وضاحتیں تشنہ طلب رہتی ہیں۔ وقت گزر جاتا ہے۔ حالات بدل جاتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی وضاحتوںکی ضرورت آج فرمان قائد،آئین پاکستان کی شق 251 اور عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد قومی زبان کے نفاذ کے فیصلے پر اپنی زبان کے لئے درکار ہیں۔زبان اور زباندانی کے ہزار سالہ سفر اور ہزار ہا سنگین پہلوئوں کو خو ردبین کے نیچے جانچا اور پرکھا جائے اور زبان کے پریشان کن باہمی اختلافی اثرات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ادیب اور شعراء حضرات بے زبانی کے احساس کو بہت حساس طریقے سے بیان کرتے ہیں مگر قوموں کی زندگی میں بے زبانی کے وصف کو زیادہ عرصے کے لئے برقرار نہیں رکھا جا سکتاکیونکہ زندہ قوموں کا تشخص ان کی زبان سے ہوتا ہے جس کا ذکر21مارچ 1948 کو حضرت قائداعظمؒ نے اپنی تقریر میں کیا تھا کہ: ’’پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی، ایک سرکاری زبان کے بغیر کو ئی قوم ایک لڑی میں پروئی نہیں جا سکتی اور نہ ہی ایک قوم کی حیثیت سے آگے بڑھ سکتی ہے۔‘‘
یہ حقیقت ہے جو قوم اپنی تاریخ بھول جاتی ہیں ان کا جغرافیہ انہیں بھلا دیتا ہے ۔ہماری قومی زبان اردو اورہماراجغرافیہ دونوں کا تاریخی پس منظر ہے ۔ قیام پاکستان میں اردو زبان نے بھرپور کردار ادا کیا ۔ اسلام کے بعد اردو زبان بھی قیام پاکستان کی بنیادی محرک تھی۔برصغیر پاک و ہند کے غریب، غلام،غیر منظم اور اقلیتی مسلمانوں نے برطانوی سامراج اور اپنے سے تعداد میں تین گنا سرمایہ دار ، منظم اور متعصب ہندوئوں کے مقابلہ میں اردو زبان کی حفاطت کے لئے جدوجہد کی، جس کے بعد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔مگراردو زبان کے بل پر قائم ہونے والی اس مملکت میں اپنی زبان کے ساتھ ناروا سلوک برتا گیا، کالے انگریزوں نے صاف ستھری اجلی زبان پر غیر ملکی زبان کا لبادہ اوڑھے رکھا اور خلافِ آئین قومی زبان اردو کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے۔الٹا اردو کی حریف ، اور برصغیر میں قومی زبان سے شکست کھانے والی انگریزی زبان کو قیام پاکستان کے بعد پہلی جماعت سے لازمی کر دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں انگریزی کی جڑیں مضبوط ہو گئیں اور اردو زبان کو کمزور کر کے اسے سرکاری زبان بنانے کی منزل دور کی گئی۔مگر قومی زبان کی حفاظت اور نفاذ کے لئے ہر دور میں اور ہر حکومت کے سامنے آواز بلند کی گئی۔ شاہراہوں، اور ایوانوں کے علاوہ عدالتی دروازہ بھی کھٹکھٹایا گیا۔ اپنے قومی تشخص سے مربوط اس قومی پہچان کو سچے اور کھرے پاکستانیوں نے فراموش نہیں کیا۔انگریزی کا پرچار کرنے والوں نے اپنے ہی ملک میں قومی زبان اردو کو دیگر زبانوں سے لڑانے کاواویلا مچا رکھا ہے۔ آئین اور قانون سے متصادم ایسے مطالبات ایوانوں میں پیش کئے جا رہے ہیں جو نہ صرف فرمان قائد سے غداری ، بلکہ توہین عدالت بھی ہے۔وہ شائد نہیں جانتے کہ قومی زبان نے برصغیر میں بھی ہندی زبان سے مقابلہ کیا اور مملکت خداداد کی زینت بنی۔
قومی زبان کے نفاذ کا ملبہ اس اشرفیہ پر بھی ہے جو روزانہ اپنے ذہن کو انگریزی میں تبدیل کرنے کی’’ مشق ‘‘کرتے ہوئے ’’نوکری ‘‘ بچا رہی ہے ۔ حالانکہ ان کے لہجے اور جسمانی حرکات ظاہر کر دیتی ہیں کہ وہ کسی’’ خالص‘‘ زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ اشرافیہ کو ایک بات سوچنے، کہنے، سننے اور سمجھانے کے لئے قومی زبان اردو ہی کام آتی ہے مگر تحریر انگریزی زبان میں لانے کی مجبوری سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔یہ مجبوری نافذ کی گئی ہے یا خود ساختہ ہے ۔ہرسرکاری افسر کے لئے اپنی کارکردگی مثبت اور ترقی کی سیڑھی بغیر ڈسے چڑھنے کی خواہش ہوتی ہے۔کارکردگی کا بیشتر انحصار،انداز گفتگو، اور انداز تحریر سے ہی ممکن ہے، اب جبکہ یہ طے کر لیا کہ انگریزی زبان قابلیت ہے تو ذہن انگریزی پر ہی اٹک کر رہ جاتا ہے۔پھر اس سیڑھی تک جانے اور چڑھنے کے لئے،نہ جانے کتنے وقت میں ’’خود ساختہ قابل ‘‘زبان میں انداز گفتگو اور انداز تحریر کیا جاتا ہے۔لمحہ بھر کے لئے بھی نہیں سوچا جاتا کہ میری قابلیت تو وہ زبان ہے جس میںسوچ کر میںیہاں تک آیا۔نہ صرف یہ بلکہ جس زبان میں ہم سوچتے ہیں وہ ہمیں ہمارے امور کی انجام دہی کے وسائل بھی بہم پہنچاتی ہے، یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی دوسری زبان وسائل پیدا کرے اور ہم کامیابی حاصل کر سکیں۔
انگریزی زبان کبھی اردو کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔ رکاوٹ وہ ذہنی سوچ ہو جو انگریزی بولنے سے دماغوں میں گھس بیٹھی ہے۔لارڈ میکالے نے کہا تھا :’’ہم ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں جو رنگ اور خون کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر مزاج طبیعت رائے،اخلاق و عادات اور فہم و فراست کے اعتبار سے انگریز ہو‘‘
یہی وہ سوچ تھی جو زبان کے ذریعے ذہنوں میں پیوست کر دی گئی اور ہم غلامی کے طوق سے باہر نہ آ سکے۔مگر اردو زبان سے محبت کرنے والوں نے ہر دور اپنی زبان کی بقاء کے لئے آواز بلند رکھی۔یہی وجہ ہے کہ عدالت عظمٰی نے قومی زبان کے نفاذ کا حکم نامہ جاری کیا،اور عملی اقدامات میں پیش رفت ہورہی ہے بہت سے اداروں نے انتظامی امور قومی زبان میں ڈھال لیے ہیں ۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہم بہت سارے قومی معاملات میں حکومت اور اداروں کے محتاج ہو کر رہ جاتے ہیں اور انفرادی کوششوں سے دور بھاگتے ہیں۔ عدالت عظمی کے نفاذِ قومی زبان فیصلہ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر کسی بھی فرد یا ادارے کا استحقاق مجروح ہو تو وہ، قانونی کاروائی کا حق رکھتا ہے یعنی ہم قومی زبان کے علاوہ کسی بھی دوسری زبان میں سرکاری کاغذات اور کاروائی قبول کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔ضمیر کی آواز اور اس عدالتی طاقت سے اپنی زبان کی حفاظت کے لئے زباندانی مانع امر نہیں۔عدالت عظمی کا فیصلہ طاقت کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس طاقت سے قومی زبان کے نفاذ کا راستہ ہو جائے گااور میرے خیال میں یہی وہ پہلا قدم ہو گا جو نفاذ قومی زبان کی منزل تک پہنچ جائے گا۔
٭…٭…٭
قومی تشخص سے مربوط قومی زبان …اردو
Feb 16, 2020