پی کے ایل آئی : ایک نیا سفر

Feb 16, 2020

ڈاکٹر یاسمین راشد

سب سے پہلے یہ بتانا ہے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ نہ صرف مکمل طور فعال ہے بلکہ اس میں بہت تیزی سے جدید ٹیکنالوجی اور نئی خدمات کا اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔گزشتہ سال ادارے کے بارے میں اٹھنے والے تمام خود ساختہ سوالات اور افواہوںکے درمیان یہ ادارہ ترقی کی نئی منازل طے کر رہا تھا۔ الحمداللہ گزشتہ ہفتے اس ادارے میں 73 واں گردے کی تبدیلی کا آپریشن کیا گیا۔سال رواں کا یہ ساتواں آپریشن ہے۔اسی طرح گزشتہ ہفتے جگر کا بھی ساتواں ٹرانسپلانٹ کیا گیا ہے۔
ہماری حکومت کے آنے کے بعد قانونی اور تکنیکی ماہرین کو ساتھ بٹھا کر ان کی مشاورت سے پی کے ایل آئی میں اس معیار کی شفافیت کو متعارف کروایا گیا جس کی اسے پہلے دن سے ضرورت تھی۔پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ ایکٹ 2014 میں جان بوجھ کر یا شاید غیرضروری جلدی کی وجہ سے کچھ ایسے سقم رہ گئے تھے کہ ادرے میں کار کردگی اور شفافیت دونوں میں گھمبیر مسائل پیدا ہو گئے تھے۔ ان مسائل پر تکنیکی ماہرین سے وسیع پیمانے پر مشاورت کے بعد ادارے کے انتظامی اور قانونی مسائل دور کئے گئے ہیں اور نئی اصلاحات کو مروجہ قوانین سے ہم آہنگ بنا کر ادارے کو درست سمت میں چلایا گیاہے۔ اس نکتہ کا ذکر بھی اہم ہے کہ گزشتہ حکومت کی جانب سے پی کے ایل آئی کے بارے میں میڈیا پر چلائی جانے والی مہم کے بر عکس تکنیکی ، مالی اور قانونی معاملات میں انتہائی لاپرواہی سے کام لیا گیاتھا۔پوری توجہ ادارے کو جلد سے جلد شروع کرنے پر پر مرکوز کی گئی اور بہت سے پیچیدہ معاملات پر پوراہوم ورک نہیں کیا گیا جس کا نتیجہ درجنوں آڈٹ پیراز کی صورت میں نکلا، یہاں تک کہ معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔ جدید مشینری اور آلات کی خریداری بڑے پیمانے پر کی گئی مگر ان میں استعمال ہونے والے خصوصی مواد کی سپلائی کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا جس سے وسائل کا بڑے پیمانے پر ضیاع ہوا۔
وزارت سنبھالنے کے بعد کی صورتحال یہ تھی کہ ادارہ قانونی ، تکنیکی اور انتظامی طور پر بہت سے مسائل کا شکار تھا اور حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج اسے فوری طور پر فعال بنانا تھا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات بھی موجود تھے کہ اس ادارے کے ایکٹ کی متنازعہ شقوں کا جائزہ لیکر ان میں پیچیدگیوں کو دور کر کے شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ ہمارے حکومت آنے سے قبل عدالت عالیہ نے ایک فارنزک آڈٹ کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں فنڈز میں بہت سی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ عدالت عالیہ ہی کے حکم پر اس وقت کے بورڈ آف گورنرز کو تحلیل کر دیا گیا تھا اور عارضی طور ایک ایڈہاک کمیٹی متعین کی گئی تھی۔
ایک اور مضبوط دلیل یہ بھی ہے کہ اتنے زیادہ وسائل کا استعمال اور بہتر طریقوں سے کیا جا سکتا تھا۔ جیسے کہ جگر اور گردوں کے امراض کا باعث بننے والی وجوہات کا تدارک، یا پھر پہلے سے موجود بڑے ہسپتالوں میں جدید یونٹس اور ماہرین کا اضافہ جس سے مطلوبہ نتائج بہترحاصل کئے جا سکتے تھے۔ لیکن چونکہ اس ادارے میں پہلے سے بہت سے وسائل لگا ئے جا چکے تھے اس لیے اب ایک ہی صورت تھی کہ ان وسائل کو ضائع ہونے سے بچایا جائے اور اسی ادارے کو پہلے سے بہتر شکل میں لایاجائے۔ یہ ذکر بھی اہم ہے کہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ 2014 ایکٹ سال 2014 کے دسمبر میں متعارف کروایا گیا۔ ہمارے سابقہ وزیر اعلیٰ کے تخئیل اور تصورات میں جنم لینے والے بڑے پراجیکٹس میںایک پی کے ایل آئی بھی تھا اور ان کو اس کی تکمیل کی جلدی بھی بہت تھی۔
سترہ ارب روپے کی خطیر رقم کے اس پراجیکٹ کے لیے وفاقی سطح پر موجود ایکنک جیسا فورم توکجاکسی پی سی ون بنانے کی بھی زحمت نہیں کی گئی اور اس سے اگلی بات یہ کہ اتنی بڑی رقم ایک ایسے ادارے کے سپرد کی گئی جس پر مکمل حکومتی کنٹرول بھی نہیں تھا۔ پھر قانونی نکتہ نظر سے حکومت کی مداخلت کو ادارے کے معاملات میں بہت محدود کر دیا گیا تھا۔ ہماری ٹیم نے قانون کے نئے مسودہ پر کام شروع کیا اور مارچ 2019 میں نئے ایکٹ کو پاس کیا گیا۔ نئے قانون کے تحت اس ادارے کو حکومتی کنٹرول میں کر دیا گیا ہے۔ ادارے کے معاملات میں انتظامی اور مالی شفافیت متعارف کروائی گئی ہے۔
مئی 2019 میں ادارے میں نئے بورڈ آف گورنر زکا قیام عمل میں لایا گیا جس میں تمام متعلقہ شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین اور معروف ناموں کا انتخاب کیا گیا۔ نئے بورڈ آف گورنرز میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ ہسپتال انتظامیہ کی بھی نمائیندگی ہو۔ اسی نوعیت کے دیگر انتظامی فیصلوںسے اس ادارے کو فعال بنا کر کام شروع کیا گیا ۔ اسی طرح ہسپتال کی اہم پوزیشنز جیسے کہ ڈین، ہسپتال اور میڈیکل ڈائیریکٹرز،نرسنگ اور فنانس ڈائریکٹرزاور دیگر اہم عہدوں پر انتخاب ایک سیلیکشن بورڈ کے اختیار میں دے دیا گیا ہے جو میرٹ پر قابل لوگوں کی بھرتی کو یقینی بنائے گا اس سے پہلے یہ بورڈ آف ڈائریکٹر کی مرضی پر منحصر تھا جس میں شخصی پسند اور نا پسند کا عنصر میرٹ کو متاثر کر سکتا تھا۔ مزید براں اب ادارے کی اراضی حکومت پنجاب کی ملکیت ہو گی جو کہ پہلے صرف ادارے کی ملکیت تھی۔ ہماری حکومت میں آنے کے بعد ادارے میں نئے ڈائیلاسز یونٹس کا اضافہ کیا گیا جس کا افتتاح وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اکتوبر 2019 میں کیا۔ ڈایلاسز مشینوں کی تعداد اب 63 تک جا پہنچی ہے اور ابھی اس میں مزید اضافہ جاری ہے۔ صرف سال 2019 میں مندرجہ ذیل نئی سہولیات کا اضافہ کیا گیا۔ایم آر آئی، لیور ٹرانسپلانٹ،لیتھوٹرپسی، سپیکٹ سکین، پیٹ سکین،لیب ہسٹو پیتھولوجی، ڈائیلاسز یونٹ ۲، اوران پیشنٹ بیڈ۔
پی کے ایل آئی کے بارے میں بغیر ثبوتوںاور تحقیق کے بہت سی افواہیں پھیلائی گئیں اور کسی نے اعدادوشمار کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی۔ اس ادارے کی کارکردگی کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کر نے کے لیے یہاں کچھ اعدادوشمار بیان کرنا چاہوں گی ۔اب تک اس ادارے میں 73 گردوں کی تبدیلی کے اپریشن ہو چکے ہیں جن میں سے 45 صرف سال 2018 میں ہوئے ہیں۔آوٹ پیشنٹ کے مریض سال 2019 میں 74119 تھے جبکہ سال 2018 میں یہ تعداد 61183تھی۔ سال 2019 میں آئی پی ڈی پیشنٹ ایڈ میشن 2493 تھے جبکہ2018 میں 1508تھے۔ ریڈیالوجی پروسیجر 2019 میں26073 تھے جبکہ سال 2018 میں یہ تعداد 18280 تھی۔ نیو کلئیر میڈیسن کا آغاز سال 2019 میں کیا گیا اور اب تک اس سے 613 مریض فائدہ اٹھا چکے ہیں۔سال2019 میں ڈائیلاسز کی تعداد 12974 تک جا پہنچی جو کہ سال2018 میں6140 تھی۔ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ سنسس کی تعداد سال 2019 میں1159 جبکہ سال 2018 میں یہ محض 106تھی۔یورالوجی اور گیسٹرو پروسیجرز کی تعداد 2559 تھی جو کہ سال2018 میں1646 تھی۔ادارے نے سال 2019 میں175514 پیتھالوجی ٹیسٹس کئے جو کہ سال2018 میں122413 تھے۔
آخر میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہوں گی کہ عوام کے ٹیکس کے پیسے سے پی کے ایل آئی پر بہت سے وسائل لگائے گئے ہیں۔حکومت وقت کا کام عوامی وسائل کا بہترین استعمال ہے۔ ہمارا یہ یقین ہے کہ ایک ایک پیسے کا استعمال امانت سمجھ کر کیا جائے ۔ یہ ادارہ عوام کی امانت ہے اور اس سے مریضوں کو بہترین سہولیات کی فراہمی ہماری اولین ترجیح ہے۔ میری ہر ممکن کوشش ہے کہ پی کے ایل آئی کو ایک سنٹرآف ایکسلنس بنا یا جائے اور اسے تحقیق اور پیشہ ورانہ مہارت کے حوالے سے ایک مثالی ادارہ بنایا جائے۔

مزیدخبریں