26 مارچ کیوں

عوامی حلقوں میں یہ بات زدوعام ہے پاکستان ڈیموکرٹیک مومنٹ نے  لانگ مارچ میں اتنا وقفہ کن وجوہ کی بناپر دیا۔حکومت مخالف تحریک کے آغاز میں تو اسمبیلوں سے استعفوں،سینٹ انتخابات کا بائیکاٹ اور لانگ مارچ کے ساتھ وزیراعظم کو استعفیٰ دینے کیلئے مہلت وغیرہ کا شور غوغا تو بہت تھالیکن اس سلسلے میں پی ڈی ایم کا غلغلہ بہت جلد بیٹھ گیا۔ گویااس لحاظ سے پی ڈی ایم نے اپنے اعلانات پر عمل نہیں کیا۔جہاں تک لانگ مارچ کا تعلق ہے بڑے شہروں میں جلسوں کا انعقاد اور ریلیاں تو کر لی گئیں اور کچھ شہروں میں ابھی جلسوں کا سلسلہ جاری ہے۔لانگ مارچ کے سلسلے میں تو ویسے موسم کے سرد ہونے کا بہانہ بنایا گیا لیکن اصل بات مولانا نے مخفی رکھی۔دراصل مدارس کے طلبہ کے امتحانات 25 مارچ کو اختتام پذیر ہو رہے ہیں۔اسی لئے مولانا نے لانگ مارچ کے لئے اگلے روز کا انتخاب کیا تاکہ وہ اپنے گذشتہ دھرنے کی طرح مدارس کے بچوں کو لانگ مارچ میں آسانی سے لا سکیں۔اس کے ساتھ وزیر داخلہ شیخ رشید تو پہلے ہی یہ بات واضح کر چکے ہیں اگر مولانا مدارس کے بچوں کو لانگ مارچ کے لئے لائے تو پھر قانون حرکت میں آئے گا۔ اخلاقی اعتبار سے دیکھا جائے تو سیاست دانوں کو اس طرح کا طرز عمل زیب نہیں دیتا کہ وہ مدارس کے طلبہ جو دینی تعلیم کے حصول کے لئے مدرسوں میں بھیجے گئے ہیں انہیں اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کریں۔مدارس کے زیادہ تر طلبہ کا تعلق غریب خاندانوں سے ہوتا ہے ۔بہت سے بچوں کے والدین تو انہیں مدارس میں چھوڑنے کے بعد بہت کم ان کا پتہ کرنے آتے ہیں۔لہذا ان طلبہ کو لانگ مارچ یا دھرنوں کی وجوہات بارے معلومات تک نہیں ہوتی بلکہ مدارس کے اساتذہ انہیں جہاں لے جائیں وہ جانے کو تیار ہوجاتے ہیں۔مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا زیادہ تر تعلق کے پی اور بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں سے ہوتا ہے۔انہیں سیاست دانوں کے لانگ مارچ اور دھرنوں سے کیا لینا دینا ہوتا ہے ۔یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے معصوم بچوں کو لانگ مارچ اور دھرنوںکیلئے لے آتے ہیں ۔موجودہ حکومت مدارس کے لئے اصلاحات لارہی ہے لیکن کبھی حکومتی ذمہ داروں نے اس طرف دھیان نہیں دیا وہ مدارس کے بچوں کو سیاسی سرگرمیوں کے استعمال کرنے کے خلاف ایک صدارتی آرڈننس کا اجراء ہی کردیں ۔عمل درآمد ہو یا نہ ہو آئے روز نئے آرڈننس جاری ہوتے ہیں۔پی ڈی ایم کی جماعتوں کو اس بات کا پورا ادراک ہے کہ عوام اب تمام سیاسی جماعتوں سے عاجز ہو چکے ہیں ماضی میں سیاست دانوں نے اقتدار میں آنے کے بعد عوام سے کئے گئے وعدوں کو جس طرح پورا کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے اپنے آخری پتے کے طور پرسرکاری ملازمین کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن حکومت بھی پی ڈی ایم کی سرگرمیوںپر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔اگرچہ حکومت کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میںاضافہ تو ماضی کی حکومتوں کی طرح بجٹ کے ساتھ کردینا چاہیے تھا ۔پھر پے کمشن بنا دیا گیا جس کی رپورٹ آج تک جاری نہیں ہو سکی ۔یہ کیسا کمشن تھا جو کئی ماہ سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کے لئے سوچ بچار کر رہا تھا۔اب سرکاری ملازمیں پر تشدد اور انہیں جیلوں میں ڈالنے کے بعد اگر رتنخواہوں میں اضافہ کر بھی دیا گیا تو حکومت کی جو جگ ہنسائی ہونا تھی وہ لوٹ تو نہیں سکتی۔یہی کام چند ماہ پہلے ہوسکتا تھا۔ شائد وزیراعظم کو مشورہ دینے والے جان بوجھ کر حکومت کو غلط مشورے دے کا حکومت کے لئے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔اب جو کہتے ہیں تنخواہوں میں اضافے سے اتنے ارب کو خزانے پر بوجھ پڑے گا تو یہ بوجھ پہلی حکومتوں کی طرح بجٹ کے اعلان کے ساتھ اٹھا لیاجاتا۔یہ امر تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہماری سیاست ذاتی مفادات کا مرقع ہے۔اب سینٹ ٹکٹوں کی تقسیم کا وقت آیا تو مولانا نے سب سے پہلے اپنی بھائی کو ٹکٹ دے دیا۔سیاسی جماعتیں یا تو امیر ترین لوگوں کو پارٹی ٹکٹوں سے نوازتی ہیں یا اپنے خاندان کے لوگوں کو ممنون کرتی ہیں۔تحریک انصاف نے بلوچستان کی سیٹ پر اسلام آباد کے ایک امیر کبیر شخص کو ٹکٹ دے دیا ہے جس کے خلاف پی ٹی آئی بلوچستان کے عہدے دار سراپا احتجاج ہیں۔پیپلز پارٹی نے اپنے لوگوں کو ٹکٹ دینے میں عافیت سمجھی ۔ البتہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے پرانے اور پارٹی کے لئے قربانیاں دینے والے پرویز رشید اور مشاہد اللہ خان کو ٹکٹ جاری کئے ہیں۔نواز شریف نے جمیعت اہل حدیث کے امیر پروفیسر ساجد امیر کو حسب معمول پارٹی ٹکٹ دے کر اپنے ووٹ بینک کو برقرار رکھنے کی اچھی کوشش کی ہے۔۔کوئی ہزار کوشش کر لئے ہماری سیاست میں روپے پیسے کاکھیل کبھی ختم نہیں ہوگا۔جن جن امراء کو پارٹی ٹکٹ دیئے گئے ہیں کیا وہ پارٹی کے لئے فنڈز نہیں دیں گئے جس کا روکے جانا کسی کے بس کی بات نہیں۔دراصل انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم سیاسی جماعتوں کے لئے ایک ذریعہ آمدن بھی ہے۔جو ارکان کروڑوں روپے کے اخرجات کرکے انتخابات میں کامیاب ہوکر آتے ہیں وہ اسبمیلوں سے استعفے ٰ کیسے دے سکتے ہیںاسی لئے تو سیاسی جماعتوں کے ارکان اسبملی نے استعفے کے آپشن استعمال میں لیت و لعل کیااور مستقبل قریب میں بھی اس بات کا قومی امکان ہے کہ ارکان اسمبلی اپنی نشستوں سے استعفیٰ نہیں دیں گئے۔اگر اپوزیشن جماعتیں استعفوں کے آپشن پر متفق ہوتی تو لانگ مارچ اور دھرنوں کے لئے پی ڈی ایم کو اعلان کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔اب تو حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوںمیں اضافہ کرکے انہیں رام کر لیا ہے پی ڈی ایم کی سرکاری ملازمین کو لانگ مارچ میں شریک کرنے کی امید دم توڑ گئی ہے۔بہرکیف مدارس کے طلبہ کو لانگ مارچ میں لانے کے بعد وفاقی دارلحکومت کا نقشہ ماضی کے لانگ مارچ اور دھرنوں سے مختلف ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن