وزیر اعلی پنجاب مختصر دورے پر کوٹ مٹھن آئے۔ ہفت زبان سرائیکی صوفی شاعر و روحانی بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید کے مزار پر چادر چڑھائی اور جشن فرید میں شرکت کی خانوادہ فریدخواجہ غلام فرید کوریجہ کی طرف سے کوٹ مٹھن میونسپل کمیٹی کی بحالی کی تحریری درخواست پر وزیر اعلی نے انہیں بتایا کہ سابقہ بلدیاتی نظام کو بحال کیا جا چکا ہے نیبر ہوڈ کو ختم کر کے تمام یونین کونسلوں اور میونسپل کمیٹیوں کو بحال کیا جا رہا ہے سابقہ حلقہ بندیوں پر ہی بلدیاتی انتخاب کرائے جائیں گے۔سابقہ نظام میں کوٹ مٹھن کی میونسپل کمیٹی کی حیثیت دوبارہ بحال ہو جائے گی وزیر اعلی نے خواجہ غلام فرید کی ایک اور تحریری درخواست دربار فرید پر دس سالوں سے عائد پابندیوں کو ختم کرنے اور 2010 سے قبل کی صورتحال کی بحالی کے مطالبے پر سیکریٹری اوقاف کو خاندان فرید کی مشاورت سے اس بارے فوری اقدامات کرنے کی ہدایت بھی کی۔خواجہ عامر فرید کوریجہ کی طرف سے دربار فرید میں توسیع کے مطالبے پر ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار میر دوست محمد مزاری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دربار فرید کی توسیع کیلئے پنجاب حکومت نے 5 کروڑ روپے مختص کر دئے ہیں۔وزیر اعلی نے کچھ دیر محفل سماع میں بھی شرکت کی۔وزیر اعلی نے اگرچہ ضلع راجن پور کیلئے 15 ارب روپے کے منصوبوں کا اعلان کیا مگر شہر فریدکوٹ مٹھن کو اس پیکیج میں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا راجن پور کے منصوبہ جات میں شہر فرید میں ریسکیو آفس کے قیام کا منصوبہ شامل ہیبتایا گیا ہے کہ ریسکیو1122 کی ایک گاڑی کوٹ مٹھن میں موجود رہے گے۔ شہر فرید ایک تاریخی شہر اور خواجہ فرید کا مدفن ہے جہاں روزانہ اندرون و بیرون ممالک سے زائرین یہاں آتے ہیں فیری سروس کے ادوار میں شہر فرید کو ایک بہت بڑی تجارتی بندرگاہ کی حیثیت حاصل رہی ہے برصغیر پاک و ہند میں نقل و حمل میں کوٹ مٹھن سے ہی روٹس گزرتے تھے پانچ دریائوں کا سنگم اس کی امتیازی حیثیت تھی قبائلی اور پہاڑی علاقے بھی تجارتی طور پر کوٹ مٹھن سے ہی منسلک رہتے تھے۔اس کی اس حیثیت کے پیش نظر 1849 میں انگریزوں نیاسے تحصیل کا درجہ دے دیا 1862 کے سیلاب میں یہ شہر دریا برد ہو گیا تو عارضی طور پر تحصیل کے دفاتر نواحی قصبہ راجن پور میں شفٹ کر دیئے گئے۔1876 کو جب موجودہ کوٹ مٹھن شہر کی تعمیر مکمل ہوئی تو راجن پور کو ہی تحصیل بنا دیا گیا اس کے بعد سے یہ شہر اقتدار کے ایوانوں سے دور ہوتا چلا گیا۔اس علاقے میں حکمران آتے ہیں تو کوٹ مٹھن میں ان کی آمد دربار فرید پر حاضری تک ہی محدود ہوتی ہے۔ سابق ناظم ملک کمال فرید شہید کا مختصر دور جس میں سیاسی طور پر یہ شہر ضلع راجن پور کی سیاست کا محور سمجھا جاتا تھا ملک کمال فرید ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں شہید ہوئے تو سیاسی شخصیات نے اس شہر سے منہ موڑ لیا ہے یہاں اب ترقیاتی کام صرف اپنوں کو نوازنے کیلئے ہی ہوتے ہیں جو کرپشن کی نذر ہو رہے ہیں۔ ضلع راجن پور کیلئے وزیر اعلی کے پیکیج میں کوٹ مٹھن شہر کو نظر انداز کرنا کوٹ مٹھن کے مقامی سیاستدانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے جو مزاری اور دریشک سرداروں کے گن گاتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف ثحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں تحریک انصاف کے اپنے ذرائع بھی اس کو نہیں چھپا رہے ان ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وزیر اعلی ان اختلاف کو ختم کرانے کیلئے راجن پور آئے مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور تحریک انصاف راجن پور میں طاقتور دو دھڑوں میں بدستور تقسیم ہے۔وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار کی طرف سے 15 ارب روپے کے منصوبہ جات پر بھی بعض حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے عوام کی طرف سے راجن پور کے پہلو سے نکلنے والی سوئی گیس سے راجن پور کے عوام کو دور رکھنے پر بھی تنقید جاری ہے سماجی حلقوں نے اس پر اظہار رائے کرتے ہوئے کہا کہ سوئی گیس کے پائپ لائنوں کی حفاظت پر ضلع راجن پور سب سے زیادہ اخراجات برداشت کرتا ہے پنجاب کے 36 اضلاع میں سے 35 اضلاع میں سوئی گیس موجود ہے لیکن جہاں سے سپلائی کی لائینیں گزر رہی ہیں وہ اس سے محروم ہیں۔ جس سے یہاں کے لوگ احساس محرومی کا شکارہیں۔یہاں کی اکثریت وزیر اعلی کے دورے اور ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات پر خوش بھی ہیں کہ پاکستان کے قیام کے بعد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے ضلع راجن پور کے لوگوں کیلئے پہلی بار ایک بڑے پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے ان کے مکمل ہونے سے علاقے کے لوگ خوشحالی کی طرف سفر شروع کریں گے اور عمران خان کو ووٹ دینے کا کچھ تو انہیں صلہ ملا ہے۔
ضلع راجن پور کیلئے ترقیاتی پیکیج‘سوئی گیس کا مسئلہ جوں کا توں
Feb 16, 2021