دوسروں کے ساتھ دوستی یادشمنی ہر صورت برقرار رکھنے کی عادت میرے اور آپ جیسے عام انسانوں ہی کو لاحق رہتی ہے۔سیاست دان خود کو ایسے بوجھ سے قطعاََ آزاد محسوس کرتے ہیں۔ان کی دوستیاں دشمنی اور مخاصمت دوستی میں بدلنے کو دیر نہیں لگاتی۔مفادات ان سے کچھ بھی کرواسکتے ہیں۔
گزشتہ چند دنوں سے گجرات کے چودھریوں کے لاہور والے گھر میں بہت رونق لگی ہوئی ہے۔آصف علی زرداری صاحب کے بعد شہباز شریف بھی ان کے ہاں چودھری شجاعت حسین کی عیادت کے بہانے گئے اور عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بات چلائی۔ ’’آنیاں جانیاں‘‘ سے جو فضا بن رہی تھی چودھری مونس الٰہی نے پیر کے روز اسے وزیر اعظم صاحب کی موجودگی میں ہوئی ایک تقریب میں ’’تماشہ‘‘ قرار دیا۔عمران خان صاحب سے یہ درخواست بھی کردی کہ تحریک انصاف کے متوالوں کو آگاہ کردیں کہ مذکورہ ’’تماشے‘‘ سے گھبرانا نہیں ہے۔
عمران خان صاحب مونس الٰہی کی تقریر دل پذیر سے بہت خوش ہوئے۔جوابی تقریر کرتے ہوئے چودھری شجاعت حسین کی سیاسی بصیرت کو سراہا۔ طنز بھری حیرت سے یاد دلایا کہ اپوزیشن رہ نمائوں کو کئی ماہ سے بیمار ہوئے چودھری صاحب کی ’’عیادت‘‘ کا ’’اچانک خیال آنا شروع ہوگیا ہے۔میں نے یہ فقرے انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی ایک ویڈیو کی بدولت سنے۔اسے سنتے ہوئے بہت کچھ یاد آگیا۔
جنرل مشرف کو اقتدار پر قابض ہوئے چند ماہ گز رے تھے توان دنوں تحریک انصاف کے باغی ہوئے اکبر ایس بابر کے ذریعے پیغام ملا کہ عمران خان صاحب مجھ سے ملاقات کے خواہاں ہیں۔سیاسی رپورٹر ایسی خواہشوں کے اظہار کے منتظر رہتے ہیں۔خان صاحب سے ملاقات کے لئے تحریک انصاف کے دفترچلا گیا جو ان دنوں اسلام آباد کے بازار روڈ جو ان دنوں بیگم سرفراز اقبال کی یاد سے منسوب ہے پر واقع ایک عمارت کی دوسری یا تیسری منزل پر قائم تھا۔
مذکورہ ملاقات میں عمران خان صاحب خودکلامی نما طویل گفتگو کرتے رہے۔انہیں قوی امید تھی کہ جنرل امجد کی قیادت میں قائم ہوا نیب ’’کرپٹ‘‘ سیاست دانوں کو قطعاََ معاف نہیں کرے گا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان میں موجود نہیں تھیں۔آصف علی زرداری صاحب کو نواز حکومت کے سیف الرحمن پہلے ہی جیل بھجواچکے تھے۔ جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد نواز شریف کو اٹک قلعہ کے تہہ خانے میں محصور کررکھا تھا۔ مذکورہ صورتحال عمران خان صاحب کی دانست میں تحریک انصاف کے خوش حال مستقبل کی راہ بنارہی تھی۔ میں نہایت توجہ سے ان کی گفتگو سنتا رہا اگرچہ ان کی سوچ مجھے ضرورت سے زیادہ خوش فہمی محسوس ہورہی تھی۔انہیں بحث کو اُکسانے کے لئے سرسری التجا کی کہ چودھری شجاعت حسین پر نگاہ رکھنا لازمی ہے۔ یہ بات سنتے ہی عمران خان صاحب چراغ پا ہوگئے۔مصر رہے کہ احتساب بیورو نے چودھری برادران کے خلاف جو ثبوت جمع کئے ہیں ان میں سے چند ان کی نظر سے بھی گزرے ہیں۔انہیں کامل یقین تھا کہ مذکورہ ثبوتوں کے ہوتے ہوئے چودھری برادران بھی طویل عرصے کیلئے جیل بھیج دئیے جائیں گے۔
میں نے ان سے بحث کرنا مناسب نہ سمجھا۔بحیثیت صحافی ویسے بھی انہیں بتا نہیں سکتا تھا کہ ان سے ملاقات سے چند ہی دن قبل میری جنرل مشرف کے دیرینہ دوست اور انتہائی بااعتماد مصاحب طارق عزیز صاحب سے بھی تنہائی میں طویل ملاقات ہوئی ہے۔وہ بہت مان سے اپنے بزرگوں کے چودھری ظہور الٰہی مرحوم سے تعلقات کا ذکر کرتے رہے۔یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ اور شجاعت حسین صاحب لاہور کے ایف سی کالج کے طالب علم رہے ہیں۔سروس انڈسٹریز کے چودھری احمد سعید بھی ان دنوں اس کالج میں تھے۔گجرات کے مقامی سیاست میں یہ خاندان چودھریوں کا دیرینہ حریف رہا ہے۔طارق صاحب کی مگر دونوں سے دوستی ہے اور ان کے باہمی اختلافات ختم کروانے کی کاوشوں میں مصروف رہتے ہیں۔کالج کے پرانے دوستوں میں طارق صاحب نے اوکاڑہ کے رائوسکندر اقبال کا ذکر بھی خلوص بھرے پیار سے کیا۔طارق صاحب کی گفتگو سنتے ہوئے ذات کے اس رپورٹر نے فوراََ طے کرلیا کہ جنرل مشرف کے دور میں ان تینوں سیاستدانوں کا کردار اہم ترین رہے گا۔عمران خان صاحب البتہ طارق عزیز صاحب کی اہمیت سے مجھے غافل نظر آئے۔
چودھری شجاعت حسین صاحب نے ہمیشہ یاد رکھا ہے کہ میں حبیب جالب صاحب کا ’’چمچہ‘‘ رہا ہوں۔ بسااوقات انہیں چودھری ظہور الٰہی مر حوم سے ملاقات کے لئے ان کے گھر لے جانا بھی میری ’’ڈیوٹی‘‘ میں شامل تھا۔ جالبؔ صاحب کی بدولت استوارہوئے تعلق کو چودھری صاحب نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔سیاست کے مشکل ترین لمحات میں بھی میرے اٹھائے ہر سوال کا تنہائی میں ہمیشہ دیانت دارانہ جواب دیا۔کئی اہم ترین خبروں کا کھوج لگانے میں میری مدد فرمائی۔2002ء کے دوران ان ہی کی مہربانی سے دریافت ہوا کہ عمران خان صاحب نے اس برس ہوئے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے کاغذات نامزدگی میں اپنے ’’پیشے‘‘ اور ’’آمدنی‘‘ کو کیسے بیان کیا تھا۔عمران خان صاحب کو چودھری صاحب ان دنوں ایک لمحے کے لئے بھی سنجیدگی سے لینے کو آمادہ نہیں تھے۔انہیں ایک کھلنڈراکھلاڑی ہی تصور کرتے رہے۔ حالات مگر 2011ء کے بعد بدلنا شروع ہوگئے اور بالآخر گجرات کے چودھریوں کو بھی 2018ء کے بعد عمران حکومت کے اتحادی کی حیثیت پر اکتفا کرنا پڑا۔
آصف علی زرداری کے ساتھ بھی چودھری شجاعت حسین کے تعلقات ہمیشہ ڈرامائی اتارچڑھائو کا اظہار رہے ہیں۔ 2006ء کا آغاز ہوتے ہی جنرل مشرف کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے باور کروادیا تھا کہ انہیں اقتدار میں رہنا ہے تو قاف لیگ کی سرپرستی چھوڑ کر پیپلز پارٹی سے مک مکاکرنا ہوگا۔عالمی ضمانتوں اور خواہشات سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی زرداری صاحب جبلی طورپر یہ محسوس کرتے رہے کہ گجرات کے چودھری جنرل مشرف کے ساتھ طے ہورہے بندوبست کے رنگ میں بھنگ ڈال سکتے ہیں۔ چودھری برادران بھی اس ضمن میں ہمیشہ چوکنا رہے۔
بہت کم لوگوں کو یاد رہا ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں جیل سے بالآخر رہائی کے بعد آصف علی زرداری صاحب چند دنوں کے لئے دوبئی چلے گئے تھے۔ وہاں کچھ روز قیام کے بعد انہوں نے وطن لوٹنے کا فیصلہ کیا۔دوبئی سے کچھ روز کے لئے سندھ آئے اور ’’خیر مقدمی‘‘ جلوسوں کے ساتھ وہاں کے کئی شہروں کا دورہ کیا۔ سندھ میں اپنی طاقت کی نمائش کے بعد وہ دوبئی لوٹ گئے اور وہاں سے لاہور آنے کے منصوبے بناتے رہے۔انہیں گماں تھا کہ ان کے لاہور پہنچتے ہی پرویز الٰہی صاحب کی وزارت اعلیٰ ڈگمگانا شروع ہوجائے گی۔
آصف علی زرداری صاحب کی ’’گج وج‘‘ کے ساتھ لاہور آمد سے چند دن قبل میری راولپنڈی کے ان دنوں متحرک ترین سیاسی کارکن اور بڑے بھائیوں جیسے دوست کبیر علی واسطی صاحب کے گھر پر ہوئی ایک ضیافت میں ملاقات ہوگئی۔میں چودھری صاحب کے دائیں ہاتھ بیٹھ گیا اور سرگوشی میں ان سے استفسار کیا کہ چودھری پرویز الٰہی صاحب آصف صاحب کے ’’استقبال‘‘ کی ’’تیاری‘‘ کس انداز میں کررہے ہیں۔
آواز بلند کئے بغیر چودھری صاحب نے نہایت اعتماد اور اطمینان سے انکشاف کیا کہ وہ اور پرویز الٰہی صاحب دو دن قبل ہی جنرل مشرف سے ملے تھے۔ پرویز الٰہی صاحب نے واشگاف الفاظ میں جنرل صاحب کو آگاہ کیا کہ آصف صاحب کے دورہ سندھ کے بعد وہاں کے افسر وزیرا علیٰ ارباب رحیم کے جاری کردہ احکامات کو کسی خاطر میں نہیں لارہے۔آصف علی زرداری کی ’’گج وج‘‘ کے ساتھ لاہور آمد کے بعد وہ اپنے ساتھ ایسا رویہ ہونے نہیں دیں گے۔
چودھری صاحب کی مذکورہ گفتگو کے بعد میں ہرگز حیرا ن نہ ہواجب پرویز الٰہی صاحب کی حکومت نے آصف علی زرداری کو لاہور لاتے طیارے کو ایئرپورٹ ہی پرگھیرے میں لے لیا۔آصف صاحب وہیں سے گرفتار کرلئے گئے اور ان کے استقبال کے لئے آئے کارکنوں کو عمومی لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال سے منتشر کردیا۔اس واقعہ کے بعد آصف صاحب دوبئی لوٹ گئے اور محترمہ کی شہادت کے بعد ہی وطن واپس آئے۔
محترمہ کی شہادت کے ذمہ داروں میں آصف صاحب نے چودھری پرویز الٰہی کا نام بھی لیا تھا۔ انہیں مگر گیلانی حکومت کو استحکام فراہم کرنے کے لئے بالآخر نائب وزیر اعظم بھی بناناپڑا تھا۔سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے میں آج بھی مصر ہوں کہ شہباز صاحب چودھریوں کے ہاں جتنے بھی پھیرے لگالیں مسلم لیگ (ق) نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کے ساتھ تعاون کو آمادہ نہیں ہوگی۔ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کی ’’دوستی‘‘ مگر ایک بار پھر قائم ہوسکتی ہے۔اس کے لئے بھی اگرچہ وقت درکار ہے۔فی الحال تو شہباز شریف صاحب نے فریاد ی کی صورت چودھری شجاعت حسین کے ہاں حاضری دے کر اپنی جماعت اور حامیوں ہی کو شرمندہ کیا ہے۔