پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیم خان کا دل للچا رہا ہے ابھی ان کا معاہدہ ختم ہونے میں کافی وقت باقی ہے لیکن انہیں ابھی سے معاہدے میں توسیع کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ مزید کام کرنے کے خواہشمند ہیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس کا انحصار گورننگ بورڈ پر ہے۔ وسیم خان کی خواہش پوری ہوتی ہے یا نہیں یہ تو الگ بحث ہے لیکن ان کا یہ کہنا کہ حقائق کے منافی ہے کہ اس کا انحصار گورننگ بورڈ پر ہے۔ کرکٹ بورڈ نے وسیم خان کے ساتھ دسمبر دو ہزار اٹھارہ میں تین سال کا معاہدہ کیا تھا اس معاہدے اور ان کی تقرری کو سترہ اپریل 2019 کی گورننگ بورڈ میٹنگ میں پانچ اکثریتی اراکین نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ ان کی تقرری کو کالعدم قرار دینے والوں میں نعمان بٹ، شاریز روکھڑی، ایاز بٹ، شاہ دوست دشتی اور کبیر خان شامل تھے لیکن گورننگ بورڈ اراکین کے اس فیصلے کو ماننے کے بجائے بورڈ حکام نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ہی بورڈ اراکین کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا پھر بغاوت کرنے والوں کو ڈرا دھمکا کر یا سبز باغ دکھا کر ساتھ ملا لیا۔ شاہ دوست کو لاہور ہائیکورٹ نے عہدے پر بحال کیا۔ نعمان بٹ کے علاوہ سب نے معافی مانگ لی یوں سب بورڈ کو پیارے ہو گئے اور اکیلے نعمان بٹ سزا کے حقدار ٹھہرے۔ اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے وسیم خان کا یہ کہنا درست نہیں کہ ان کا مستقبل گورننگ بورڈ اراکین کے ہاتھوں میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا مستقبل انہی لوگوں سے جڑا ہے جو انہیں پاکستان لے کر آئے تھے اگر لانے والے خوش ہیں اور رہے تو معاہدے میں توسیع بھی ہو گی اور تعریف بھی کی جائے گی۔ اس لیے گورننگ بورڈ کو اتنا طاقتور بنا کر پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے سب جانتے ہیں کہ اس بورڈ کی حیثیت کیا ہے۔ موجودہ بورڈ تو پہلے سے بھی زیادہ کمزور ثابت ہو گا کیونکہ یہ تو خالصتاً نامزد افراد پر مشتمل ہے۔ اس لیے یہاں سے ایسا اختلاف رائے بہت مشکل ہے۔ یہاں کوئی منتخب شخص موجود نہیں ہے۔ وسیم خان کے دور میں کھیل سے منسلک سینکڑوں افراد کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے، ملک میں نچلی سطح کی کرکٹ ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ ہونے کو آیا ہے بورڈ ابھی تک عبوری صوبائی کمیٹیاں قائم نہیں کر سکا۔ دیگر تنازعات اپنی جگہ ہیں۔ اس کے باوجود وہ معاہدے میں توسیع کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کا راستہ تو صرف اسی صورت روکا جا سکتا ہے اگر احسان مانی "رس" جائیں یا "رسے" رہیں اور وہ کوئی کھیل کھیلیں تو گڑبڑ ممکن ہے لیکن اس صورت میں بھی یہ انتہائی عمل ہو گا یقیناً وسیم خان اتنے کمزور نہیں ہیں کہ "بڑوں" کی موجودگی میں انہیں آسانی سے ایک طرف کر دیا جائے۔
کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیم خان کے مابین اختلافات کی خبر سینئر صحافی عالیہ رشید نے دی اور وہ اپنی خبر پر قائم بھی رہیں۔ گوکہ ایسی خبروں کی ادارہ کبھی تصدیق نہیں کرتا لیکن ایسی خبریں حقیقت سے قریب تر ہوتی ہیں۔ عالیہ رشید آج بھی اپنی خبر پر قائم ہیں۔ یقیناً اس حوالے سے وہ کسی نئی خبر کی تلاش میں ہوں گی یا وہ خبر تک پہنچ جائیں گی یا خبر ان تک پہنچ جائیں گی دونوں صورتوں میں کرکٹ کے حلقوں کو ایک نئی خبر ضرور ملے گی۔ ممکن ہے اس خبر کے بعد فریقین نے کوئی درمیانی راستہ نکالا ہو اگر ایسا مکن نہ بھی ہو تب بھی دونوں اپنے اپنے کام تو کرتے ہی رہیں گے۔ جہاں موقع ملے گا ایک دوسرے کو پھنسانے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔ چند روز سے پاکستان کے سابق کپتان محمد حفیظ اور سرفراز احمد کے مابین بیانات کی جنگ میں گذرے ہیں۔ حفیظ نے رضوان کو نمبر ون وکٹ کیپر قرار دیا تو سرفراز نے اس کا تفصیلی جواب دیا، وکٹ کیپر کے جواب پر حفیظ نے بھی جواب دیا یوں ان دونوں کے بیانات پر اب تک ہزاروں ٹویٹس ہو چکے ہیں ۔دنیا میں اس بحث سے منفی پیغام گیا ہے۔ کون غلط ہے کون درست یہ ایک الگ بحث ہے لیکن جس انداز میں "نمبر ون" اور "بھائی صاحب" پر زور ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کے مابین اختلافات ضرور ہیں یا دونوں ایک دوسرے کے بارے منفی خیالات ضرور رکھتے ہیں یا دونوں کے مابین پیشہ وارانہ تعلقات اتنے اچھے نہیں۔
جہاں تک تعلق حفیظ کے رضوان کو نمبر ون وکٹ کیپر بلے باز قرار دینے کا ہے تو اس کے جواب میں سرفراز احمد کا نہ بولنا ہی بہتر تھا۔ کسی زمانے میں رضوان بنچ پر بیٹھتے تھے اور سرفراز کپتانی کرتے تھے، ان کی تعریف ہوتی تھی۔ آج سرفراز باہر بیٹھتے ہیں اور رضوان ناصرف کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ سب ان کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔ انہی تعریف کرنے والوں میں ایک نام محمد حفیظ کا بھی ہے۔ رضوان نے یہ مقام محنت، کارکردگی اور نتائج سے حاصل کیا ہے۔ بالکل ویسے جیسے دو ہزار سترہ میں سرفراز نے حاصل کیا تھا۔ حفیظ نے اگر کچھ لکھ دیا تھا تو سرفراز کو اس پر کوئی ردعمل نہیں دینا چاہیے تھا۔ کیونکہ حفیظ کی ٹویٹ میں کسی کا نام تو نہیں لیا گیا اگر ایسے ہی ٹویٹ پر برا منانا پڑے تو کامران اکمل کو سب سے پہلے برا منانا چاہیے کیونکہ گذشتہ کئی برس سے مسلسل عمدہ کھیل کے باوجود انہیں ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔ سرفراز احمد کے جواب کے بعد محمد حفیظ کو بھی کوئی بات نہیں کرنی چاہیے تھی وہ خاموش رہتے تو بات مزید نہ بڑھتی لیکن حفیظ نے بھی جواب دیا یوں دونوں کی بیان بازی سے ایک تماشا ضرور لگا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب تماشائیوں کو سٹیڈیم آ کر کرکٹرز کو دیکھنے کی اجازت تو نہیں ہے تو ہمارے کرکٹرز نے سوشل میڈیا، ڈیجیٹل دور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شائقینِ کرکٹ کے لیے تفریح کا متبادل بندوبست کر دیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ ماضی قریب میں محمد عامر اور قومی ٹیم کے کوچنگ سٹاف کے مابین اختلاف رائے کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ اس سے پہلے سمیع اسلم کے ملک چھوڑ کر جانے کی وجہ سے بھی ملکی کرکٹ کی نیک نامی پر حرف آیا، جنید خان کے چہرے پر ٹیپ والے ٹویٹ نے بھی نظام پر سوالات اٹھائے۔ کھلاڑیوں کی طرف ٹیکسیاں چلانے، سیکیورٹی گارڈز بننے یا پھر سبزیاں اور پھل بیچنے کی خبروں سے بھی پاکستان کرکٹ کی ساکھ خراب ہوتی رہی ہے۔ دو سابق کپتانوں اور ٹیم کا حصہ رہنے والے کھلاڑیوں کی طرف سے حالیہ بیان بازی افسوسناک واقعات کا تسلسل ہے۔
شاید چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ بورڈ کے روزمرہ معاملات کو پورا وقت دے سکیں کیونکہ وہ ایک سے زیادہ اداروں کے ناصرف چیئرمین ہیں بلکہ متعدد اداروں کے بورڈ ممبر بھی عین ممکن ہے ان پر کام کا اتنا دباؤ یا بوجھ ہو کہ وہ کوشش کے باوجود اتنے عہدوں سے انصاف کرنے میں ناکام ہو رہے ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر دوسرے دن ایک نیا تنازعہ پاکستان کرکٹ کا منتظر ہوتا ہے۔ وہ قومی سطح کا ہو یا بین الاقوامی سطح کا دونوں صورتوں میں پاکستان کرکٹ کی ساکھ کو نقصان ضرور پہنچتا ہے۔ بہرحال محمد حفیظ اور سرفراز احمد کے مابین الفاظ کی جنگ بورڈ کی انتظامی معاملات پر کمزور گرفت کا نتیجہ ہے۔ جہاں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹیو کے مابین اختلافات کی خبریں آتی رہیں وہاں دو کھلاڑیوں کا آمنے سامنے آنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یہ رجحان نقصان دہ اور انتظامی ناکامی ہے۔ کیا کوئی اس کی ذمہ داری قبول کرے گا۔
وسیم خان کی خواہش،حفیظ، سرفراز تنازعہ اور دو بڑوں کے اختلافات !!!!!!
Feb 16, 2021