دو ماہ سے یہ بیانات سْنائی دے رہے تھے کہ آج 16 فروری کو میاں نوازشریف کا پاکستانی پاسپورٹ منسوخ کر دیا جائیگا کیونکہ اْنہوں نے اپنا پاسپورٹ رینیو نہیں کرایا ہے ۔ پاسپورٹ منسوخ کرنے کا مقصود کیا ہے ؟ کیا اس سے میاں نواز شریف کو پاکستان واپس لایا جا سکے گا ؟ یا پھر میاں نوازشریف کو پاکستان لانے کی تمام قانونی کوششیں ناکام ہو چْکی ہیں ۔اِسکے بعد سوال یہ ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ منسوخ ہونے سے میاں نوازشریف کی صحت پر کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ اْنکے پاس ویزا تو برٹش گورنمنٹ کا ہے جو انگلینڈ گورنمنٹ نے منسوخ کرنا ہے پاکستان نے نہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ میاں نوازشریف کے پاس انگلینڈ کا وزٹ ویزا ہی آٹھ سال کا ہے دوسرے انگلینڈ امیگریشن کے قانون میں حالیہ کووڈ 19 کے باعث کئی تبدیلیاں بھی ہو چْکی ہیں جن کے تحت اْنکے وزٹ ویزا کو کسی اور ویزے میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے تیسرے میاں نوازشریف کے بیٹے برٹش نیشنیلٹی ہولڈر ہیں اور انگلینڈ قانون کے تحت وہ 65 سال سے زائد عمر کے اپنے والد کو تاحیات بھی اپنے پاس رکھ سکتے ہیں وہ کسی سربراہ مملکت کے خصوصی طیارے پر بِنا پاسپورٹ بھی اْن کے مْلک میں جا سکتے ہیں اگر اِن تمام اِمکانات کو ایک طرف بھی رکھ دیں تو پاکستانی پاسپورٹ منسوخ ہوتے ہی وہ جینوا کنونشن کے تحت ریفیوجی سٹیٹس کیلئے انگلینڈ میں اپلائی کر سکتے ہیں جس سے اْنہیں یو این او کا انٹرنیشنل پاسپورٹ جاری ہو جائیگا جس پر وہ سوائے پاکستان کے دنیا کے متعدد ممالک کا سفر کر سکتے ہیں یواین او کے پاسپورٹ پر اگر وہ پاکستان آئیں تو اْن کا ریفیوجی سٹیٹس ختم ہو جائے گا لیکن میاں نوازشریف نے پاکستان آنا ہی کیوں ہے جب تک اْنہیں کوئی گرین سگنل نہیں مل جاتا اور گرین سگنل میسر ہو تو پھر کنگٹس برج لندن میں واقع پاکستانی سفارت خانے سے چند منٹوں میں قانون کیمطابق پاسپورٹ کے متبادل پروٹیکٹو سرٹیفیکیٹ جاری ہو جائیگا جہاں سے کوئی بھی پاکستانی اپنا پاسپورٹ بھی رینیو کرا سکتا ہے۔ اب پھر سوال وہی ہے کہ وہ کون سی دور کی کوڑی ہے جس سے میاں نوازشریف کا پاکستانی پاسپورٹ منسوخ ہوتے ہی لندن سے پاکستان تک ایسی دودھ کی نہر جاری ہو جائیگی جس میں بہہ کر لْوٹی ہوئی تمام دولت پاکستان پہنچ جائیگی۔میاں نوازشریف کا پاکستانی پاسپورٹ منسوخ ہونے پر ایک اور مفروضہ بھی سوچا جا سکتا تھا کہ اب وہ پاکستان نہیں آ سکیں گے اور اْن کا لندن میں اکیلے دل کیسے لگے گا وہ اپنے عزیز و اقارب سے سات سمندر دور ہونگے لیکن یہ مفروضہ بھی دَم ٹوڑ گیا جب یہ علم ہوا کہ میاں نوازشریف تو اپنے تمام اہل خاندان کے ساتھ ہی لندن میں مقیم ہیں اْنکے دونوں بیٹے حسن اور حْسین نواز اْنکی بیویاں اسحاق ڈار کی بہو اْنکی بیٹی اسماء اور اْسکے بچے سات پوتے پوتیاں ہروقت اْنکے ہمراہ ہیں میاں شہباز شریف کی فیملی بھی الگ سے لندن میں ہی مقیم ہے سلمان شہباز کی والدہ اْنکے علاوہ شہبازشریف کی دو بیٹیاں دو داماد اور اْنکی اولادیں بھی لندن میں رہائش پذیر ہیں میاں نوازشریف ہر وقت لندن میں پوتے پوتیوں کے ساتھ فیملی ٹائم انجوائے کرتے ہیں اْنکا ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان ہمیشہ اْنکے ساتھ رہتا ہے جو اْنکی دیگر میڈیکل اپوائنٹمنٹ بھی ڈیل کرتا ہے میاں نواشریف کے بیٹے حسن نواز کے لندن میں پراپرٹی بزنس کا آفس اْنکی ایون فیلڈ رہائش سے چھ منٹ کی پیدل مْسافت پر ہے جہاں وہ اکثر واک کرتے کرتے ہی پہنچ جاتے ہیں اور وہیں پر اْن کی میٹنگز بھی ہو جاتی ہیں تو اِس سب کے بعد اْنہیں پاکستانی پاسپورٹ کی ضرورت بھی کیا ہے اگر وہ منسوخ ہو یا رینیو ہو جائے۔ اعلانات تو یہ تھے کہ میاں نوازشریف کو واپس لایا جائیگا لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائیگی اگر اْس کا اب تک کوئی قابل عمل فارمولا قانونی طور پر بنایا جا سکا ہے تو اْسکے عملی نتائج سامنے آنے چائیں، خالی شور شرابے کے بیانات سے کوئی ملکی خدمت ہوتی تو بظاہر دکھائی نہیں دیتی البتہ ایسے اقدامات سے مشتعل ہو کر میاں نوازشریف کے حساس اداروں کے متعلق دئیے گئے بعض بیانات اْنہیں ملکی سیاست اور حالیہ سینٹ الیکشن سے کافی دور اوروزیراعظم عمران خان کے اقتدار کو مضبوط اور طویل کرنے کا باعث بنتے ضرور دکھائی دیتے ہیں اور پھر سینٹ الیکشن میں اوپن ووٹنگ کی مخالفت کر کے یہ ایک بار پھر اپنے پائوں پر کلہاڑی نہیں بلکہ کلہاڑی پر پائوں مار چکے ہیں کیونکہ خفیہ پولنگ سے فائدہ ہمیشہ گرین سگنل کو جاتا ہے لہذا بعض حکومتی وزراء کے اشتعال انگیز بیایانات چاہے کمزور پتے ہوں یا شکشت خوردہ چالیں اِنکے عوض وہ میاں نوازشریف سے اپنی مرضی کے بیانات ضرور نکلوا لیتے ہیں جس سے گرین سگنل حکومت کو میسر رہتا ہے۔