پڑھتے رہیں ہنستے رہیں، سنجیدہ نہ ہوں!!!!

Feb 16, 2021

محمد اکرام چودھری

پاکستان تحریکِ انصاف کو یہ کریڈٹ تو جاتا ہے کہ انہوں نے حکومت کا نیا انداز متعارف کروایا ہے یعنی جو بھی ہو جائے وہ ماضی کے حکمرانوں نے کیا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی ذمہ داری صرف یہ بتانا اور بیان کرنا ہی رہ گئی ہے کہ کب کیا، کس نے کیا، کیسے کیا اور کسی بھی کام میں کون کون شامل تھا۔ اس معاملے میں پاکستان تحریکِ انصاف کو پورا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے نئے انداز متعارف کروائے ہیں۔ چونکہ وہ تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آئے تھے لوگ جو مرضی کہیں لیکن وہ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ تبدیلی آئی ضرور ہے۔ ایک تبدیلی تو آپ کے سامنے ہے۔ دوسری تبدیلی یہ ہے کہ عام آدمی کو سخت حالات میں جینے کا ہنر سکھا رہے ہیں یہ وہ کام ہے جو آج تک کسی حکمران کو نصیب نہیں ہوا۔ ماضی کے حکمران عوام کو لالی پاپ دیتے تھے لیکن اس حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ حکومت نے براہ راست اور بالکل صاف شفاف انداز میں زندگی مشکل کر کے کمزور افراد کو مشکلات میں جینے کا ہنر سکھانے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ یقیناً یہ ایک بڑی قومی خدمت ہے کیونکہ ایسا دلیرانہ فیصلہ بھلا پی ٹی آئی کے علاوہ کون کر سکتا تھا۔ 
پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کے نعرے کے ساتھ میدان میں آئی تھی اس نے ملک کو بدلنے کا وعدہ کیا تھا اس نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ سب کچھ آہستہ آہستہ بدل رہا ہے۔ ملازمتیں کم ہو رہی ہیں، عام آدمی کے مسائل بڑھ رہے ہیں، روٹی مہنگی ہق گئی ہے، آٹا مہنگا ہو گیا ہے، دودھ مہنگا ہو گیا ہے، دالیں، گھی، سبزیاں پھل، گوشت، ادویات سب کچھ تو مہنگا ہو گیا ہے۔ ہمیں تبدیلی کا یہ رخ بھی تو دیکھنا چاہیے۔ انور مقصود کہتے ہیں کہ تبدیلی کا مطلب ہے الٹ پلٹ کر دینا تو پی ٹی آئی نے سب کچھ الٹ پلٹ تو کر دیا ہے اب عوام کو انتخابات سے پہلے سمجھ نہیں آ سکی تو کسی کا کیا قصور ہے۔ اب انور مقصود جیسی معتبر شخصیت کی تشریح کو تو غلط نہیں کہا جا سکتا سو ان کی تشریح کے مطابق تبدیلی کا جو مطلب تھا پاکستان تحریکِ انصاف اس معیار پر پورا اترتی ہے۔ انہوں نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ بجلی مہنگی کر دی، گیس مہنگی ہوتی جا رہی ہیں، گرمیوں میں بجلی کے بلوں سے عوام کی چیخیں آسمان تک جائیں گی پی ٹی ائی اور کتنی تبدیلی لا سکتی تھی۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو جس رفتار سے بڑھایا ہے ماضی میں یہ بھی کوئی نہیں کر سکا، کیا یہ تبدیلی نہیں ہے۔ اب آپ نے مجھے برا بھلا نہیں کہنا خود سوچیں کیا یہ حقیقت نہیں ہے۔
چلیں اب سینیٹ انتخابات کی طرف آ جائیں۔ فیصل واڈا ایم این اے بھی ہے اور سینیٹ کا ٹکٹ بھی لے بیٹھا ہے۔ اس کا دل ہی نہیں بھر رہا نہ وہ تھک رہا ہے دراصل اس پر قوم کی خدمت کا ایسا جنون سوار ہے کہ وہ کوئی جگہ چھوڑنا نہیں چاہتا وہ ہر جگہ ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہے کوئی پتہ نہیں اسے سینیٹ کے بعد صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ بھی دے دیا جائے۔ آپ سوچ کر بتائیں کوئی اور جماعت ایسی ہمت کر سکتی ہے۔ کسی میں اتنا حوصلہ ہے یہ کام صرف پاکستان تحریکِ انصاف ہی کر سکتی ہے کیونکہ یہ حقیقی طور پر عوام کی نمائندہ جماعت ہے اور اس کے منتخب اراکین اس حد تک عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں کہ وہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے، ان کے لیے اسمبلیوں کی کوئی قید نہیں وہ ہر جگہ جائیں گے جہاں جہاں انہیں موقع ملے گا وہ گھسیں گے اور گھس کر عوام کی خدمت کریں گے۔ اور دیکھیں فیصل واڈا کے سینیٹ ٹکٹ پر اسد عمر بھی بیان دے رہے ہیں وہ اسد عمر جو ملکی تاریخ کے سب سے کامیاب خیالی وزیر ہیں۔ گفتگو، اعلانات اور خوابوں خیالوں کی ترقی میں کوئی انہیں شکست نہیں دے سکتا۔ وہ اس میدان کے بلا شرکت غیرے چیمپیئن ہیں۔
چلیں اب اس عبدالقادر کو دیکھیں جس سے پی ٹی آئی نے اندرونی و بیرونی تنقید پر ٹکٹ واپس لیا تھا اس نے آزاد حیثیت میں کاغذات جمع کروا دیے ہیں یعنی ابھی کھیل جاری ہے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے، مال چلے گا، پیسہ لگے گا، عبدالقادر کے ٹکٹ ہو نہ ہو وہ سب کچھ تو ہے جس کی بنیاد پر الیکشن جیت سکتے ہیں۔ اس لیے انہیں ایسے ہی سمجھیں جیسے سری لنکا انیس سو چھیانوے کے ورلڈکپ میں آئی تھی اسے کوئی کچھ نہیں سمجھ رہا تھا اور وہ ورلڈکپ جیت گئی تھی۔ کیا پتہ عبدالقادر بھی حیران کن نتائج دیں اور ایک نئی تاریخ رقم کر دیں۔
عبدالقادر کی جگہ سینیٹ ٹکٹ ظہور آغا کو دیا ہے اور آغا صاحب کی بنیادی رکنیت ہی معطل ہے یقیناً انہوں نے کوئی چن چڑھایا ہو گا جس بنیاد پر ان کی رکنیت معطل ہوئی ہے۔ اب ایسا کرنے کی ہمت کوئی اور کر سکتا ہے یہ بھی پی ٹی آئی کی انفرادیت ہے کہ وہ غیر معمولی فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دلیری میں پی ٹی آئی قیادت کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ایک ہی طرح کے فیصلے کرنے، غلطیوں کو دہرانے، غلط موقف پر قائم رہنے اور الفاظ کو گھما پھرا کر پیش کرنے کا فن کوئی ان سے سیکھے۔ قوم کو یہ ہنر سیکھنے چاہییں۔ پاکستان تحریک انصاف قومی خدمت اور تربیت کے لیے اتنا کچھ کر رہی ہے۔  اب قوم ہی فائدہ نہ اٹھانا چاہے تو کسی کا کیا قصور ہے۔
ایک اور خبر سنیں وزیراعظم عمران خان نے خیبر پختونخوا کے گورنر شاہ فرمان، وزیر اعلیٰ محمود خان اور سابق سینئر صوبائی وزیر عاطف خان میں صلح کروا دی ہے۔ لڑائی کی بنیاد سازش کا الزام تھا اس الزم کی وجہ سے عاطف خان سمیت دیگر وزراء  کو فارغ کر دیا تھا۔ شہرام ترکئی بھی فارغ ہونے والوں میں شامل تھے۔ شہرام ترکئی پہلے ہی کابینہ میں واپس آ چکے ہیں اب صلح کے بعد عاطف خان کے راستے کی رکاوٹیں بھی دور ہو جائیں گی۔ یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اپنے ہی بندوں پر سازش کا الزام پھر فارغ پھر صلح پھر کابینہ میں واپسی ایسی اعلی ظرفی اور درگذر ہی تو ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں میں نظر نہیں آتا۔ اب شاہ فرمان اور محمود خان کو کون پوچھے کہ سازش کا الزام کیوں لگایا گیا تھا اور اگر وہ سازشی تھا تو اب کیا ضمانت ہے کہ دوبارہ سازش نہیں کرے گا کیونکہ سازش بھی ایک نشہ ہے جسے لگ جائے پھر چھوڑتا نہیں۔ دیکھتے ہیں ان دونوں کے خلاف اب کون سازش تیار کرتا ہے ویسے یہ الزام بھی مزے کا ہے سازش تو کچھ کرنے والوں کے خلاف ہوتی ہے۔ اگر کوئی کچھ کام بھی نہ کرے اور کہے کہ سازشیں ہو رہی ہیں تو یہ بات کچھ بنتی نہیں۔

مزیدخبریں