کالم کا عنوان پڑھکر قارئین سمجھیں گے کہ پشاور زلمی نے کوئی بہت بڑا ظلم ڈھایا ہے جس پر کالم لکھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ سنجیدہ موضوعات اور سخت الفاظ میں لکھتے لکھتے کبھی ذائقہ بدل لیا جائے تو حرج نہیں۔
ان دنوں پاکستان سپر لیگ کا دور ہے ہر طرف سپر لیگ کی گہما گہمی ہے۔ تمام فرنچائز عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مختلف پروگرامز کا انعقاد کررہی ہیں۔ کہیں نئی کٹ لانچ کی جا رہی ہے تو کہیں نغمے جاری کرنے کا فنکشن ہو رہا ہے تو کہیں پریکٹس اور نمائشی میچوں کے ذریعے ماحول بنانے کی کوشش جاری ہے۔
پشاور زلمی کا شمار پاکستان سپر لیگ کی کامیاب فرنچائز میں ہوتا ہے یہ دفاعی چیمپیئن بھی ہیں اور سال بھر انکی کہیں نہ کہیں کوئی نہ سرگرمی ضرور چل رہی ہوتی ہے چونکہ جاوید آفریدی کاروباری شخصیت ہیں۔انہیں کرکٹ کی سرگرمیوں کے ذریعے کاروباری سرگرمیوں کا بھی موقع ملتا ہے بذریعہ کرکٹ شہرت اور عزت ملتی ہے تو ایسے کاموں میں دلچسپی بڑھنا فطری عمل ہے۔ گذشتہ دنوں انہوں نے آفیشل کٹ کی لانچنگ تقریب کا انعقاد کیا اس پروقار تقریب میں کرکٹرز اور شوبز کے ستاروں نے رنگ جمایا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین نجم سیٹھی سابق چئیرمین شہریار خان اور ایشین بریڈ مین ظہیر عباس سمیت دیگر نامور شخصیات تقریب کی رونق کو بڑھانے کے لیے موجود تھیں۔ نجم سیٹھی نے حالات حاضرہ کے مطابق جاندار تجزیہ کرتے ہوئے جاوید آفریدی کو سب سے بہترین فرنچائز مالک قرار دیکر میلہ تو لوٹا لیکن دیگر فرنچائز مالکان کے سینے پر تو سانپ لوٹنے لگے ہونگے۔ قلندرز کہہ رہے ہونگے یہ جو ہم سارا سال کھپتے رہتے ہیں یہ کس کھاتے میں جائے گا۔ ہم نے سارے پاکستان کو مست قلندر بنا دیا ہے اور سیٹھی صاحب نے جاوید کو سب سے اچھا فرنچائز مالک قرار دیکر ظلم نہیں تو اور کیا کیا ہے بھلا، اسلام آباد یونائیٹڈ والوں کی بھی حالت کچھ مختلف نہیں ہو گی وہ جو پودے لگا رہے ہیں نوجوانوں کو مواقع دے رہے ہیں، بیرون ملک پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں تو انہیں نچلے درجے ہر رکھ کر چئیرمین پی سی بی نے ظلم کی داستان ہی رقم کی ہے۔ کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز والے نے بھی اپنے اپنے علاقوں میں احتجاج تو ضرور کیا ہو گا۔
رہی بات ظلم کی تو نجم سیٹھی نے ظلم تو کیا ہے پاکستان دشمن طاقتوں اور قوتوں پر وہ جو چاہتے تھے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ بحال نہ ہو، ملک میں کھیلوں کے ویران میدان ویران ہی رہیں یہاں جانور اچھلتے کودتے رہیں، خوشیاں ہم سے روٹھی اور دور رہیں، آج ان تمام طاقتوں کو مروڑ تو اٹھتے ہیں ان سے یہ ظلم برداشت بھی نہیں ہو رہا ہو گا لیکن ہماری درخواست ہے ملک دشمن طاقتوں پر ایسے ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں اور یہ نیک عمل‘ بلکہ عملیات جاری رکھے جائیں۔ اس ظلم میں تمام فرنچائز مالکان برابر کے شریک ہیں بلکہ بورڈ کے اس سے بڑھکر ظلم کیے جانے کی کوشش پر بھی ہم راضی ہیں۔
ملک دشمنوں پر ڈھائے جانیوالے اس ظلم میں پاکستان کے عوام بہت خوش ہیں، پاکستان کے ہر عمر کے کرکٹرز بہت خوش ہیں، میڈیا بہت خوش ہے، خواتین کو بھی خوشی ہے شوبز والوں کی خوشی کی تو انتہا نہیں ہے انہیں تو ناچنے گانے کا ایک اور موقع میسر آیا ہے۔ اس ظلم ظلم کے کھیل میں فرنچائز مالکان نے روزانہ کی بنیاد پر کام کرنیوالے صحافیوں پر بھی ظلم ڈھانا شروع کر دیا ہے۔ اب زلمی کے فنکشن کو ہی لے لیں ہر دلعزیز سید امجد محمود فلکی نے فیس بک پر سٹیٹس دیا "بڑی ٹھنڈ ہے اوپن ائیر میں" یہ بھی لکھا ہے کہ فنکشن میں خاصے مسائل تھے۔
اسکے نیچے سپورٹس جرنلسٹ آفتاب تابی نے لکھا کہ "ٹھنڈ اوپر سے فاقہ" کرکٹ رائٹر فرحان نثار نے لکھا ہے کہ "میڈیا فاقے کے بعد خاموش ہے" ہمیں ساتھی رپورٹر چودھری اشرف نے بھی زلمی کے فنکشن میں ہونیوالی ظالمانہ کارروائیوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ہم مصلحتا اس ظلم کو تاریخ کا حصہ نہیں بنا رہے۔ قلندرز کے بارے میں بھی ایک تاثر ضرور ہے کہ وہ بھی کہیں کہیں میڈیا نمائندگان پر ظلم کرتے ہیں شاید اس وجہ سے کہ انہیں ایک بڑے میڈیا گروپ پر کوریج مل جاتی ہے اس لیے انہیں زیادہ ضرورت نہیں رہتی۔ سینئر سپورٹس جرنلسٹ عالیہ رشید کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ ضرور ہے کہ کسی ایک میڈیا ہاؤس کے ساتھ جڑنے سے کام کرنیوالے دیگر افراد کو مسائل کا سامنا ہوتا ہے لیکن یہ دو طرفہ ہے فرنچائز مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ فاصلوں کو کم کریں اور صحافیوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس قید کو ختم کریں کسی ایک گروپ کی پارٹنر شپ کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ باقی لوگ ان سے دور رہیں یہ مسئلہ ضرور ہے اور سب کو مل کر اس جھجھک اور فاصلوں کو ختم کرنا ہے۔ سینئر سپورٹس جرنلسٹ شاہد ہاشمی کا کہنا ہے کہ جانبداری تو ضرور ہے من پسند افراد کی ہر جگہ رسائی ہوتی ہے اور یہ ظلم ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ مختلف فرنچائز مالکان کے ساتھ میڈیا ہینڈلنگ وہ لوگ کر رہے ہیں جو بطور صحافی بھی کسی نہ کسی ادارے سے منسلک ہیں ان حالات میں جانبداری کیسے نہیں ہو گی ہم نے ویوین رچرڈز کے انٹرویو کے لیے کوشش کی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز انتظامیہ نے بندوبست نہیں کیا لیکن ایک انگریزی روزنامے میں انکا انٹرویو شائع ہو گیا کیونکہ وہ صحافی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ساتھ منسلک تھا۔ ملتان سلطان اور کراچی کنگز نے غیر جانبدار افراد کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ سبکو یکساں موقع مل سکے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں پالیسی بنائے کہ کوئی صحافی کسی بھی فرنچائز کا میڈیا مینجر نہ بنے۔ صحافی کو صحافت کرنی چاہیے نہ کہ میڈیا مینجر بننا ہے یہ ظلم نہیں تو کیا ہے۔
یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے صحافیوں کے دوست فرنچائز کا حصہ بن کر اپنے ہی ساتھیوں پر ظلم کر رہے ہیں تاریخ میں یہ سارے واقعات درج ہو رہے ہیں۔ مزاح کرتے کرتے شاہد ہاشمی نے سنجیدہ بات کی ہے کہ کرکٹ بورڈ پی ایس ایل فرنچائز میں میڈیا مینجرز کی تعیناتی کے حوالے سے قوانین وضع کرے۔
پشاور زلمی کٹ لانچنگ فنکشن میں کئی مسائل تھے اسی طرح دیگر فرنچائز کی تقریبات میں بھی مسائل تو رہتے ہیں اور صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنیوالوں کو انکا سامنا بھی رہتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ فریقین ایک دوسرے پر ظلم کرنے کے بجائے ذاتی مفادات اور پسند نا پسند کی قید سے آزاد ہو کر کام کریں۔ کسی میڈیا گروپ کی پارٹنر شپ کا مطلب یہ نہیں کہ باقی سب لوگوں کو کھڈے لائن لگا دیا جائے اگر دوسروں نے ایسا رویہ اپنایا تو مسائل بہت بڑھ جائیں گے۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
دل آزاری کے لیے پیشگی معذرت ہے سخت جملوں کو مزاح کے طور پر ہی لیا جائے۔