بکھیڑے ہی بکھیڑے

حکمرانوں اور سیاست دانوں کے قول و فعل میں تضاد ہی سب سے بڑا المیہ ہے۔ یوٹرن لینے کی رفتار گاڑیوں کا موڑ کاٹنے سے زیادہ ہے۔ ہمارا کون سا حکمران ایسا گزرا ہے جس کا دور حکومت عدل اور انصاف اور رضائے الٰہی پر مبنی تھا۔ پورے ملک میں خوشحالی تھی‘ اب تو سارا ملک بیت المال‘ زکوٰۃ‘ احساس پروگرام اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ پناہ گاہوں اور درباروں پر لنگر کھانے والوں کا ہجوم ہے۔ ریاست مدینہ تو وہ تھی جہاں زکوٰۃ دینے والے تو تھے لینے والا کوئی نہ تھا۔ قول و فعل میں تضاد کا نام منافقت ہے۔ 
بدعنوانی کی وجہ سے ملک کو غربت‘ امن و امان کی خراب صورتحال اور ناخواندگی جیسے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمیں نظام تعلیم حکومتی پالیسیوں‘ نجی شعبے کو بااختیار بنانے اور ان میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ صرف 23 ملین بچے سکول جاتے ہیں۔ جاگیردارانہ نظام نے تعلیم کو ہمیشہ سب سے کم ترجیح دی۔ صرف سڑکوں‘ پلوں‘ ڈیموں اور بجلی گھروں کا قیام کافی نہیں‘ علمی معیشت کا قیام ضروری ہے۔ تعلیمی ادارے ہفتے میں چھ دن پڑھائی کو یقینی بنائیں‘ کم سے کم چھٹیوں کی طرف آئیں‘ کووڈ کے نام پر ’’آن لائن‘‘ کلاسوں کا ڈھونگ رچایا گیا جس پر طالب علموں نے آن لائن امتحان لینے کا مطالبہ کر دیا تاکہ گھر بیٹھے نقل سے جواب تحریر کیا جاسکے۔ سیاسی تربیت گاہوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔ یونین ازم تربیت گاہ بھی ہوتی ہے۔ اقتدار اب کھیل کا نام ہے۔ سیاسی قوت کا اصل مرکز سبھی جانتے ہیں۔ عوام کو سیاسی کھلاڑیوں اور تماش بینوں دونوں کا علم ہے۔
 اب مہاتیر محمد اور طیب اروان کوئی کہاں سے لائے۔ وسائل پر طاقتور طبقات نے قبضہ جما رکھا ہے۔ معیشت آج تک دستاویزی نہ بن سکی۔ جماعتوں پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے۔ حکمرانوں کا مزاج جمہوری نہیں‘ پرلے درجے کا جاگیردارانہ ہے۔ سیاسی جماعتیں خود جمہوریت سے دور ہیں‘ سیاسی جماعتیں اس وقت جمہوری نظام کا دفاع کرنے میں اپنا کیس ہار جاتی ہیں۔ جب وہ خود اپنی جماعتوں میں یہ نظام تیار کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ اب سب کی نظریں 26 مارچ کے پی ڈی ایم لانگ مارچ پر لگی ہیں۔ سرکاری ملازمین نے اسلام آباد کا ریڈزون میدان جنگ میں تبدیل کی ملک بھر سے آئے ملازمین نے پارلیمنٹ کی طرف مارچ کیا تو پولیس نے دھاوا بول دیا۔ تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے سرکاری ملازمین کے احتجاج نے پرتشدد شکل اختیار کرلی۔
 حکومت نے سرکاری ملازمین کے احتجاج کو بھی سیاسی عینک سے دیکھا۔ نوبت گرفتاریوں‘ پتھرائو اور شیلنگ تک کیوں پہنچی۔ حکومت گریڈ ایک سے گریڈ 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں چالیس فیصد تک اضافے پر آمادہ ہے جبکہ ملازمین گریڈ 22 تک اضافہ چاہتے ہیں جبکہ چالیس فیصد اضافہ تنخواہوں میں نہیں‘ بنیادی تنخواہ Basic میں مانگ رہے ہیں۔ کوئی مہینہ نہیں جاتا کہ پٹرول بجلی گیس مہنگی نہ ہوتی ہو۔ اب بھی گیس 13.42 اور بجلی 1.53 روپے فی یونٹ مزید مہنگی کی جارہی ہے۔
 صارفین سے اضافہ فروری کے بلوں میں وصول کیا جائیگا۔ پی ڈی ایم کے مقاصد کے حصول کیلئے بنیادی چیز اتفاق رائے تھی لیکن بات ابھی تک نہیں بن سکی۔ پی ڈی ایم اس وقت صرف پریشر گروپ کے طور پر کھڑی ہے۔ مولانا دیگر جماعتوں کے کارکنان اور سول سوسائٹی کو متحرک نہیں کر سکے۔ 
سینٹ الیکشن کے بعد پی ڈی ایم کوئی نیا بیانیہ سامنے لائے گی یا ووٹ کو عزت دو میں شدت آئیگی۔ محاذآرائی اور کشمکش کا ایک نہ ختم ہونیوالا سلسلہ شروع ہے۔ 
سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں پی ڈی ایم کی قیادت نے بڑا سیاسی شو کرکے اپنے مخالفین کو مسلسل چیلنج سے دوچار کیا ہوا ہے۔ دلوں کے بھید اللہ جانتا ہے تو پھر کسی کے دل کی بات جاننے کی کوشش کیوں کی جائے۔ فری چوائس صرف خفیہ رائے شماری میں ہی ممکن ہے۔ ووٹ گھر یا گاڑی برائے فروخت نہیں ہوتے۔ 
ضمیر کا دوسرا نام ووٹ ہے کسی کے سر پر کھڑا ہو کر دیکھنا کہ وہ کسے ووٹ دے رہا ہے۔ اسے فری چوائس سے محروم رکھنا بیلٹ باکس میں ووٹ دکھا کر نہیں ڈالا جاتا‘ اسے ضمیر جانتا ہے یا پھر خدا! 
٭…٭…٭

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن