مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی، دنیا خاموش کیوں

مقبوضہ کشمیر میں فوج کے خفیہ ٹارچر سیل سے 200 زندہ کشمیری لڑکیاں اور 500 سے زائد لاشیں برآمد ہوئی ہیں جبکہ جعلی مقابلوں کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کو شہید کرنا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ بھارت کے خلاف جرائم کی ایک لمبی فہرست ہے۔ لیکن یہاں صرف چند ایک واقعات کا ذکر بھارت کے تعصب اور مسلم دشمنی کیلئے کافی ہے۔ بھارتی حکومت کی زیر سر پرستی سمجھوتہ ایکسپریس پر دہشت گردانہ کارروائی کرتے ہوئے اسے آگ لگا دی گئی۔ جس کے نتیجے میں 42 پاکستانی شہید ہوئے۔ بھارت کے اندر مسلمانوں کے خلاف حکومت کی زیر سر پرستی تعصب کی آگ کا یہ عالم ہے کہ دہلی میں صرف فروری  میں 150افراد نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2014 سے 2019 تک گائو کشی کے نام پر 40سے زائد مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔مودی حکومت کی فرقہ واریت اور مسلم دشمنی کا زہر اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ بھارت میں پھیلی ہوئی کرونا وباء کا ذمہ دار بھی مسلمانوں کو ٹھہرایا گیا۔ بھارت کے متعصب میڈیا نے اسے کورنا مشن کا نام دیا تو کسی نے کورنا بم سے منسوب کیا۔ حد توبہ ہے دنیا بھر سے آئے ہوئے تبلیغی جماعت کے ارکان کو بھی نہیں بخشا گیا اور ان پر کرونا پھیلانے کا بھونڈا الزام لگا کر پابند سلاسل کر دیا۔ جن کو ابھی گزشتہ دنوں رہائی ملی ہے کیا یہ چند واقعات بھارت کو دہشت گرد ملک قرار دینے کیلئے کافی نہیں  دیں۔ لیکن بھارت کے پاکستان دشمن زہر یلے پروپیگنڈے کے مقابلے میں پاکستان کا بیانہ نہایت کمزور ہے سب ذمہ دار ہیں۔ بھارت کے صرف میڈیا کا ذکر کیا جائے تو وہاں کے 22 ٹی وی چینل بالخصوص ریپبلک ٹی وی کے اینکر ارنب گواسومی کے بد ترین نفرت انگیز تبصروں سے ایسے زیریلے جراثیم پھیلے کہ وہاں کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا جس کی بد ترین مثال اس وقت سامنے آئی جب کانپور میڈیکل کالج کی پرنسپل آر تی لال نے ان کیمرہ کہا کہ مسلم مریضوں پر حکومت کا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔یہ دہشت گرد ہیں ان کا علاج کرنے کے بجائے انہیں جیلوں میں بند کر دیا جائے یا زہر کا انجکشن لگا کر مار دیا جائے۔مسئلہ کشمیر ہو یا بھارت میں مسلم دشمنی کے واقعات مغربی دنیا بالخصوص امریکہ نے اسے کبھی درخواست کے قابل نہیں سمجھا لیکن اب مغربی دنیا کے علاوہ امریکہ کا ایوان اقتدار بھی اس ظلم و بربریت پر خاموش نہیں رہ سکا اور 10 جون کو امریکی وزیر خارجہ مائک پومیپو کی جانب سے جاری کر دہ ایک رپورٹ جسے میموئل برائون ہیک نے مرتب کیا تھا۔ بھارت میں مذہبی آزادی اور نسلی اقلیتوں کے عدم تحفظ پر تشدید تشویس کا اظہار کیا گیا ہے۔رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ بھارت کے آئین نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی جو ضمانت دی ہے اسے مکمل طور پر یقینی بنایا جائے۔ اس پورٹ کو نوائے وقت نے بھی اپنے صفحہ اول پر نمایاں جگہ دی ہے۔اس رپورٹ سے قبل مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن نے بھی بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے حملوں پر تشویس کا اظہار کیا ہے۔ امریکی کانگریش سے منظور شدہ 2019 عالمی مذہبی آزادی رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ شہری تنظیموں، مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے کارکنوں اور مختلف اقلیتوں، فرقوں کے مذہبی رہنمائوں پر آئے روز ہونے والے حملوں پر تشدد تشویش کا ظہار کیا۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کے خاتمے اور پارلیمنٹ کے ذریعے شہریت ترمیمی ایکٹ کی منظوری کا بھی بطور خاص ذکر ہے۔ آخر میں ایک بار پھر امریکہ میں ایک سیاہ فام کی ہلاکت پر ہونے والے پر تشدد مظاہروں کا ذکر کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ کیونکہ ان مظاہروں میں ایک پلے کارڈ نے یہ کچھ لکھنے پر مجبور کیا ہے۔ کس طرح اس کارڈ کے ذریعے مسلم امہ کی حمیت و غیرت کو جگانے کو کوشش کی گئی۔لیکن صد افسوس اس پر ہمارا میڈیا بھی خاموش رہا اور 57 مسلم ممالک کے بے حس حکمران بھی اپنے مادی مفاد کے حصارسے باہر نہ نکل سکے۔  حکموت پاکستان، وزارت اطلاعات و نشریات بالخصوص وزارت خارجہ کا بھارت اور کشمیر ڈیسک ان بین الاقوامی رپورٹوں، تبصروں، اور احتجاج کو کیوں کیش نہ کر ا سکا۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی قومی امنگوں کی عکاسی کرنے بالخصوص بھارتی میڈیا کے نفرت انگیز تبصروں کا مقابلہ کرنے اور ان کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے میں بری طرح نا کام ثابت ہوا ہے تاہم  یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ روز نامہ نوائے وقت روزانہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے لاک ڈائون کی طرف اپوزیشن اور حکومت کو متوجہ کرنے کا فرض احسن طریقے سے ادا کر رہا ہے جی ہاں۔ امریکہ میں ہونے والے احتجاج کا یہ پلے کارڈ جس پر تحریر تھا۔We ar not Arabsکیا لگا؟  ہم عربی نہیں کہ قتل پر خاموش رہیں گے۔ عربی سے ان کی مراد یقینا مسلمان ہوگی۔ ایک حدیث مبارک ہے کہ ’’ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔ ان بھائیوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری سے سے زیادہ مرکز اسلام پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن مادہ پرستی اور عیاشیوں کا پس پردہ کردار اپنے ملی فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ سعودی عرب میں ماڈرن ازم کا طوفان اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ وہان کا حکمران طبقہ کسی عوام دوست یا مسلم امہ میں غربت و بے روز گاری کے خاتمے کیلئے صنعتی پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق شاہی خاندان ہالی وڈ میں سرمایہ کاری کرے گا۔ جبکہ وہ پہلے ہی 500 ملین ڈالر کی ایک میوزک گروپ مین سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ آخر میں امارات کی شہزادی القاسمی کو خراج عقیدت پیش کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا جس نے سوشل میڈیا پر بھارتیوں کے مسلم دشمن نفرت انگیز تبصروں کے خلاف بھارتیوں پر شدید تنقید کرنے کے علاوہ ریاست بدر کرنے کی بھی دھمکی دے ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن