’’اور لوگوں سے بھلی بات کہو‘‘

آج کی اس تیز رفتار ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی دُنیا میں جہاں انسان کو پہلے سے برعکس ایک دوسرے سے تیز رابطے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ وہیں ایک مہذب اور فلاحی معاشرے میں انسانوں کا آپس میں میل جول، مختلف تہذیبوں ، زبانوں، ذات پات ، رنگ و نسل پر مشتمل ہونے کی بناء پر ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ آج کی اِس دُنیا کو بجا طور پر ہم "گلوبل ویلج" بھی کہتے ہیں جہاں رابطو ںکیلئے جدید اور تیز رفتار سفر کی سہولتیں موجود ہیں ۔ وہیں ٹیکنالوجی پر مشتمل ہم جوAndroidفونز اور دوسرے آلات(Gadgets) استعمال کر رہے ہیں وہ ہمیںدُنیا کی ہر تہذیب ، کلچر، مذہب ، رنگ و نسل اور روایات کی معلومات ایک فنگر ٹپ (انگلی کی پور)کے حرکت کرنے پر ہمارے سامنے لے آتے ہیں۔ سوشل میڈیا / فیس بک/ ٹویٹر اور واٹس ایپ پر ہم ہزاروں ، لاکھوں میل دورہونے کے باوجود ایک سیکنڈ کے اندر اپنی معلومات کا ایک دوسرے سے اور ہزاروں ، لاکھوں افراد سے تبادلہ کرتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ جو بات بھی کی جائے وہ تہذیب و تمدن ، مذہب و اخلاق ، علاقائی روایات اور رسم و رواج کے مطابق ہو ۔ ایک دوسرے کے خیالات کا احترام ، ایک دوسرے کی تہذیب کا ادب، ایک دوسرے کے مذہب اور رسوم و رواج کی عزت کی جانی چاہیے۔ ہمارا مذہب ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ تم کسی کے بت کو بھی گالی نہ دو کہ کہیں وہ بھی بدلے میں تمہارے خدا کو برا نہ کہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل سوشل میڈیا کو اپنے سیاسی، سماجی یا مذہبی عقائد کے پرچا رکیلئے استعمال کرتی ہے مگر ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کا خیال نہیں رکھا جاتا جو کہ انتہائی نا مناسب بات ہے۔ ۔۔۔۔ ہمیں تنقید برائے تنقید کی بجائے دلائل سے بات کرنے کی عادت کو رواج دینا ہے۔ ہمیں اندھی عقیدت کی بجائے حقائق ، شواہد اور علم کی بنیا دپر بات کرنے کی عادت اپنانا ہے۔ جھوٹ سے بچنا اور بلا تحقیق جھوٹی باتوں (Posts) کو آگے بھیجنا بحیثیت مسلمان ہمیں اس کی اجازت نہیں بلکہ کسی بھی تہذیب اور مذہب میں جھوٹ قابل نفرت سمجھا جاتا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر83میں ارشاد باری تعالیٰ ہے وَقُوْلُوْ ا لِلنَّاسِ حُسْنًا "اور لوگوں سے بھلی بات کہو " ہمیں تلقین کی گئی ہے کہ ہمیں دوسروں سے اچھی بات کہنا ہے یہ ہدایت ہمیں ہماری الہامی کتاب یعنی قرآن پاک دے رہی ہے۔ آج ہم یورپ، امریکہ ، برطانیہ ،آسٹریلیا ، جاپان اور دُنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ہر جگہ ایک کلچر جو وہاں کے ائیر پورٹس سے لے کر ہر ادارے میں نظر آتا ہے ۔ وہ"May I help you" " کیا میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں"ہے۔ چہرے پر مسکراہٹ اور یہ الفاظ انسان کی دوری اور اجنبیت کو مٹا دیتے ہیں ۔ مگر افسوس کہ بعض اسلامی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ میں ہمیں یہ تہذیب نہیں ملتی۔ بلکہ ہر ادارے میں خصوصاً ہمارے ہاں انتہائی غصے میں بات کی جاتی ہے او رٹیلی فون پر مکمل معلومات دینا تو ہماری روایات کے عین خلاف ہے۔ ہماری پولیس کے عمومی رویے سے لوگ ہمیشہ نالاں رہتے ہیں۔ افسوس ہم دوسروں کی تذلیل کرکے ، دوسروں کو انتظار کروا کے، دوسروں پر اپنے عہدے، اپنی کرسی کا رُعب ڈال کر خوش ہوتے ہیں جبکہ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک کا کلچر بھی ہمارے سامنے ہے۔آج ہمارے تمام شعبہ ہائے زندگی میں کیا صورتحال ہے؟ ہم کیسے رسول عربیؐ کے پیرو کا رہیں؟ کہ آج ہم رشوت ، بے ایمانی، ملاوٹ، جھوٹ، وعدہ خلافی ، ظلم، بچوں اور عورتوں (کمزوروں) پر زیادتی، دھوکہ دہی ، دوسروں کا حق مارنا اور بخل کو برائی سمجھنا چھوڑ چکے ہیں۔ کہیں ہم دین اسلام کے دائرے سے خارج تو نہیں ہو رہے ؟
آج ہم قانون کی پاسداری کو، ٹیکس کی ادائیگی کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں مگر پھر کیسے ہم ترقی یافتہ قوموں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ ہم بجلی چوری، گیس چوری، پانی چوری، آٹا چوری، چینی چوری، رمضان میں ذخیرہ اندوزی، اپنی ڈیوٹی سے لاپرواہی۔۔۔۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اُلجھنا۔۔۔۔ صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھنا ، کوڑا کرکٹ گاڑی سے باہر پھینکنا اور گھروں اور کام کی جگہ سے باہر سڑکوں پر گندگی پھیلانا ۔ ۔۔ ٹریفک لائٹس کی پرواہ نہ کرنا اور غرضیکہ کون سی ایسی سماجی برائی ہے جو ہم میں نہیں۔۔آج ہم نے اپنے رویوں کو دیکھنا ہے پرکھنا ہے۔۔۔۔ ایک دوسرے کی عزت کرنی ہے ۔ بڑوں کا ادب و احترام اور چھوٹوں سے پیار کرنا ہے۔ ایک دوسرے کے پیشہ کا احترام کرنا ہے۔ عورتوں ، بزرگوں کی عزت کرنی ہے۔ ۔۔۔

ای پیپر دی نیشن