۱۔ قدرے تاخیر سے تبصرہ کرنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ مجھے پچھلے ہفتے ہی کتاب موصول ہوئی ہے۔ دراصل اسی موذی مرض کرونا نے سارا نظام زندگی ہی درہم برہم کر دیا ہے
جو شخص جس جگہ پر تھا … وہاں پر نہیں رہا
وہ لوگ جن کا راہوار زیست سر پٹ دوڑتا ہوا حتمی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے ، اکثر سوچتے ہیں کہ زندگی میں ایک ایسا مرحلہ بھی آنا تھا ، جہاں پر مرزا کا یہ شعر ہر وقت وردِ زبان رہتا ہے :
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا ۔
۲۔ ملک کی نامور شخصیات نے کتاب پر سیرحاصل بحث کی ہے جن میں چودھری اعتزاز احسن اور وسیم سجاد خاں پیش پیش ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی دوسرے کے کہنے کے لیے کچھ نہیں چھوڑتے !
گلدستہِ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضمون ہو توسو رنگ سے باندھوں
وسیم سجاد میرے کلاس فیلو رہے ہیں۔ قانون کی ڈگری کے بعد انہوں نے ’’موواوور ‘‘ کے طور پر ایم ۔ اے پولیٹیکل سائنس میں داخلہ لیا۔ میں اس وقت شعبہ سیاسیات کا سٹوڈنٹ یونین کا صدر تھا۔ ان سے گاڑھی چھنتی تھی۔ ملک میں جہاں کہیں بھی DEBATES ہوتیں میں انہیں بھیجتا۔ ہر دفعہ یہ ہو آتے اور انعام میں دی گئی کتابیں مجھے تحفتاً دے دیتے! اب اسے احسان فراموشی سمجھئے کہ ہر دفعہ میں ایک ہی سوال کرتا! آپ فرسٹ کیسے آ جاتے ہیں؟ لہجے کی کاٹ اعتزاز احسن سے تعلق کے ڈانڈے بزرگوں سے جا ملتے ہیں۔
تقسیم سے قبل ان کے والد ماجد تلہ گنگ میں تحصیلدار تعینات تھے اور ہمارے بنگلہ حبیب شاہ میں رہائش پذیر تھے۔ ظاہر ہے اس وقت ہم بہت چھوٹے تھے۔ ان سے علیک سلیک تو ایک عرصہ سے تھی لیکن ان کی شخصیت کا تجزیہ کرنے کا موقعہ اسوقت ملا جب یہ نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرتے ہوئے بیگم نصرت بھٹو کے ہمراہ گوجرانوالہ میں گرفتار ہوئے۔ ان کے ساتھ کھر اور جہانگیر بدر بھی تھے۔ میں اس وقت ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ تھا۔ جیل کی صعوبتوں سے بچانے کے لیے میں نے خانکی ہیڈ کے ریسٹ ہائوس کو سب جیل ڈیکلیئر کروایا اورانہیں عقوبت خانے سے نکال کر ’’لش پش‘‘ کرتے ہوئے ریسٹ ہائوس میں منتقل کر دیا۔ قریباً آٹھ دن تک یہ ’’سرکاری مہمان‘‘ رہے! وزیراعظم چاہتے تھے کہ کھر اور چودھری صاحب پر سختی کی جائے۔ وہ میں نے نہ ہونے دی اور پولیس کو سختی سے منع کر دیا۔ ان آٹھ دنوں میں میں نے ایک بات خاص طور پر نوٹ کی۔ ہرچند کہ چودھری صاحب ممتاز قانون دان ہیں ، شاعر اور ادیب ہیں۔ ملک میں ان کی مقبولیت کا گراف بھی زاویہ قائمہ بناتا نظر آتا ہے۔ باایں ہمہ انکے اندر کا جاٹ کبھی باہر نہیں نکل سکا۔ دبنگ ، ضد ، ہٹ دھرمی اور اکھڑ پن! ہاتھ میں قلم اور ’’موڈھے پر روایتی ڈانگ‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا۔ آکسفورڈ اور برکلے کی تعلیم بھی اس سندھی وڈیرے کو سرنگوں نہ کر سکی جو ان کے اندر ہُمک رہا تھا۔
۳۔ نثر کی متنوع اصناف میں آپ بیتی منفرد ذائقے کی حامل ہے۔ ناول افسانے میں ’’ہیرو‘‘ دوسرا ہوتا ہے جبکہ آپ بیتی میں لکھنے والا خود ہی ہیرو ہوتا ہے۔ آپ بیتی کو اگر فلم سے تشبیہ دی جائے تو یہ ایسی فلم ثابت ہوتی ہے جو ’’فلیش بیک ‘‘ پر استوار ہوتی ہے۔ سارا مزا اسی ’’فلیش بیک ‘‘ میں ہے۔ آپ بیتی ماضی نامہ سہی لیکن یہ ماضی پر مبنی نہیں! ماضی کے بیانات کا بھی قرینہ ہونا چاہئے۔ محض خاندانی کوائف قلمبند کر دینے سے بات نہیں بنتی۔ ہاں ماضی کے حوالے سے اگر تاریخی شعور ، ثقافتی تناظر، تخلیقی رویوں ، سیاسی امور، اہم شخصیات اور تہذیبی ورثہ پر اگر روشنی ڈالی جا سکے تو نہ صرف یہ ماضی کے بیان کا جواز مہیا ہو جاتا ہے بلکہ قاری کی معلومات میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس امر کے باوجود کہ آپ بیتی معلوماتِ عامہ کی کتاب نہیں ہوتی۔
۴۔لوگوں کی اکثریت کو بھوکے بیل جیسی اکتا دینے والی یکسانیت کی پیوست زدہ زندگی بسر کرنی ہے۔ ایسے لوگ جب کسی نامور شخصیت کی آپ بیتی کا مطالعہ کرتے ہیں تو اپنی بے رس زندگی کے تقابل میں انہیں آپ بیتی ناول جیسی پرکشش محسوس ہوتی ہے۔ ایسا قاری ’’کبھی یادوں کی برات‘‘ میں جوش ملیح آبادی کے معاشقوں کی تعداد سے چسکا لیتا ہے تو کبھی جہان دانش پڑھ کر احسان دانش کی محنت بلکہ مشقت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ ’’کار جہاں دراز‘‘ پڑھ کر حیران ہوتا ہے کہ کوئی عورت اس قدر نرگسیت کا شکار ہوسکتی ہے۔ سابق چیف جسٹس جاوید اقبال کی آپ بیتی ’’اپنا گریباں چاک‘‘ اس وجہ سے متنازعہ بن گئی کہ قارئین کی اکثریت کے ذہن میں فرزند اقبال کا جو تصور تھا یہ آپ بیتی اسکے برعکس ثابت ہوئی! یعنی بیسیوں اداکاروں کے ماڈلز! ’’شباب نامہ‘‘ نے رائے عامہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک عام قاری کیلئے ان کی تحریریں فیکٹ اور فکشن میں تمیز برتنا مشکل ہوگیا۔ اس لئے شفیق خواجہ نے اسے ایک اچھا ناول قرار دیا۔ ارشاد حسن خان صاحب کی طرح ان پر بھی آمریت کو سپورٹ کرنے کے الزامات لگے۔ حفیظ جالندھری نے تو یہ تک کہہ دیا…؎
جب کہیں انقلاب ہوتا ہے
قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے
انہوں نے بھی اپنے دفاع میں بہت کچھ لکھا لیکن اس طرح قوم کو مطمئن نہیں کرسکے جس طرح ارشاد حسن خان نے کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ خان صاحب ایک اچھے جج کے ساتھ کامیاب وکیل بھی رہے۔ انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ عوامی عدالت میں مقدمہ کس طرح لڑا جاتا ہے۔ شہاب صاحب کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کا تعلق ایک ایسی سروس سے تھا جسے ضمیر جعفری مرحوم نے سینگوں والی سروس کہا تھا۔ اس سروس کی رعونت کے متعلق جو عمومی تاثر پایا جاتا ہے اس نے ان کے حلم کو گہنا دیا۔
۵۔ آپ بیتی کی جو مندرجہ بالا پیراگرافس میں تعریف کی گئی ہے اس تناظر میں دیکھا جائے یا اس کسوٹی پر پرکھا جائے تو یہ سوانح عمری یکسر مختلف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انکی تحریر میں بے ساختہ پن ہے، سچائی ہے، گہرائی اور گیرانی ہے۔ جگہ جگہ آپ کو سوچ میں ڈالنے والے جملے ملتے ہیں، تشبیہ و استقامت کی جگہ قانونی محاوروں کی بھرمار ہے لیکن اس میں وہ ’’بارہ مصالحوں کی چاٹ نہیں ہے۔‘‘تالیف نسخہ ہائے وفا نہیں ہے! ہو بھی کیسے جس طفلک کو ہوش سنبھالتے ہی غم روزگار نے آگھیرا ہو جو ہجرت کے وقت رفیقِ ابلیس دیکھ آیا ہو۔ اسے ان اللوں تللوں اور فضولیات کیلئے فرصت کہا ملتی ہے۔ انہوں نے ان تھک جدوجہد کی، ایمانداری کو اپنا شعار بنایا، راست گری اور راست روی ان کا مسلک رہا۔ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں، کی حد تک پاکباز رہے، دست زلیخا کو دامن یوسف تک نہ پہنچے دیا۔
رشوتوں کی ہوا نہ چلنے دی، ظلمتوں کی نوا نہ چلنے دی
جب بھی روئی غریب کی چادر ، دیر تک کاٹتا رہا بستر
…………………… (جاری)
’’ارشاد نامہ‘‘ … منفرد سوانح عمری
Feb 16, 2021