلے معاملے کی تحقیق کریں اور فوری طور پر بچی کو ملامت کرنے یا ڈانٹنے کی بجائے اس کو اعتماد میں لے کر آرام سے سمجھائیں اور قائل کریں کہ وہ ان تمام باتوں سے احتراز کرے جو آئندہ زندگی میں خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ مشفقانہ اور دوستانہ رویہ ان میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے دل کا حال اور اپنے ساتھ بیتنے والے تمام معاملات والدین کے ساتھ شیئر کرتے ہیں اور یوں والدین کی توجہ اور رہنمائی کی وجہ سے بدسلوکی اور اس کے بداثرات سے محفوظ رہتے ہیں۔
-4 بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے قریبی عزیزوں، ٹیوٹروں، گھریلو ملازموں کے ہاتھوں زبردستی جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نوجوان نے ہمیں خط لکھا۔ وہ زمانۂ طالب علمی میں اپنے ایک دوست کے ہاتھوں کافی عرصہ تک جنسی تشدد کا شکار رہا جس کی وجہ سے اب اس کی شخصیت بالکل مسخ ہو کر رہ گئی ہے۔ اعتماد باقی نہیں رہا۔ ہر وقت اپنے آپ کو ناپاک اور گناہگار تصور کرتا ہے۔ پڑھائی میں دل نہیں لگتا۔ ہر وقت پریشانی طاری رہتی ہے۔ اس لیے والدین کے لیے ضروری ہے کہ ان سب پر عموماً اور مرد ملازمین پر کڑی نظر رکھی جائے۔ بچوں اور بچیوں کے ساتھ انہیں گھلنے ملنے کی کھلی آزادی نہ دی جائے۔ ان میں سے کسی کو کسی حالت میں بھی نوجوان لڑکی کے کمرئہ میں اکیلے جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پرانے ملازمین خاندان کا اعتماد حاصل کر کے اور جوان لڑکیوں سے آزادانہ میل جول رکھ کر بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ چند دن پہلے ایک نوجوان لڑکی نے بتایا کہ اس کے خاندانی ملازم کا جوان بیٹا اسے پچھلے کئی ماہ سے جنسی تشدد سے ہراساں کر رہا ہے اور جب اس نے اس کے بارے میں اپنی والدہ سے ذکر کیا تو وہ الٹا اس بچی پر ناراض ہوئیں کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا، وہ ہمارا خاندانی ملازم ہے۔ ان حالات میں بطور والدین یہ آپ کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کو ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے پیش بندی کریں۔ چاہے کوئی پرانا خاندانی ملازم ہو یا بڑی عمر کا قریبی رشتہ دار، اپنی بچی کے سلسلے میں کسی پر بھی اندھا اعتماد نہ کریں۔ نوجوانی کے عالم میں ’’جذباتی ہلچل‘‘ اور فحاشی و عریانی کے عام ہونے کے سبب کوئی بھی بھٹک سکتا ہے جس کے نتیجے میں نوجوان اور بے گناہ بچی کی زندگی خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے والدین کے لیے ضروری ہے کہ چاہے آپ جتنے بھی روشن خیال ہوں، اپنی جوان بچیوں کا خاص خیال رکھیں اور کسی کو ان کی زندگی کے اس نازک دور میں پریشان کرنے کی اجازت نہ دیں اور نہ کسی کو بلاوجہ ان کے قریب پھٹکنے دیں۔ گھریلو ملازمین پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے ساتھ نرم رویہ رکھا جائے۔ ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھا جائے اور جائز مسائل حل کرنے میں پورا تعاون کیا جائے۔
-5 والدین کو اپنے چھوٹے اور ٹین ایج بچوں کے بارے میں اپنوں پر بھی اندھا بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ بچوں کے اغوا اور زیادتی کے بہت سے واقعات میں قریبی عزیز اور رشتے دار ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ واقعات والدین کو خبردار کرتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ ممکنہ حادثے سے بچنے کے لیے اپنے بچوں کو ذہنی طور پر تیار کریں۔ چند چھوٹی چھوٹی بنیادی باتیں بچوں کے ذہن نشین کرا کر ان معصوموں کی زندگیاں محفوظ بنائی جا سکتی ہیں۔ بچوں کو ہمیشہ تاکید کریں کہ اگر کوئی انہیں ٹافی یا کھانے پینے کی چیزیں دے تو انکار کر دیں۔ گاڑی میں بیٹھا کوئی شخص یا عورت اگر اشارے سے پاس بلائے تو اس کے قریب نہ جائیں۔ بچوں کو ہلکے پھلکے انداز میں سمجھائیں کہ اگر کوئی پڑوسی، سکول وین کا ڈرائیور، کلاس ٹیچر، چوکی دار، محلے کا دکان دار یا رشتے دار انہیں بار بار چھونے، گود میں لینے چومنے یا بلا ضرورت بات چیت کرنے کی کوشش کرے تو فوراً امی یا ابو کو بتائیں۔ بچے ناسمجھ ہوتے ہیں، انہیں ان چیزوں کا شعور نہیں ہوتا لیکن اگر والدین انہیں سمجھائیں گے تو وہ ایک بڑی تباہی سے بچ جائیں گے۔ بعض بچے اپنے والدین کو ان مشکوک حرکات کے بارے میں بتانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ماں باپ اُن کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ یہ وہ خطرناک لمحہ ہوتا ہے جس میں والدین اپنے معصوم بچوں کی باتیں نظر انداز کر کے انہیں حالات کے رحم و کرم پر اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر ساری زندگی پچھتاوا اُن کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ بار بار دل میں یہی خیال آتا ہے کہ کاش وہ اپنے بچے کی بات سنجیدگی سے سنتے تو ان کا لختِ جگر آج ان کے سامنے ہنستا کھیلتا ہوتا۔ اپنے بچے کے بڑی عمر کے دوستوں پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ ہو سکے تو انہیں بڑے بچوں کے ساتھ ملنے یا کھیلنے سے منع کر دیں۔ بعض بچے والدین کے ناروا سلوک اور تشدد سے دل برداشتہ ہو کر خود ہی گھر چھوڑ دیتے ہیں اور انسان نما درندوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گمشدہ ٹین ایج بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے، جو خود سے ہمیشہ کے لیے گھر چھوڑ دیتی ہے۔ اس میں سب سے بڑے قصور وار والدین ہوتے ہیں، جن کے لڑائی جھگڑوں، تشدد اور بے وجہ ڈانٹ ڈپٹ سے تنگ آ کر بچے گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔ گھروں سے بھاگنے والے بچے اس کے بھیانک نتائج سے لاعلم ہوتے ہیں۔ یوں بہت سے بچے بھکاری مافیا اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جو انہیں اپاہج بنا کر زندگی بھر کے لیے معذور بنا دیتے ہیں۔ جو والدین اپنی اولاد کو معمولی غلطیوں پر بڑی سزا دیتے ہیں، ان کے بچوں میں بھاگنے کا تناسب سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ والدین کو اس چیز کا تدارک پہلے سے کر لینا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اجنبیوں سے بات کرنے اور قریبی رشتے داروں کی غلط حرکتوں کے بارے میں چوکنا رکھیں۔
-6 گھر کے تمام افراد کو چاہیے کہ اپنے دن کا آغاز صبحِ صادق سے کریں اور نماز اور تلاوتِ قرآن سے فراغت کے بعد ناشتہ ایک ساتھ کریں۔ آپس میں تبادلۂ خیال کریں۔ ایک دوسرے کے معاملات میں دلچسپی لیں۔ ایسا کرنے سے پورا دن ذہنی یکسوئی کے ساتھ آرام اور سکون سے گزرے گا بلکہ اہلِ خانہ کی محبت سے سرشار ہونے کی وجہ سے دلی سکون اور اطمینان حاصل ہوگا۔ یہی اہتمام اگر رات کے کھانے میں بھی کیا جائے اور اہلِ خانہ کے مسائل میں دلچسپی لی جائے تو گھر کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ فیملی ممبرز کا آپس میں چھوٹے موٹے تحائف کا تبادلہ بھی اہم ہے۔ ہم عموماً گھر سے باہر اپنے اطراف کے لوگوں کے لیے تو بہت مہنگے تحائف خریدتے ہیں لیکن گھر والوں کے لیے ایک عام سی چیز تحفتاً خریدنا بھی فراموش کر جاتے ہیں۔ آج کے دور کا سب سے خوبصورت تحفہ اپنی زندگی میں سے کچھ وقت اور توجہ اپنے پیاروں کو دینا ہے۔ اپنے پیاروں کو اپنی گوناگوں مصروفیات سے تھوڑے سے وقت، توجہ اور ہمدردی کا انمول تحفہ دیجیے۔ اپنی شخصیت میں تبدیلی لائیے۔ غیر ضروری الجھنوں اور عادتوں کو خود سے نوچ پھینکیں۔ وقت کو اپنے ہاتھ میں لیجیے۔ اپنے پیاروں کو ساتھ لیتے ہوئے اپنی زندگی کو پریشانیوں کی ڈگر سے ہٹا کر خوشیوں کے راستے پر ڈال دیجیے۔ ایسا کرنے سے آپ بھی سکون سے رہیں گے اور آپ کے ٹین ایجر لڑکے اور لڑکیاں بھی پُراعتماد اور کامیاب زندگی گذار کر میدانِ عمل میں آئیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...