جہاں ضمیر نہیں کانپتے…

ہر پل میں پیار ہے ہر لمحے میں خوشی ، کھو دو تو یادیں ہیں ، جی لو تو زندگی، بہت سوچو کہ زندگی میں کتنے پل ہیں یہی دیکھو ہر پل میں کتنی زندگی ہے۔ کبھی غور فرمائیں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان گھر بدلتا ہے، لباس بدلتا ہے، رشتے اور دوست بدلتا ہے مگر پھر بھی پریشان اس لیے رہتا ہے کہ خود کو نہیں بدلتا ۔
’’دھول چہرے پہ تھی اور آئینہ صاف کرتا رہا ‘‘
ہم ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ اگر رزق عقل اور دانشوری سے ملتا تو جانور اور بیوقوف بھوکے مر جاتے ۔ حضرتِ انسان کی پریشانیوں کی ایک وجہ قناعت پسندی کی کمی ہے۔ یاد رکھو دنیا نصیب اور آخرت محنت سے ملتی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ لوگ محنت دنیا کیلئے اور آخرت کو نصیب پر چھوڑ دیتے ہیں اور حصولِ دنیا کیلئے کبھی کبھی سچائی اور اچھائی کی تلاش میں دَ ر بدر گھومتے ہیں ا ور یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر وہ آپکے اندر نہیں توکہیںبھی نہیں ملے گی۔ یہی یقین رکھنا چاہیے کہ ہو سکتا ہے کہ دنیا میں منافقت بازی لے جائے مگر آخرت سچے لوگو ں کی کامیابی کا دن ہے ۔ مولانا رومی سے کسی نے پوچھا کونسی موسیقی حرام ہے ؟آپ نے جواب دیا "امیروں کے برتنوں میں گونجتی چمچوں کی آواز جو بھوکوں اور غریبوں کے کانوں میں پڑے " میری ہمیشہ صاحبانِ اقتدار سے درخواست رہی ہے کہ اچھی حکمتِ عملی کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر کنٹرول کرنا اب بہت ضروری ہو گیا ہے ۔ یاد رکھنا بھوک انسان کو اپنی منزل سے ہٹا دیتی ہے یاد رکھو بھوکے لوگ اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں یہاں تک کہ حرام اور حلال کی تمیز بھی ختم ہو جاتی ہے۔ حکومتِ وقت کو کرپٹ لوگوں کے احتساب کے ساتھ چھوٹے بڑے مافیاز پر ہر صورت ہاتھ ڈال کر اپنی رٹ کو بحال کرنا ہوگا۔ آج پاکستان میں ایجو کیشن سیلز بے لگام ہیں کوئی اس طرف بھی توجہ دے ۔ صحت اور تعلیم دو اہم شعبے ہیں۔ پرائیویٹ سکولز اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے مافیاز کو کنٹرل کرنے کیلئے کوئی میکنزم بنانا ہوگا۔ ہر حکومت میں ایک تماشا دیکھنے کو ملتا ہے کہ مختلف مکتبہ فکر کے ساتھ سرکاری اور غیر سرکاری لوگ احتجاج کیلئے نکلتے ہیں ۔ مختلف چھوٹی بژی شاہراہیں بند کرتے ہیں ۔ لوگ انتہائی پریشان ہوتے ہیں ۔ بچے سکول نہیں جا سکتے ۔ لوگ اپنی ڈیوٹی پر نہیں پہنچ سکتے ۔کبھی کبھی آنسو گیس اور کبھی بارود کی بُو سونگھنے کو ملتی ہے ۔ میڈیا لوگوں کو ایمبولینسز میں مرتے دکھا رہا ہوتا ہے اور میڈیا پر کئی دن پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ بالآخر خبر آتی ہے کہ چیف منسٹر یا پرائم منسٹر نے نوٹس لے لیا ہے اور انکے مطالبات تسلیم کر لیے ہیں اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہوتا۔ اگر مطالبات جائز تھے تو احتجاج کی ضرورت کیوں پڑی اور اگر احتجاج شروع ہو ا تو اسی وقت نوٹس کیوں نہیں لیا گیا؟کیا یہ ضروری ہے کہ :"سو گنڈے اور سو چھتر کھا کر احتجاج ختم کروایا جائے"ہمیشہ دیکھنے میںآیا ہے کہ بغیر ٹائم ضائع کیے حکومت کے مخالفین فائدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں ۔ہمیں ہر شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور اس کیلئے بہترین ٹیم کا ہونا ضروری ہے تاکہ پاکستانی قوم کو مایوسی سے نکالا جا سکے کیوں کہ "مایوسی ایسی دھوپ ہے جو سخت سے سخت جسم کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے"کاش ہم بحیثیت قوم پریشانیوں کی گنتی کرنے سے پہلے نعمتوں کا بھی حساب کر لیں ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بلا تفریق سب کو Reliefدیا جائے ۔ کیونکہ آج غریب غربت سے تنگ آکر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ :
بُہتر ہور دے بدلے گزارہ ہک تے کر گھینوں
اکہتر ہور دے بدلے اسّاں کو رج کے روٹی دے
ہمیں ہر صورت وقت کی قد ر کرنا ہوگی اور اپنا اپنا کام ذمہ داری سے انجام دینا ہوگا ۔ تمام سرکاری ملازمین کو احساس ذمہ داری کے ساتھ سب سے پہلے دفاتر میں اپنی حاضری یقینی بنانی ہوگی۔ سیاستدان اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔ سرکاری افسران اپنی ذمہ داری نبھائیں اور جو سرکاری ذمہ داران راتوں کو چھپ کر اپوزیشن سے اس لیے رابطے میں رہتے ہیں کہ حکومت بدلنے پر پھر انھیں اچھی پوسٹنگز ملیں گی۔ انھیں کچھ تو خیال کرنا چاہیے ۔ ہمیں بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ اپنی موت کو یاد رکھنا چاہیے اور اپنے دفاتر میں لگے بورڈز پر نظر ڈالنی چاہیے کہ آپ سے پہلے کتنے لوگ آئے اور چلے گئے ۔
یقین جانیں کہ : "زندگی موت کی ابتداء ہے اور موت زندگی کا آغاز" آج ہم کشمیر کو پاکستان اور پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں مگر اس کیلئے ہمیں متحد ہونا پڑے گاکیونکہ "سینکڑوں کٹے ہوئے درخت ایک جڑ والے درخت کے سامنے کچھ بھی نہیں ۔ اپنی بنیادوں سے جڑے رہیں اسی میں بقاء ہے"
یاد رکھیں اللہ کی ذات ادھورے قصے مکمل کر دیتی ہے اور ہم کتنے ہی ارادے باندھ لیں اسکے "کُن"کے محتاج رہیں گے ۔ا ب دنیا کے سامنے سچ کہنے کا وقت آگیا ہے کہ غلط کو غلط کھُل کر کہیں کیونکہ تاریخ ٹکرانے والوں کی لکھی جاتی ہے تلوے چاٹنے والوں کی نہیں ۔ ہمیں عدل و انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت صالح علیہ السّلام کی اونٹنی کے قاتل چار لوگ ہی تھے مگر عذاب الٰہی پوری قوم پر آیا تھا باقیوں کا جرم صرف خاموش رہنا تھا۔ اگر ہم غصے کے وقت تھوڑا رُک جائیں اور غلطی کے وقت تھوڑا جھک جائیں تو زندگی آسان ہو جائے گی۔ آج شہداء کے خون سے بننے والی خداداد اسلامی مملکت پاکستان کے ساتھ کون کیا کھیل کھیل رہا ہے انھیں ضرور سوچنا چاہیے۔ قوم کی تقدیر کے ساتھ مذاق بند کر دیں یادرکھیں اپنے ذاتی مفاد کیلئے آج جو کچھ ہو رہا ہے اس پربیشک مجھے کہنے دیں کہ :
"جہاں ضمیر نہیں کانپتے وہاں زمین کانپ اٹھتی ہے"

ای پیپر دی نیشن