کم وبیش دو اڑھائی سال بعد ’’وزیر اعظم ہائوس ‘‘ سے بلاوا آیا کہ وزیر اعظم عمران خان ’’بیٹ رپورٹرز ‘‘ کی پہلی کھیپ سے ملاقات کرینگے جمعہ کا دن تھا۔ اسی روز ترک صدر رجب طیب اردگان بھی پاکستان کے دورہ پر آئے ہوئے تھے۔ ہماری وزیر اعظم سے ملاقات سے قبل ترک صدر کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی تھا اسکے علاوہ ترک صدر کی مصروفیات نے اخبارنوسیوں کیلئے بھی ’’مصروف ترین ‘‘ دن بنا دیا تھا۔ میں حیران تھا وزیر اعظم پاکستان نے بیٹ رپورٹرز سے ملاقات کیلئے اس دن اور دوپہر ایک بجے کا انتخاب کیوں کیا جب ان کا ’’مہمان خاص ‘‘ پاکستان آیا ہوا تھا وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران گرد و نواح کی مساجد سے جمعہ کی نماز کیلئے اذانیں بھی ہمارے اضطراب و بے چینی میں اضافہ کا باعث بن رہی تھیں نواز شریف کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ’’وزیر اعظم ہائوس ‘‘ ویران پڑا عمران خان نے ابتدا میں وزیر اعظم کے ملٹری سیکریٹری کی رہائش گاہ میں قیام کا پروگرام بنایا لیکن وہ جلد ہی بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ منتقل ہو گئے۔
وزیر اعظم ہائوس کو ایک اعلی درجے کی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا گیا پھر اس بارے میں کئی اجلاس بھی ہوئے لیکن وزیر اعظم ہائوس جدید ترین یونیورسٹی بن سکا اور نہ ہی اس کی ہیئت تبدیل ہوئی ۔ عمران خان بھی وزیر اعظم ہائوس کی ’’ویرانی ‘‘ نہ دیکھ سکے انہوں نے اپنی دن بھر کی سرکاری مصروفیات کیلئے وزیر اعظم ہائوس کا وہی استعمال شروع کر دیا جس کیلئے یہ پر شکوہ رہائش گاہ بنائی گئی پھر اسی گھر میں غیر ملکی مہمانان خاص کو ٹھہرایا جانے لگا ‘ انکے اعزاز میں ضیافتوں کا اہتمام کیا جانے لگا انہوں نے ہم سے اسی خزاں زدہ لان میں ملاقات کی جہاں وہ وہ دیگر ملاقاتیوں کو ’’شرف ملاقات‘‘ بخشتے ہیں وزیر اعظم سے ملاقات سے قبل وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ، شہباز گل ، پریس سیکرٹری شاہیرہ شاہد ، ڈپٹی سیکرٹری پریس سرفراز حسین ، فیصل الیاس اور عرفان اشرف موجود تھے ۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اپوزیشن سے چو مکھی لڑائی لڑنے کی شہرت رکھتی ہیں۔ صبح محاذ کھولتی ہیں اور رات گئے تک عمران خان کے مخالفین سے دو دو ہاتھ کرتی رہتی ہیں سرفراز حسین کا چوہدری نثار علی خان جیسے سخت گیر وزیر کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے لہذا وہ عمران خان جیسے سخت گیر وزیر اعظم کے ساتھ خوش اسلوبی سے اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں۔
وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ میرا خیال تھا کہ پچھلے کئی سال بعد ان سے ہونیوالی ملاقات میں مجھے ان سے تعارف کی ضرورت پیش آئیگی لیکن مجھے ان کی یادداشت پر حیرت ہوئی کہ انہیں اپنی پالیسیوں کے ’’ناقد‘‘ کا نام نہ صرف یاد ہے بلکہ انہوں نے 24سال قبل اپنے سیاسی سفر کے آغاز پر راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب میںمیری دعوت پر میٹ دی پریس پروگرام میں شرکت کا برملا ذکر کیا اور کہا کہ میں آپ کو کیسے بھلا سکتا ہوں ۔ پچھلے ڈیڑھ سال کے سرد گرم موسم اور سیاسی افق پر تبدیلیوں کی افواہیں عمران خان کے ’’لب و لہجہ پر کس حد تک اثر انداز ہوئے ہیں میں انکی ’’باڈی لینگوئج ‘‘ سے اندازہ لگانے میں کامیاب نہیں ہوا ان کا پر اعتماد لب و لہجہ اس بات کی عکاسی کر رہا تھا کہ وہ صورتحال کے گھمبیر ہونے سے فکر مند دکھائی نہیں دیئے۔
میں نے گفتگو کا کا رخ تبدیل کرنے کیلئے وزیر اعظم پر سوال داغ دیا ’’جناب وزیر اعظم ! آپ حالت جنگ میں ہیں اپوزیشن سے آپکی نہیں بنی اپوزیشن آپ کی حکومت گرانے کیلئے کوشاں ہے جبکہ آپ اپوزیشن کو فکس اپ کرنا چا ہتے ہیں اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’جنگ و جدل ‘‘ کی صورت حال رہی تو آپ کی حکومت کس طرح اپنی آئینی مدت مکمل کرلے گی۔ وزیر اعظم نے میرے سوال کا جواب قدرے اطمینان سے دیا لیکن انکے لب و لہجہ میں قدر ے تلخی آگئی انہوں نے میرے سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمنٰ کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ مولانا فضل الرحمنٰ میری حکومت گرانے آئے تھے ان سے کوئی پوچھے کہ وہ کس کے اشارے پر اسلام آباد آئے اور کس کی یقین دہانی پر واپس گئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ’’جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ کے بیان پر ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ ہونا چاہیے ابھی تک فواد حسین کی تجویز مجھ تک نہیں پہنچی۔ دیکھنا یہ ہے ہم نے مولانا فضل الرحمنٰ کے بیان پر کیا کرینگے جب میں نے ان سے بار بار پوچھا وہ ان کے خلاف کیا کرینگے توانہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی اور خاموشی اختیار کر لی انہوں نے میرے بال پر چھکا تو لگا دیا لیکن وہ میری وکٹ پر مزید کھیلنے کے لئے تیار نہیں تھے اس لئے انہوں نے مولانا فضل الرحمنٰ کے خلاف مزید کوئی بات کہنے سے گریز کیا کیونکہ وہ اپنے بیان کی سنگینی کی نوعیت سے آگاہ ہو گئے تھے کیونکہ جوں ہی ان کا بیان ایکٹرانک میڈیا کی زینت بنا تو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مولانا فضل الرحمن کے خلاف وزیر اعظم کے بیان کی باز گشت سنائی دی اپوزیشن کی جانب سے شدید رد عمل پر حکومت نے پسپائی اختیار کر لی ۔ قومی اسمبلی میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ حکومت مولانا فضل الرحمنٰ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ وزیر اعظم نے محض ایک سوال کے جواب میں بات کہی ہے بہر حال جواب دینا ہوگا کہ کس نے ان کو یقین دہانی کرائی تھی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
مولانا فضل الرحمنٰ کو کس نے یقین دہانی کرائی ؟ اسی طرح کی یقین دہانی پر 2014 ء میں نواز شریف حکومت گرانے کیلئے عمران خان نے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے 126دن دھرنا دیا تھا ۔بہرحال عمران خان نے کہا کہ جب ملکی معیشت نے سر اٹھایا تو مولانا فضل الرحمان کا دھرنا آگیا جس نے نہ صرف کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا بلکہ غیر یقینی کی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی۔ میں نے وزیر اعظم کے لہجے میں تلخی کو محسوس کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک کھلاڑی میں برداشت ہوتی ہے۔ لگتا ہے آپ میں برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے ‘‘ تو انہوں نے کہا کہ میری ذات پر جتنی تنقید کرلیں لیکن ملک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے ۔ جہاں ملک کی بات ہو گی۔ کوئی کمپرومائز نہیں کروں گا ۔انہوں نے نوید سنائی کہ عام انتخابات کی شفافیت کے بارے میں ’’کل کل ‘‘ ختم کرنے کیلئے انتخابی اصلاحات لا رہے ہیں نئے انتخابی قوانین لے کر آئیں گے الیکٹرانک ووٹنگ اور بائیو میٹرک سسٹم کو لازمی قرار دینگے۔ سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے نہیں ہونگے اور’’ شو آف ہینڈز‘‘ سے سینیٹ الیکشن کا قانون لائیں گے ہم نے اپنے 20 ایم پی ایز کیخلاف کارروائی کی ۔ فری اینڈ فیئر الیکشن کو یقینی بنانے کیلئے قانون سازی کرینگے۔ انہوں نے بڑے زور دار انداز میں کہا کہ ’’ میں کرپٹ نہیں جو کرپشن کرتے ہیں انہیں فوج کا ڈر ہوتا ہے کیونکہ ایم آئی اورآئی ایس آئی کے پاس انکی کرپشن کے ثبوت ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنی گفتگو کے آغاز میں پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کی بھیانک تصویر پیش کی اور کہا کہ پچھلی حکو مت ملک کو ایسی حالت میں چھوڑ کر گئی تھی کہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہماری مدد نہ کرتے تو پاکستان میں ڈالر 225 روپے سے زائد کا ہوا کا ہوتا۔ پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا لیکن ہم نے ملکی معیشت کو درست سمت میں لانے کیلئے مشکل فیصلے کئے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں آٹا بحران اور چینی بحران میں جہانگیر ترین اورخسرو بختیار کو کلین چٹ دے دی انہوں نے اپنی کم تنخواہ کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ’’ دنیا میں سب سے کم تنخواہ پانے والا وزیر اعظم ہوں اسی تنخواہ میں گذارہ کر رہا ہوں، اپنا سارا خرچہ خود برداشت کرتا ہوں انہوں نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ ’’ فوج میرے ساتھ کھڑی ہے، حکومت اور فوج میں کوئی تناؤ نہیں‘‘ ملاقات کے دوران میڈیا پر عائد کی جانے تازہ ترین پابندیوں کے حوالے سے بھی انہیں تند و تیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا جس پر انہوں نے کہا ’’میرا میڈیا سے 40 سال کا تعلق ہے، میں نے ہی پرویز مشرف کو ٹی وی چینلز کھولنے کا مشورہ دیا تھا‘ ٹی وی چینلز کھلنے کا سب سے زیادہ فائدہ بھی میں نے ہی اٹھایا۔ لیکن پچھلے ڈیڑھ سال سے مجھ پر ذاتی حملے کئے جارہے ، کون سے جمہوری ملک میں وزیراعظم کو اس طرح نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن مجھے پمرا سے انصاف نہیں مل سکا وزیراعظم نے کہا میں اپنا سارا خرچہ خود برداشت کرتا ہوں، یہ بات قابل ذکر ہے وزیر اعظم ہائوس میں عمران خان سے دوپہر ایک بجے صحافیوں سے چائے کے ایک کپ ہونے والی ملاقات میں بھی ان کی کفایت شعاری مہم کا منہ بولتا ثبوت تھا انہوں نے بتایا کہ جب ہم اقتدار میں آئے تو ساڑھے 19 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاؤنٹس خسارہ تھا،اگر کرنٹ اکائونٹس خسارہ زیادہ ہو تو حالات خراب رہتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان سے 45منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات اچانک ختم کر دی گئی کیونکہ ان کے سٹاف نے ان کی اگلی مصروفیت کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا ۔