سینٹ انتخابات کی آمد آمد ہے۔ کاغذات نامزدگی دھڑا دھڑ جمع ہو رہے ہیں۔ جنہیں ٹکٹ ملا وہ خوشیاں منا رہے ہیں اور جو محروم وہ نئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، اس شور میں اسلام آباد سے سینٹ کا انتخاب خاصی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے جہاں حفیظ شیخ کا مقابلہ یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہو گا۔ سننے میں آیا ہے کہ آصف زرداری میاں نواز شریف کو ان ہائوس تبدیلی کے لیے قائل کرتے رہے، میاں صاحب کے کچھ تحفظات تھے۔ دل سے وہ اور مولانا فضل الرحمن زرداری صاحب پر اعتماد نہیں کر رہے مگر اس موقع پر وہ ایک بار پھر زرداری صاحب کی باتوں میں آ گئے۔ زرداری صاحب نے بتایا کہ اسلام آباد کی نشست سے یوسف رضا گیلانی کو میدان میں لاتے ہیں وہ پی ڈی ایم کے مشترکہ اُمیدوار ہوں گے، واضح رہے کہ اسلام آباد کی نشست سے ووٹرز ممبرانِ قومی اسمبلی ہوتے ہیں چنانچہ اگر حکومتی اُمیدوار ہار جاتا ہے تو اسے گورنمنٹ پر عدمِ اعتماد تصور ہوتا ہے اور پھر اخلاقی طور پر حکومت کا جواز نہیں رہتا۔ بات میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی سمجھ میں تو آ گئی لیکن دل ابھی بھی اسے زرداری صاحب کی کوئی چال سمجھ رہا ہے۔ اسی پس منظر میں چند گزارشات اور حقائق سامنے رکھتا ہوں۔ مخدوم امین فہیم کو زرداری وزیراعظم نہیں بنانا چاہ رہے تھے اور ان دنوں ان کا رومانس یوسف رضا گیلانی کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ زرداری ایسا وزیراعظم چاہتے تھے جو ایوانِ صدر اور وہاں ہونے والی سرگرمیوں کی طرف قلعی نگاہ نہ کرے۔ شروع میں ایسا ہی ہوا۔ بحیثیت وزریراعظم یوسف رضا گیلانی کی کارکردگی خاصی اچھی تھی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہر روز شرکت فرماتے، اراکین اسمبلی بھی ان سے خوش، مگر تھے تو انسان ہی، انسان اپنا حصہ ہر قیمت پر وصول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ من مانی اور ڈیل شروع ہو گئی جس کا بڑے گھر کو علم تھا۔ زرداری صاحب کے چند خاص ساتھی جس میں ڈاکٹر عاصم، بابر اعوان، فرزانہ راجہ اور رحمن ملک تو وزیراعظم کو قطعاً اہمیت نہ دیتے اور دوسری طرف وزیراعظم کو بتا دیا گیا تھا کہ خارجہ اُمور میں آپ کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔ یہ باتیں بھی گیلانی صاحب کے لیے ہضم کرنا مشکل تھا۔سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔ اس دوران یوسف گیلانی نے بھی عدنان خواجہ، خرم رسول اور کچھ ذاتی ساتھیوں کی عجیب و غریب تقرریاں کیں۔ یہاں سے بات عدالتوں میں جا پہنچی اور پھر رفتہ رفتہ وہ دن آیا کہ ’’خط‘‘ کے معاملہ پر وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ سپیکر فہمیدہ مرزا نے کچھ توکف سے کام لینا چاہا۔ مگر بڑے گھر کے اشارے پر وہ بھی خاموش ہو گئیں اور یوں گیلانی صاحب قصہ پارینہ بن گئے۔ ان کی سیاست پانچ سال کے لیے ختم ہو گئی۔ اسی دوران بقول راوی سینٹ انتخابات میں فاٹا کے ایک اُمیدوار سے دس کروڑ کے عوض ٹکٹ کا وعدہ کیا، رقم پکڑ لی مگر ٹکٹ کے لیے زرداری صاحب نے انکارکر دیا جس کے نتیجے میں چھوٹا بیٹا اغوا ہو گیا اور غالباً اس سے بھی زیادہ رقم دے کر بازیاب کروایا۔ ان سب حالات میں ان کے اورزرداری کے درمیان کافی فاصلے آ چکے تھے۔ زرداری انہیں پیپلز پارٹی کا راجہ ظفر الحق یعنی اثاثہ نہیں بوجھ سمجھنے لگے۔ سوال یہ ہے کہ انہیں ٹکٹ دینے پر زرداری کیسے رام ہو گئے۔ کیا یہ یوسف رضا گیلانی کی خواہش تھی یا آصف زرداری کا ذاتی فیصلہ۔ اندر کی خبر جاننے والے کہتے ہیں کہ یہ زرداری صاحب کی ایک نئی چال ہے۔ یوسف رضا گیلانی کامیاب نہیں ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے ووٹ تو رہے ایک طرف ، سندھ کے کچھ ممبران اسمبلی بھی شاید گیلانی کو ووٹ نہ دیں۔ اگر خواجہ آصف کے پروڈکشن آرڈر جاری ہو گئے تو ووٹ شاید وہ بھی ان کو نہ دیں گے انہیں کسی ’’اور کے‘‘ ریلیف کی ضرورت ہے۔ مزید برآں گذشتہ 5 سالوں میں جب گیلانی اسلام آباد آتے تو انتہائی قریبی ساتھیوں کے ساتھ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی باتیں تفصیل سے کیا کرتے۔ ایسے حالات میں ہمیں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی اتنی روشن نظر نہیں آ رہی۔ ہاں اگر کوئی بہت ہی بڑی گیم پڑ جائے تو پھر کچھ بھی ہو سکتاہے۔وکلاء کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملہ کو نہایت سنجیدہ لیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نہایت سخت موقف اپناتے ہوئے کہا کہ اس حملہ کو 93ء میں سپریم کورٹ پر ہونے والے حملے سے زیادہ سیئریس سمجھتے ہیں۔ کیونکہ وہ حملہ سیاسی جماعت اور اس کے کارکنوں نے کیا تھا جب کہ یہ حملہ کالے کوٹ والوں نے یعنی قانون کے رکھوالوں نے کیا ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بہت مناسب موقع ہے اور قانون کو اپنا راستہ لینا چاہئیے۔ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے زمانے میں ایک جج جسٹس نواز عباسی نے ایک صحافی کے خلاف از خود نوٹس لیا تھا۔ بعد میں وہ کیس چیف جسٹس نے اپنی کورٹ میں لگوا کر از خود نوٹس واپس لے کر کیس بنٹا دیا تھا۔ساتھ یہ واضح کیا تھا کہ از خود نوٹس صرف چیف جسٹس لے سکتے ہیں حال ہی میں ممبران قومی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے اجراء کی خبر اخبار میں پڑھ کر سپریم کورٹ کے فاضل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے از خود نوٹس لیا اور بڑے بینچ کی تشکیل کی تجویز دی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ بنا کر کیس سماعت کے لیے لگایا۔ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم بارے کچھ باتیں کیں۔ ان کے پرنسپل سیکرٹری کی طرف سے آئے جواب اور اس میں انگریزی کی غلطیوں بارے کہا، نیز کچھ ایسی باتیں کیں جو ان کے منصب کے شایانِ شان نہیں تھی۔ اسی طرح واٹس ایپ پیغامات کی بات کی کہ جس کی تصدیق ابھی نہ ہو پائی تھی۔ اس پر اٹارنی جنرل نے نسبتاً سخت موقف اپنایا۔ المختصر بینچ نے کیس نبٹا کر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اب اس فیصلہ پر بھی جسٹس فائز عیسیٰ کو اعتراض ہے اور انہوں نے اپنا موقف پندرہ ججز کو خط لکھ کر آگاہ کیا ہے۔ جج صاحب کو اعتراض تھا کہ سپریم کورٹ سے فیصلہ میڈیا تک کیسے آیا جبکہ ان کا اپنا خط بھی میڈیا کی زینت بن چکا ہے۔ دوسری طرف سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ اس سارے معاملہ کے پیچھے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی ہیں۔ کیونکہ ان کے بیٹے ارسلان افتخار کے خلاف انکوائری شاید مکمل ہو چکی ہے اور قانون کا سخت شکنجہ ان کی طرف بڑھنے والاہے۔ ہماری ذاتی دانست میں فاضل جسٹس قاضی صاحبٰ کو اپنے خلاف ہونے والے ریفرنس کی کاروائی میں جہاں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے وہاں غیر ضروری سرگرمیوں سے اجتناب کرنا چاہئیے ۔ ہمارے دل میں محترم جج صاحب کی بے حد عزت ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ قانونی طریقے سے اپنی صفائی دے کر سامنے آئیں اس طرح ان کی نیک نامی میں اور اضافہ ہو گا۔